ترکی میں انتخابات اردوغان اور کمال دونوں امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکے، دوبارہ ووٹنگ کا امکان
ترکی میں دہائیوں میں سب سے زیادہ کانٹے کے انتخابی مقابلے کے بعد صدر رجب طیب اردوغان اور ان کے اہم حریف کمال قلیچداراوغلو کے درمیان دوبارہ ووٹ کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔
ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے بعد گنتی کا عمل تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہے اور ابتدائی نتائج کے مطابق صدر رجب طیب اردوغان کو مخالف امیدواروں پر برتری حاصل ہے البتہ ان کے 50 فیصد ووٹ جیتنے کے امکانات نہیں۔
ترکی کی سپریم الیکشن کونسل کا کہنا ہے کہ تقریباً 92 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور صدر اردوغان نے 49.49 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں، جبکہ ان کے حریف کمال قلیچداراوغلو نے 44.79 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
اگر دونوں میں سے کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر پاتا ہے تو دو ہفتوں کے اندر دوبارہ ووٹنگ ہو گی۔
ترک صدر اردوغان نے انقرہ میں اپنی اے کے پارٹی کے حامیوں سے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ دوبارہ ووٹنگ کے عمل کے لیے تیار ہیں، لیکن انھیں یقین ہے کہ وہ اب بھی جیت سکتے ہیں۔
ادھر قلیچداراوغلو نے دوسرے مرحلے میں الیکشن جیتنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حریف عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
ترکی میں یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ملک حال ہی میں خوفناک زلزلوں سے 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ اور ملک میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
ترکی کے سب سے طاقتور صدر رجب طیب اردوغان اتوار کو ہونے والے انتخابات میں اپنے خلاف متحد ہونے والی حزب اختلاف کے مقابلے میں اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان کے اہم حریف کمال قلیچداراوغلو جمعے کے روز حامیوں کے سامنے آئےتھے۔ یہ پہلی بار ہے کہ ان کے اتحادی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انھوں نے ’امن اور جمہوریت‘ کی بحالی کا عہد کیا۔
ترک صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی چیلنجوں کے باوجود ترکی کو سر بلند رکھا ہے جن میں معیشت، مہنگائی اور فروری میں آنے والے تباہ کن دہرے زلزلے شامل ہیں۔
یہ مسائل ایوان صدر اور پارلیمنٹ دونوں کے لیے اس مہم میں غالب رہے ہیں۔
حزب اختلاف کے 74 سالہ رہنما کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ نرم خو واقع ہوئے ہیں، لیکن انھوں نے سامعین کے سامنے ایک جوشیلی تقریر کی۔
ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسے صدر سے، جس نے پارلیمنٹ کے مقابلے میں اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے، اقتدار واپس لینے کا یہ اب تک کا سب سے اچھا موقع ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں میں کمال قلیچداراوغلو قدرے آگے ہیں اور ان کے حامیوں کو توقع تھی کہ وہ اتوار کے الیکشن میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ جیت سکتے ہیں۔
پہلی بار ووٹ ڈالنے والے 50 لاکھ ووٹروں میں سے ایک فرات نے کہا کہ وہ جو بائیں بازو کی ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کی سرکردگی میں قدامت پسندوں اور قوم پرستوں کے ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آنے پر خوش ہیں۔
وہاں قوم پرست میرل اکسینر تھیں، جو چھ جماعتوں کے مضبوط اتحاد میں واحد خاتون رہنما ہیں، اور تیمل کرملاوغلو بھی تھے، جو اسلام نواز فیلیسٹی پارٹی کے سربراہ ہیں۔
قلیچداراوغلو کی پارٹی بنیادی طور پر سیکولر ہے، لیکن انھوں نے حجاب پہننے والی خواتین تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ چھ پارٹیوں نے ہیدی (آگے بڑھو!) کے نعرے اور اسی نام کے ایک انتخابی گیت کے تحت اپنی مہم چلائی ہے۔
ووٹنگ سے قبل کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انھوں نے انقرہ میں اپنی آخری ریلی اور اس سے قبل ایک اور تقریب میں سٹیج پر بلٹ پروف جیکٹ پہنی تھی۔
یہ انتخابی دوڑ جتنی اہم ہے اتنی ہی کشیدہ ہو گئی ہے۔ صدارتی انتخابات کے لیے چار امیدواروں میں سے ایک محرم اینجا یہ کہہ کر الیکشن سے دستبردار ہو گئیں کہ انھیں سوشل میڈیا پر ڈیپ فیک سیکس ویڈیو کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ’رائے دہندگان کو گمراہ‘ کیا جا رہا ہے۔
جب حزب اختلاف کے اہم حریف نے روس کو مورد الزام ٹھہرایا تو کریملن نے اس بات سے انکار کیا کہ ان ویڈیوز سے ان کا کوئی تعلق ہے یا وہ ووٹنگ میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔
ولادیمیر پوتن کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے والے اردوغان نے اپنے حریف کو متنبہ کیا: ’اگر آپ پوتن پر تنقید کریں گے تو میں یہ برداشت نہیں کروں گا۔‘
صدر اردوغان استنبول میں پارٹی کے حامیوں سے خطاب کر رہے تھے، لیکن ایک رات پہلے وہ دارالحکومت کے باہر پانچ لاکھ آبادی والے شہر میں تھے جو ان کی اے کے پارٹی کی مکمل حمایت میں دکھائی دے رہا تھا۔
اے کے پی پارٹی کے نارنجی، نیلے اور سفید رنگ کے جھنڈے سِنکین مرکز میں لہرا رہے تھے، جب کہ مقامی لوگ صدر اردوغان کی ایک جھلک دیکھنے کی امید میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
اپنی تقریر میں انھوں نے کہا: ’ہم نے سکول، یونیورسٹیاں اور اسپتال تعمیر کیے۔۔۔۔ ہم نے اپنے شہروں کی صورت بدل دی۔ ہم نے گیس اور تیل کے اپنے ذخائر سے فائدہ اٹھایا۔‘
جب وہ وزیر اعظم تھے اس وقت سے ان کی پالیسی بڑے پیمانے پر ترقی کی رہی ہے۔ انھوں نے زیادہ تر بڑے شہروں میں بڑے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا، مگر اس کی جھلک سِکین میں نظر نہیں آتی۔
اگرچہ ان کی پارٹی کو اب بھی مضبوط حمایت حاصل ہے، لیکن وہ قوم پرست ایم ایچ پی اور اپنے پیپلز الائنس کے دیگر چھوٹے گروہوں کی حمایت پر انحصار کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر انھیں سب سے زیادہ حمایت قدامت پسند یا قوم پرست ترکوں کی حاصل ہے اور انھوں نے اپنی مہم کے دوران نہ صرف مغرب کو، جس پر وہ اپنی مخالفت کا الزام لگاتے ہیں، بلکہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
’اے کے پارٹی ایل جی بی ٹی افراد کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتی، اور ایم ایچ پی انھیں پیپلز الائنس میں شامل ہونے سے روکتی ہے، کیونکہ ہم خاندان کے تقدس پر یقین رکھتے ہیں۔‘
یہ سیاسی اتحاد ترکی کے سیاسی نظام کے تحت ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ کسی بھی جماعت کو پارلیمنٹ جانے کے لیے قومی ووٹوں کا سات فیصد درکار ہوتا ہے، یا کسی ایسے اتحاد کا حصہ بننا پڑتا ہے جس کے پاس پارلیمنٹ کے اندر خاطر خواہ حمایت موجود ہو۔
جو بھی صدارتی انتخاب جیتتا ہے اسے اپنے منصوبوں کی حمایت کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں کافی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
انقرہ میں انتخابی مہم کے دوران بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدوار آئسن پالی کوکٹس نے کہا کہ اگرچہ معیشت اور زلزلے کے بعد کے حالات انتخابات کے دو اہم مسائل تھے لیکن ترکی کی جمہوریت کا مستقبل اور عوام کے حقوق بھی اتنے ہی اہم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہم ٹویٹ کرتے ہیں تو ہم خوفزدہ نہیں ہونا چاہتے اور خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے۔‘
لیکن، اے کے پارٹی کے امیدوار 25 سالہ زہرانور ایدیمیر کا خیال ہے کہ حکومت نوجوان رائے دہندگان کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتی ہے۔ ’آپ ہماری پارٹی میں ہر سطح پر نوجوانوں کو دیکھ سکتے ہیں۔