جی سیون کی روسی تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے کی تجویز، انڈیا کے لیے بڑا امتحان
شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او کا سربراہی اجلاس ازبکستان کے شہر سمرقند میں جاری ہے۔
انڈیا بھی ایس سی او کا رکن ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اس سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ، روس کے صدر ولادی میر پوتن، ترک صدر رجب طیب اردوغان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی اس سربراہی اجلاس میں شریک ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے علاوہ وزیر اعظم مودی اور ایرانی صدر رئیسی کی ملاقات ہوگی۔ ایران ایس سی او کا رکن نہیں ہے لیکن مذاکراتی پارٹنر کے طور پر اس میں شامل ہوگا۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کو اس بار ایس سی او کا رکن بنایا جائے گا۔
ابراہیم رئیسی گذشتہ سال ہی ایران کے صدر بنے ہیں۔ پی ایم مودی رئیسی سے سمرقند میں اپنی پہلی ملاقات کریں گے۔ ایران یہ محسوس کرتا ہے کہ انڈیا نے امریکہ کے دباؤ میں ایران سے تیل کی درآمد بند کر دی تھی۔
2018-19 سے ہی انڈیا نے ایران سے تیل خریدنا بند کردیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران کے صدر انڈین وزیر اعظم سے کہیں گے کہ وہ روس کی طرح ایران سے تیل خریدنے کے معاملے میں امریکہ کے دباؤ میں نہ آئیں۔ اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں کے درمیان چابہار بندرگاہ، علاقائی روابط اور افغانستان پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔
انڈیا کے معروف ماہر توانائی نریندر تنیجا کا کہنا ہے کہ ‘ایران کئی بار انڈیا سے یہ کہہ چکا ہے۔ لیکن ایران اس معاملے میں اپنا موازنہ روس سے نہیں کر سکتا۔ انڈین کمپنیوں نے ایران میں تیل کے بہت سے ذخائر دریافت کیے تھے اور تلاش کرنے کے بعد ان کمپنیوں کو بے دخل کردیا گیا تھا اس طرح انڈیا کی تمام سرمایہ کاری ضائع ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایران نے بھی چابہار کے بارے میں ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کام بہت سست رکھا اور اس میں بھی چین کو زیادہ توجہ دی۔‘
تنیجا کا کہنا ہے کہ ‘ایران ہمارے لیے ایک اہم ملک ہے۔ اگر آپ وسطی ایشیا تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ایران ہی واحد راستہ ہے۔ افغانستان میں بھی ایران کے ذریعے ہی اس کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس بار پی ایم مودی اور ابراہیم رئیسی کی ملاقات ہوتی ہے تو بہت سے مسائل ہوں گے جن پر بات ہو سکتی ہے۔‘
رواں ماہ 5 ستمبر کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے فون پر بات کی۔ اسی دن انڈیا میں ایران کے سفیر نے بھی ایس جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔
روس سے تیل کی خریداری میں اضافہ
روس سے انڈیا کی تیل کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
روس نے رواں سال 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا اور اس کے بعد سے وہاں سے انڈیا کی تیل کی درآمد میں اضافہ ہوا ہے۔ مغربی ممالک نے روس کے خلاف سخت ترین پابندیاں لگائیں اور انڈیا پر روس کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ انڈیا نے توانائی کی اپنی ضروریات کے پیش نظر روس سے درآمدات میں اضافہ کر دیا۔
دوسری جانب یوکرین پر حملے کے بعد یورپی ممالک نے روس سے تیل اور گیس کی درآمدات میں کٹوتی شروع کر دی ہے۔ ایسے میں روس کو ایک اور خریدار کی ضرورت تھی۔ روس نے چین اور انڈیا کو خام تیل کی بین الاقوامی قیمتوں سے کم قیمت پر تیل کی پیشکش کی۔
انڈیا اور چین نے اسے ایک موقعے کے طور پر لیا اور روس سے درآمدات کا دائرہ بڑھا دیا۔ انڈیا نے مغربی ممالک کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اس کی ترجیح بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنا ہے، اس لیے روسی رعایتی تیل کی درآمد بند نہیں ہوگی۔
جی سیون کی روسی تیل پر قیمت کی حد مقرر کرنے کی تجویز
امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ روس کی اقتصادی سرگرمیوں کو مکمل طور پر روک دے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جی سیون ممالک روسی تیل پر قیمت کی حد مقرر کرنے یعنی پرائس کیپ کرنےکی کوشش کر رہے ہیں تاکہ روس اپنا تیل سستا نہ کر سکے۔
تاہم کہا جا رہا ہے کہ جی سیون کا یہ منصوبہ فی الحال زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ جی سیون دنیا کے امیر ترین ممالک کا ایک گروپ ہے۔ ان میں امریکہ، جاپان، جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور کینیڈا شامل ہیں۔ یورپی یونین بھی جی سیون کے اس منصوبے کے ساتھ کھڑی ہے۔
جی سیون ممالک چاہتے ہیں کہ چین اور انڈیا روس سے سستا تیل نہ خریدیں۔ جی سیون کی جانب سے قیمت کی حد کے منصوبے کے درمیان روس نے انڈیا کو مزید سستا تیل دینے کی بات کی ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے بزنس سٹینڈرڈ کو بتایا، ‘انڈیا جی سیون کی اس تجویز کی حمایت نہیں کرے گا’۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جی سیون دو قیمتوں کی حدیں طے کرنے یعنی پرائس کیپ کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ایک خام تیل پر ہو گا اور دوسرا ریفائنڈ مصنوعات پر۔ خام تیل پر قیمت کی حد اس سال 5 دسمبر سے اور ریفائنڈ مصنوعات پر اگلے سال 5 فروری سے لگائی جا سکتی ہیں۔
بھارت مشکل میں
کیا جی سیون کی جانب سے قیمت کی حد انڈیا کی مشکلات میں اضافہ کرنے جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں نریندر تنیجا کہتے ہیں، ‘ایسا لگتا ہے کہ جی سیون کی قیمت کی حد کارگر نہیں ہوگی، لیکن عملی طور پر یہ انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث ہوگی۔ روس سے انڈیا کو تیل سمندر کے راستے آتا ہے اور 95 فیصد سے زیادہ بحری جہاز مغرب کے ہیں۔‘
انڈیا کے پاس صرف 92 جہاز ہیں۔ قیمت کی حد نافذ ہونے کے بعد، جی سیون یورپی جہازوں کو روک دیں گے۔ اس کے علاوہ اگر تیل کسی کارگو میں آتا ہے تو اس کی انشورنس کی جاتی ہے۔ تمام انشورنس کمپنیاں بھی مغرب سے ہیں۔ مغرب ان انشورنس کمپنیوں کو قیمت کی حد کو نافذ کرنے کے لیے بھی روک دے گا۔
تنیجا کہتے ہیں، ‘جی سیون ان طریقوں سے روس کے خلاف قیمت کی حد نافذ کرے گا اور یہ انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث ہوگا۔
دسمبر سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا ڈر
دسمبر سے تیل کی قیمتوں میں آگ لگ جائے گی۔ انڈیا کا درآمدی بل مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں تجارتی خسارے کا دائرہ مزید بڑھ جائے گا۔ انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی دباؤ میں ہیں۔
معاشی معاملات پر لکھنے والے معروف کالم نگار سوامی ناتھن ائیر کہتے ہیں کہ یورپ بدترین توانائی بحران کے سامنا کر رہا ہے اور اس کے اثرات انڈیا پر بھی بہت بُرے پڑنے والے ہیں۔
سوامی ناتھن آئیر نے لکھا ہے، ‘انڈیا کا تجارتی خسارہ ایک ماہ میں 30 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ یہ رقم بہت بڑی ہے۔ ہم بہت مشکل وقت میں داخل ہو رہے ہیں۔ نہ صرف یورپ بلکہ ہم بھی مشکلات میں گھر رہے ہیں۔ اگر یہ صورتحال 12-13 ماہ تک جاری رہی تو انڈیا کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا۔ ایسے میں انڈیا کو بحران سے نہیں بچایا جا سکتا۔
روسی تیل کب تک؟
مئی میں انڈیا کو روس سے خام تیل 16 ڈالر فی بیرل سستا ملا تھا۔ جون میں ان انڈیا کو 14 ڈالر فی بیرل سستا تیل ملا۔ جبکہ اگست میں چھ ڈالر فی بیرل سستا ہوا۔
رواں سال جون میں عراق نے بھی انڈیا کو رعایتی قیمت پر تیل کی پیشکش کی۔ روس جس قیمت پر انڈیا کو تیل دے رہا تھا، عراق نے اس سے 9 ڈالر فی بیرل کم قیمت پر تیل کی پیشکش کی۔ اس کے نتیجے میں روس انڈیا کو تیل کی فراہمی کے معاملے میں تیسرے نمبر پر آگیا۔ جون میں سعودی عرب پہلے نمبر پر، عراق دوسرے نمبر پر اور روس تیسرے نمبر پر چلا گیا تھا۔
ایران بھی اس دوڑ میں انڈیا کے ساتھ آنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے ایران پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور وہ اپنا تیل فروخت کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن اس وقت امریکہ کی نظریں روسی تیل پر ہیں اور وہ روسی تیل کی برآمد کو روکنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں کہا جا رہا ہے کہ امریکہ ایران کے حوالے سے کچھ نرمی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
تنیجا کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ ایران پر سے پابندیاں اٹھا بھی لیتا ہے تو بھی ایرانی تیل فوری طور پر مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوگا۔ اس کے لیے کم از کم دو سال انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ اس کا بنیادی ڈھانچہ تیار نہیں ہے۔
ہمت دکھائے انڈیا
ایرانی حکام نے انگریزی اخبار ‘دی ہندو’ کو بتایا ہے کہ انڈیا کا ایران سے تیل خریدنے کا معاملہ ایک خودمختار ملک کے فیصلے جیسا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کا پابند نہیں ہے۔
ایک ایرانی اہلکار نے 2018 میں انڈیا کے ایران سے تیل نہ خریدنے کے فیصلے پر دی ہندو سے کہا تھا،’انڈیا اور ایران دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہیں، جن کے اپنے دوست اور خاص تعلقات ہیں۔ ہمیں باہمی تعلقات میں کسی تیسرے فریق کو مداخلت نہیں کرنے دینا چاہیے۔’
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور پی ایم مودی بھی چابہار بندرگاہ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ اسے انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور سے جوڑنے کی بات ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2016 میں ایران کا دورہ کیا تھا۔ مودی کے اس دورے کو چابہار بندرگاہ سے جوڑا گیا تھا۔ انڈیا کے لیے اس بندرگاہ کو چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی کے توڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اگر امریکہ روس کے خلاف سختی کے معاملے میں ایران کو رعایت دیتا ہے تو انڈیا ایران کا رخ کر سکتا ہے۔
انڈیا دنیا میں تیل درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ انڈیا پہلے ہی پرائس کیپ کے بارے میں بات کرتا رہا ہے۔ لیکن انڈیا قیمتوں میں بے حساب اضافے کے معاملے میں بات کرتا تھا نہ کہ سستے تیل پر کیپ کی بات کرتا تھا۔
یوکرین پر روسی حملے سے پہلے انڈیا روس سے صرف ایک فیصد تیل لیتا تھا۔ فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد انڈیا کی تیل کی کل درآمدات اپریل میں آٹھ فیصد اور مئی میں بڑھ کر اٹھارہ فیصد ہو گئی تھی۔ جولائی سے انڈیا کی روس سے تیل کی درآمدات میں کمی آئی لیکن یہ کمی انڈیا میں کی تیل کی مجموعی درآمدات میں تھی۔
2018 سے پہلے، ایران بھی انڈیا میں تیل کی سپلائی کے لحاظ سے ایک اہم ملک تھا۔ انڈیا کی تیل کی کل ضروریات میں ایران کا حصہ تقریباً 13 فیصد تھا۔