ترکی کے نرم گو رہنما، کمال قلیچ داراوغلو صدر اردوغان کے لیے خطرہ بن گئے ہیں
اُن کے ایک قریبی معتمد کہتے ہیں کہ وہ اتنے پرسکون ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ پریشان ہو کر جھلّا جاتے ہیں۔
اور پھر بھی 74 سالہ کمال قلیچداراوغلو کے پاس ترکی کے سب سے طاقتور لیڈر رجب طیب اردغان کو شکست دینے کا اب تک کا سب سے بڑا موقع ہے۔
وہ نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے سابق سرکاری افسر ہیں اور اس لحاظ سے وہ ترکی کے طاقتور صدر اردغان سے بالکل مختلف شخصیت ہیں۔
سنہ 2010 میں ’ری پبلکن پیپلز پارٹی‘ جس کا مقامی زبان میں ’جمہوریت خلق پارٹی‘ (CHP) نام ہے، کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے وہ کئی انتخابات ہار چکے ہیں۔ اس پارٹی کی قیادت سنبھالنے سے قبل ان کے پیشرو کو غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ سے پارٹی سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔
شاید فی الحال یہ مکمل طور پر واضح نہ ہو تاہم اس وقت حزب اختلاف کی چھ جماعتیں مسٹر اردغان کو چیلنج کرنے کے لیے ایک شخص کے پیچھے متحد ہو رہی ہیں۔
اور کمال قلیچداراوغلو ایک انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ وہ سنہ 2002 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تھے، اسی سال جب مسٹر اردغان کی حکمران جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ (Adalet ve Kalkınma Partisi) جسے مختصراً ’اے کے پارٹی‘ کہا جاتا ہے، اقتدار میں آئی تھی۔ وہ متعدد پرتشدد حملوں میں بچ گئے تھے جس کی وجہ سے انھوں نے ترکی کے سب سے زیادہ حملوں کا نشانہ بننے والے سیاستدان کے طور پر کافی شہرت حاصل کی ہے۔
پارٹی کے لیڈر کے طور پر اپنے 13 برسوں میں انہوں نے اپنی پارٹی کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے اور جیسا کہ وہ کہتے ہیں اپنے ملک کے ’تمام مختلف رنگوں کو اپنایا‘ یعنی اپنی پارٹی میں ہر طبقے کے گروہوں کو شامل کیا۔
ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کی نظریاتی بنیاد اور اس کا آغاز ترکی کے جدید سکیولر بانی کمال اتاترک سے جڑا ہوا ہے۔
اسے طویل عرصے تک ترک فوج کی ایک قریبی اتحادی پارٹی سمجھا جاتا تھا، جس نے سنہ 1960 سے اب تک چار بار حکومت کا تختہ الٹا ہے اور اسے مذہب اور ریاست کی تقسیم کے معاملے پر ہمیشہ ایک سخت گیر پارٹی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر سنہ 1980 میں فوجی بغاوت کے بعد ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) نے سکولوں اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری عمارتوں میں سر پر سکارف (حجاب) پر پابندی کی حمایت کی۔
کمال قلیچداراوغلو دسمبر سنہ 1948 میں ترکی کے مشرقی شہر تونجیلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں اور والد ایک سرکاری ملازم تھے۔ ان کے سات بہن بھائی تھے جن میں وہ چوتھے ہیں۔ ان کا تعلق ایک علوی خاندان سے ہے جو ترکیوں میں ایک الگ اسلامی اقلیتی فرقہ ہے جبکہ ترکی میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے۔
ان کے والد اپنی ملازمت کی وجہ سے جہاں بھی ٹرانسفر ہو کر جاتے وہ وہیں کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے۔ وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کا لوہا منوایا اور بعد میں انقرہ یونیورسٹی میں معاشیات کی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے ترکی کے مالیاتی اداروں میں ایک سرکاری ملازم کے طور پر کئی سال کام کیا اور سماجی تحفظ کے بڑے ادارے کے ڈائریکٹر کے طور پر کرپشن کو ختم کرنے کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔
سات سال پارلیمنٹ میں رہنے کے بعد انہیں ترکی کے سب سے طاقتور اور باوقار عہدے، استنبول کے میئر کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اگرچہ وہ یہ انتخاب ہار گئے تھے، لیکن اپنی موثر مہم کی وجہ سے ان کی بہت تعریف کی گئی تھی اور 37 فی صد ووٹوں کے ساتھ وہ ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے باوقار انداز میں شکست کھانے والے ایک بڑے لیڈر بن گئے۔
اس کامیابی کے ایک سال کے اندر اُس وقت کے ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے سربراہ کی ایک خفیہ معاشقے کی ویڈیو ٹیپ منظرِ عام پر آ گئی جس کی وجہ ان کی جماعت نے اُن سے زبردستی استعفیٰ لیا اور مسٹر کمال قلیچداراوغلو نے غیر متوقع طور پر خود کو اس پارٹی قیادت کے لیے اہم امیدوار کے طور پر پایا۔
ابتدائی طور پر انھوں نے پارٹی کی سربراہی کے لیے انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا، وہ اپنے پیش رو کے کسی سکینڈل کا فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن پھر ان کا موقف نرم ہوا اور انھوں نے بھاری اکثریت سے پارٹی قیادت کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب رجب طیب اردغان اپنی طاقت اور مقبولیت کے عروج پر تھے، سنہ 2011 کے انتخابات میں اپنی ’انصاف و ترقی پارٹی‘ (جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ) یا ’اے کے پارٹی‘ کے لیے تُرکی کے کل ووٹوں کا تقریباً نصف حاصل کر کے وہ جدید دور کے تُرکی کے سب سے کامیاب وزیراعظم بن گئے۔
ان انتخابات میں ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) دوسرے نمبر پر آئی، لیکن اس کے ووٹوں میں صرف پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے لیڈر نے تب سے سیاسی بکھیڑوں میں الجھی ہوئی اپنی پارٹی کے ووٹوں میں ایک چوتھائی حصے میں اضافہ کرنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔
لیکن اپنے 13 سال کی پارٹی قیادت کے دور میں انہوں نے پارٹی کے اندر ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے۔ انھوں نے رمضان میں افطار کے لیے افطار ڈنر میں شرکت جیسی سرگرمیوں کے ذریعے اسلام پسندوں کے ساتھ صلح کرنے کی کوشش کی ہے اور پارٹی کے پرانے ’عسکری ضابطوں‘ کا خاتمہ کیا ہے۔
پارٹی کی ایک سابق رہنما میلدا اونور نے کہا کہ ’جب میں پہلی بار ان سے ملی تو میں نے سوچا کہ وہ انقلابی رہنما نہیں بلکہ ایک ارتقائی رہنما ہیں۔‘
’وہ اپنے ہدف پر قائم رہتا ہے، ناقابل یقین سکون کے ساتھ اس پر قائم رہتا ہے، اور آخر میں آپ کو یقین ہو جاتا ہے۔ جب وہ سوچتا ہے کہ ایسا کرنا صحیح ہے تو وہ اپنے فیصلے میں غیر متزلزل ہو جاتا ہے۔‘
یہی وجہ ہے کہ ان کا خیال ہے کہ کمال قلیچداراوغلو کو اپنی پارٹی کو نئی شکل دینے اور صدارت کے لیے انتخاب کے لیے اس کی حمایت حاصل کرنے میں 13 سال لگے۔
اپنے پس منظر کے مطابق، انھوں نے سخت مالی نظم و ضبط بھی برقرار رکھا ہے۔ قریبی ساتھی اوکان کونرالپ نے کہا کہ ’وہ کسی بھی غیر ضروری چیز پر کوئی اضافی خرچ کرنے کے بارے میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترک معاشرے کو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) بدل چکی ہے انھوں نے مذہبی شخصیات، کرد کارکنوں اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں کو پارٹی میں شامل کیا۔
مِس اونور نے کہا کہ ’ریپبلکن پیپلز پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے پر مردوں کا غلبہ ہے، وہ اس دیوار کو پوری طرح سے گرا نہیں سکتے تھے لیکن وہ خواتین کے ساتھ کام کرنا پسند کرتے ہیں۔‘
پارٹی کے ایک ساتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے کبھی بھی بلند آواز میں کسی کو مخاطب نہیں کیا اور نہ بلند آواز میں کسی سے بات کی۔
انھوں نے کہا کہ ’بعض اوقات ان کی باتیں ہمیں پاگل بنا دیتی ہیں اور ہم اُس جھلّاہٹ میں چیخنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود، کمال قلیچداراوغلو اپنا شخصی ٹھہراؤ اور سکون برقرار رکھتے ہیں۔‘
ان کے ایک اور ساتھی نے بتایا کہ جب بھی کوئی ان کے کمرے میں داخل ہوتا ہے، وہ احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، میز کے پیچھے بیٹھے لوگوں سے کبھی بات نہیں کرتے ہیں، اور وہ کبھی کسی کو روکتے بھی نہیں ہیں۔‘
اس نرم بولنے والی فطرت اور سابق انڈین رہنما کے ساتھ ان کی جسمانی مشابہت کی وجہ سے کچھ لوگ انھیں کمال گاندھی کا نام بھی دیتے ہیں۔
جب اُن پر قاتلانہ حملے ہوئے تھے تو تب بھی وہ پرسکون تھے۔
انہیں سنہ 2014 میں پارلیمنٹ میں ایک مہمان نے دو بار گھونسا مارا تھا جب وہ اپنی پارٹی کے پارلیمانی ارکان سے تقریر کرنے والے تھے۔ گال اور آنکھ کے زخم کے باوجود، انہوں نے ساتھیوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کی تھی: ’جمہوریت کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔‘
سنہ 2016 میں ان کے قافلے پر کرد عسکریت پسند گروب ’پی کے کے‘ نے میزائل سے حملہ کیا اور پھر اگلے سال وہ عسکریت پسند دولتِ اسلامیہ گروپ کے بم حملے سے بچ گئے۔
وہ سنہ 2019 میں ایک فوجی کے جنازے میں شریک ہوئے تھے اور اُس دوران وہ ایک ہجوم کے حملے کی کوشش سے بچ گئے۔ جب اُن پر حملہ ہوا تو انھیں حفاظت کے لیے ایک قریبی گھر میں لے جایا گیا۔ ہجوم میں کھڑی ایک عورت نے لوگوں سے کہا وہ اس گھر کو جلا دیں۔
جب پولیس انھیں حفاظت کے لیے وہاں سے لے گئی تو انھوں نے بعد میں کہا کہ ’یہ کوششیں ہمیں روک نہیں سکتیں۔‘
لیکن سنہ 2016 کی ناکام بغاوت کے بعد کمال قلیچداراوغلو کی شہرت ترکی سے بھی باہر پھیل گئی۔
جب صدر اردغان نے اختلاف رائے پر کریک ڈاؤن کیا، ہزاروں ترکوں کو گرفتار اور برطرف کیا جو بغاوت کے منصوبہ سازوں سے جڑے ہوئے تھے، تب اپوزیشن لیڈر کمال قلیچداراوغلو نے انقرہ سے استنبول تک 450 کلومیٹر (280 میل) پیدل چلتے ہوئے انصاف کے لیے ایک مارچ کا آغاز کیا جو ’مارچ فار جسٹس‘ کہلایا۔
اپنے مارچ کی کامیابی کے باوجود انھوں نے اگلے سال صدارت کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے مزید پانچ سال انتظار کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ اپنی پارٹی کی حالت کو مزید بہتر کر سکیں۔
اُس وقت وہ کوئی واضح طور پر صدارتی امیدوار نہیں تھے، تاہم انھیں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت کرنے کے لیے قائل کرنے میں کئی ماہ لگے۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی کے پاس اُس سے بہتر مقررین ہیں، اور استنبول اور انقرہ میں میئر کی دوڑ جیتنے والی اعلیٰ شخصیات بھی ہیں۔
لیکن اپوزیشن کے خیال میں جب ان کا حریف (اردغان ) اپنے سیاسی کیریئر میں سب سے کمزور حالت میں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انھیں شکست دینے کا اُن کے پاس ایک تاریخی لمحہ ہے۔
کمال قلیچداراوغلو اپنے پیچھے اپوزیشن کی چھ جماعتوں کو متحد کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں جن کے پاس دوسری صورت میں متحد ہونے کے لیے بہت کم مشترکہ باتیں ہیں۔
اوکان کونرالپ نے کہا کہ ’میں نے کبھی ان کے منہ سے نفرت کا لفظ نہیں سنا۔ وہ کسی سے ناراض تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں اور پھر اس شخص کو آسانی سے معاف کر دیتے ہیں۔‘
’اس طرح وہ ان سیاستدانوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں جو ماضی میں ان کے سخت مخالف تھے۔‘