جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر سوشل میڈیا پر تبصرے چھڑی گئی، طاقت گئی
راولپنڈی کے وسط میں جنرل ہیڈ کوارٹر کا سبزہ زار منگل کے دن غیر معمولی طور پر فوجی بینڈ کی دھنوں سے گونجا جب پاکستان فوج کے 16ویں سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ چھ سالہ دور کے بعد انھی کے الفاظ میں ’گمنامی‘ میں جانے کے سفر کا آغاز کر رہے تھے۔
لیکن اس تقریب سے دور، جہاں جانے والے چیف نے نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو کمان کی چھڑی سونپی وہیں سوشل میڈیا کا میدان بھی سج چکا تھا جہاں کسی نے سابقہ چیف کو ماضی کی غلطیاں یاد دلائیں تو کسی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔
سوشل میڈیا کی اس بحث میں، جس میں سیاسی، صحافتی اور عوامی ردعمل شامل تھا، تنقیدی پہلو نمایاں تھا جبکہ ایسی آوازیں کم ہی تھیں جنھوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف خدمات کو بہتر الفاظ میں یاد کیا ہو۔
’فوج اور عوام میں اعتماد ٹوٹا‘
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف سے جڑے صارفین خاص طور پر جنرل باجوہ کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آئے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ اور رہنما تحریک انصاف اسد عمر نے ایک مختصر پیغام میں لکھا کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے پیچھے سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت اور سب سے بدترین چیز فوج اور عوام میں اعتماد کا ٹوٹا ہوا رشتہ چھوڑ کر جا رہے ہیں جس کی وجہ ان کے دور میں کیے جانے والے ان کے فیصلے تھے۔‘
اس رائے کا اظہار کرنے والوں میں اسد عمر اکیلے نہیں تھے۔
صحافی سید طلعت حسین نے لکھا کہ ’نئے آرمی چیف سید عاصم منیر کا سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ وہ کس طرح ریٹائرڈ جنرل باجوہ کے دور کے اثرات کو درست کرتے ہیں جن کے چھ سال کے دوران ملکی اور عسکری معاملات کا کوئی پہلو تنازع اور نقصان سے نہیں بچ پایا۔‘
طلعت حسین نے لکھا کہ ’یہ ایک بہت محنت طلب کام ہو گا۔‘
عوامی سطح پر بھی ایسے جذبات کی نمائندگی دیکھنے کو ملی۔
عبد الودود نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطورِ آرمی چیف چھ سالہ طویل ترین دور آج اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کے دور کو کس طرح یاد رکھا جائے گا یہ تو تاریخ فیصلہ کرے گی لیکن نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے پاس اب اختیار ہے کہ وہ عوام اور فوج کے درمیان کھنچی لکیروں کو بھرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘
’چھڑی گئی، طاقت گئی‘
تنقید کے اس سمندر میں ٹوئٹر صارف اور صحافی سیف اعوان ان گنے چنے افراد میں شامل تھے جنھوں نے یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ تمام تر تنازعات کے باوجود جنرل قمر جاوید باجوہ نے کچھ تاریخی اقدامات بھی کیے۔
انھوں نے لکھا کہ ’پاکستان کا گرے لسٹ سے نام نکلوانے میں نمایاں کردار ادا کیا، کرتار پور راہداری منصوبے کو مکمل کیا، ان کی وجہ سے آئی ایم ایف، سعودی عرب، عرب امارت، قطر اور برطانیہ نے عمران خان کی حکومت کو قرضے دیے، پاک افغان بارڈر پر باڑ لگوائی اور بارڈر سکیورٹی مضبوط کی، دہشت گردی تقریباً ختم کر دی، ٹی ٹی پی سے امن مذاکرات کیے، انڈیا کے حملے پر منہ توڑ جواب دیا، 2 طیارے گرائے، پھر انڈیا سے پرامن انٹیلیجنس مذاکرات شروع کیے اور لائن آف کنٹرول کو محفوظ اور پُرامن بنایا۔‘
تاہم ٹوئٹر پر ایک بڑے عوامی اور سیاسی طبقے کے خیالات کی نمائندگی شاید سعود عثمانی کے ان لفاظ سے کی جا سکتی ہے جنھوں نے اپنی ٹویٹ میں مطالبہ کیا کہ ’قمر جاوید باجوہ کے اثاثوں میں اضافے پر ان سے مکمل تفتیش اور جوابدہی ضروری ہے۔‘
’ان سے نہ کسی کو ہمدردی ہونی چاہیے نہ انھیں بچانا چاہیے، جیسے سیاست دانوں سے منی ٹریل مانگی گئی ویسے ان سے بھی مانگی جانی چاہیے۔‘
واضح رہے کہ حال ہی میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق سوشل میڈیا پر گمراہ کن اعدادوشمار شیئر کیے گئے۔ یہ گمراہ کن اعداد و شمار مفروضوں کی بنیاد پر بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں۔‘
اس بحث سے قطع نظر آج کی اس تقریب، جو جنرل قمر جاوید باجوہ کی حد تک ایک الوداعیہ تقریب تھی، پر صحافی مزمل سہروردی نے مختصر الفاظ میں جامع تبصرہ کیا۔
انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’جادو کی چھڑی جنرل باجوہ سے جنرل عاصم کے حوالے۔ ساری طاقت اس چھڑی میں ہے۔ جس کے پاس یہ ہے وہ طاقتور۔ چھڑی گئی، طاقت گئی۔‘