تیمور جھگڑا اور مفتاح اسماعیل کیا پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں، ’صوبوں کا عدم تعاون‘ آئی ایم ایف معاہدے کو متاثر کر سکتے ہیں؟
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے تصدیق کی ہے کہ وہ پیر کو وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل سے اہم معاشی امور کے حل کے لیے ملاقات کریں گے۔
گذشتہ روز تیمور جھگڑا نے مفتاح اسماعیل کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ’آئی ایم ایف کی شرط پر سرپلس بجٹ نہیں چھوڑ سکتے۔‘
اس خط کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے مطالبات کی منظوری تک آئی ایم ایف کے ساتھ وفاقی حکومت کے معاہدے میں تعاون نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔
خود حکومت نے بھی یہ الزام عائد کیا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دے رہی ہے۔
اس بحث میں مزید شدت اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے جمعے کو دنیا ٹی وی کے پروگرام میں بھی حکومت کے ساتھ تعاون نہ کرنے سے متعلق بات کی۔
انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کی بنیاد ہی یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا پیسے دیں گے اور اگر یہ دونوں صوبے انکار کر دیں گے تو پھر یہ ڈیل بھی نہیں ہو سکے گی۔
فواد چوہدری نے حکومت سے کہا ہے کہ ’آپ کو الیکشن کروانے پڑنے ہیں، اس کے علاوہ ان کے پاس آپشن بہت کم ہیں۔‘
تاہم جب گذشتہ شام توپوں کا رخ تحریک انصاف کی طرف مڑا تو تیمور جھگڑا نے اپنے خط کی وضاحت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ انھوں نے یہ خط آئی ایم ایف کو نہیں بلکہ وزیرخزانہ کو لکھا ہے۔
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ ’ہمیں اس وقت سیلابی صورتحال کا سامنا ہے، اور اس معاملے کو دیگر کسی بھی مسئلے پر فوقیت دی جانی چاہیے۔‘
تیمور جھگڑا کی جانب سے لکھے گئے خط کے بعد مفتاح اسماعیل نے انھیں فون پر ملاقات کا وقت دیا اور ’یوں بالآخر پیر کے روز ملاقات میں اپنے مسائل کے حل پر بات کریں گے۔‘
تیمور جھگڑا کے مطابق ’یہ افسوسناک ہے کہ پاکستان میں اپنی آواز سنانے کے لیے چیخنا پڑتا ہے۔‘
یاد رہے کہ تیمور جھگڑا نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وفاقی حکومت نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا، مجموعی طور پر 100 ارب روپے کے بقایا جات واجب الادا ہیں۔ موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کو فلڈ ریلیف دینا چاہیے۔
صوبائی وزیر خزانہ نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں صوبے میں ضم ہونے والے فاٹا (قبائلی علاقوں) کے بجٹ پر تحفظات تھے پھر بھی قومی مفاد کی خاطر آئی ایم ایف سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کروا کے 24 گھنٹے کے اندر وفاق کو واپس کر دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا کی حکومت، وفاق کی مضبوطی کے لیے کام کرتی رہے گی، ہم ساتھ ہی وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے مسائل بھی اٹھاتے رہیں گے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ساتویں اور آٹھویں جائزے پر مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں اور پاکستان نے لیٹر آف انٹینٹ پر بھی دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد آئی ایم ایف بورڈ کا 28 اگست کو اجلاس ہو گا، جس میں پاکستان کو ایک ارب ڈالرز سے زائد کی قسط جاری ہونے کا امکان ہے۔
’موجودہ صورت حال میں کسی بھی صوبائی حکومت کے لیے سرپلس دینا مشکل ہو گا‘
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ بھی کہا کہ پنجاب حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب سردار محسن لغاری کا کہنا تھا کہ ’موجودہ صورت حال میں کسی بھی صوبائی حکومت کے لیے سرپلس دینا مشکل ہو گا۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا پنجاب حکومت بھی وفاقی حکومت کو ایسا ہی خط لکھ سکتی ہے جیسا کہ خیبر پختونخوا نے لکھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت وہ سیلاب سے متاثرہ علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور ابھی تک ان کی اس سلسلے میں کسی سے بات نہیں ہوئی۔‘
محسن لغاری نے کہا کہ ’ہمارے صوبے کا ایک سرپلس بجٹ ہے لیکن اس وقت جو صورت حال ہےسیلاب کی وجہ سے، ہم پر ایک غیر متوقع طور پر بوجھ آ گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں، سکول، ہسپتال، نہروں کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔
’ہمارے لیے وہ سرپلس دینا مشکل ہو گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے صوبے کیا کریں گے؟ کیا ان کے پاس سرپلس ہو گا؟ وہ کیسے سرپلس دیں گے وفاقی حکومت کو؟‘
مفتاح اسماعیل نے جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’جمعے کی شام کو آپ مجھے ایک خط بھیج رہے ہیں اور ایک دن پہلے فواد چوہدری دھمکی دیتے ہیں کہ ہم ڈیل نہیں ہونے دیں گے تو کیا آپ پاور کے چکر میں پورے پاکستان کو سولی چڑھا دیں گے؟`
مفتاح سماعیل نے کہا کہ ’جو یہ بات کر رہے ہیں کہ این ایف سی بلاؤں، کیا وہ آسان ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ پیڈو کے واجبات ہیں، وہ کیا عمران خان کی حکومت میں ان کو مل گئے۔
’خیبرپختونخوا حکومت کو قبائلی علاقوں کے لیے کم پیسے دینے والی بات پر ہم نے کہا کہ ہمیں لکھ کر دیں کہ آپ کا کہاں کہاں خرچہ ہوا ہے؟ یہ زبانی بات نہیں ہو سکتی۔ ان کے پاس ابھی پیسہ ختم نہیں ہو رہا۔ یہ کوئی فوری مسئلہ نہیں کہ اس وقت اٹھایا جاتا۔‘
جب ان سے پروگرام کے اینکر شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ پروگرام ڈی ریل تو نہیں ہو گا؟ تو مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ ’کوئی مسئلہ نہیں آئے گا۔ پیر کے دن پروگرام منظور ہو گا۔ ہم نے بہت محنت کی ہے۔‘
تاہم اب یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا آئی ایم ایف کی شرط کے تحت صوبے وفاق کو ساڑھے سات ارب روپے کا اپنا شیئر دے سکیں گے۔ اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا تعاون نہیں کرتے تو ایسے میں کیا حکومت کے لیے آئی ایم ایف ڈیل حاصل کرنا ممکن ہو سکے گا؟
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر نجیب خاقان نے بی بی سی کو بتایا کہ اب آئی ایم ایف نے پیر کو پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی قسط کی منظوری دینی ہے۔
ان کے مطابق اس ڈیل کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کروا سکتی ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے ساتھ معاملات طے کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’مرکز اور صوبے معاشی امور پر کوآرڈینیشن کو بہتر بنا کر انھیں بہتر انداز سے حل کر سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان معاملات میں نیٹ ہائیڈل، فیڈرل ٹرانسفرز جیسے امور شامل ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے معاملے میں سابق فاٹا کے فنڈز کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔
تاہم وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کا معاہدہ حکومت پاکستان سے ہے اور آئی ایم ایف صوبوں سے ڈیل نہیں کرتا۔‘
مفتاح اسماعیل نے صوبائی وزیر خزانہ کے خط پر کیا مؤقف دیا؟
مفتاح اسماعیل نے اس خط پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’تیمور جھگڑا نے خط میں کہا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی۔‘
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ انھوں نے جمعہ کی شام تیمور خان جھگڑا سے فون پر بات کی اور اب وہ پیر کو ان سے ملنے اسلام آباد آئیں گے۔
جمعے کو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے تحریکِ انصاف پر تنقید بھی کی۔ انھوں نے کہا کہا کہ ’بڑی حیرت ہوئی کہ پورا ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور ہمارے کچھ نادان دوست اپنی سیاسی دکانداری چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔
’میں ہاتھ جوڑتا ہوں کہ خدا کے لیے اس وقت سیاست نہ کریں اور جو پاکستانی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ان کی مدد کے لیے آگے آئیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے ملکی معیشت داؤ پر لگا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ تیمور جھگڑا نے آئی ایم ایف میٹنگ سے پہلے آخری ورکنگ ڈے پر آئی ایم ایف کی شرط پوری نہ کرنے سے متعلق خط لکھا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے یہ پتا نہیں کیا چاہ رہے ہیں، آج کے دن ایسا خط لکھنے کی کیا ضرورت تھی، آپ دس دن اور انتظار نہیں کر سکتے تھے۔‘
ان کے مطابق تیمور جھگڑا نے خط لکھا اور کہا اگر آپ نے ہمارے دیرینہ مسائل حل نہیں کیے تو ہم آئی ایم ایف معاملات میں تعاون نہیں کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’فواد چودھری نے بھی اسی طرح کا بیان دیا اور شوکت ترین پنجاب میں بھی ایکٹو ہوئے، بعد میں فون پر تیمور جھگڑا نے کہا کہ یہ خط آئی ایم ایف کو نہیں لکھا۔‘
پاکستان کے وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان کو وفاق میں حکومت نہ ملے تو کیا وہ ملک کو ڈیفالٹ کروا دیں گے؟ انھوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے اور ان کی ہر ایک سازش کو ناکام بنائیں گے۔
کیا اب سیلاب کے بعد صوبوں کے لیے سرپلس بجٹ دینا ممکن ہو سکے گا؟
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کی صورت میں میکرو نمبر تبدیل ہو جائیں گے اور آئی ایم ایف کو بھی کچھ نرمی برتنا ہو گی۔
ماہرین کے مطابق اب آئندہ ریویو میں یہ اعدادوشمار ظاہر ہوں گے کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ خیال رہے کہ آئی ایم ایف ہر تین ماہ بعد اپنے پروگرام کا ریویو کرتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سیلاب کے اب تک نقصانات کا تخمینہ نو سو ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سیلاب سے گندم کی بوائی میں تاخیر ہو گی اور کپاس اور چاول کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان میں معاشی امور پر ریسرچ کا کام کرنے والے مقامی ادارے جے ایس بروکریج کے تخمینے کے مطابق موجودہ سیلاب کے نقصانات 2010 کے سیلاب سے زیادہ ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق مویشیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے گوشت کی قیمتیں اور فصلوں کی تباہی کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گندم کی فصل کی بوائی متاثر ہو گی اور پاکستان کو مزید گندم درآمد کرنا پڑے گی جبکہ چاول کی فصل کی تباہی سے اس کی برآمد میں کمی ہو گی۔