تحریک انصاف نے درجنوں بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دیں نہ فارن فنڈنگ کے ذرائع بتائے رپورٹ
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکمراں جماعت نے انتخابی ادارے سے 31 کروڑ سے زائد کی رقم خفیہ رکھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کی طرف سے درجنوں اکاؤنٹس ظاہر ہی نہیں کیے گئے۔ الیکشن کمیشن اب سکروٹنی کمیٹی کی اس رپورٹ پر سماعت کرے گا۔
منگل کو جاری ہونے والی تین رکنی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن میں عطیات سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے چند افراد کے علاوہ فارن فنڈنگ کے مکمل ذرائع ظاہر نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے سکروٹنی کمیٹی اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہے۔
رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کو نیوزی لینڈ سے موصول ہونے والے فنڈ تک سکروٹنی کمیٹی کو رسائی نہیں دی گئی۔
سکروٹنی کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009 سے 2013 کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔
کیا یہ فنڈ ضبط ہوں گے؟
الیکشن کمیشن کے مطابق سٹیٹ بینک کے ریکارڈ میں انکشاف ہوا کہ عمران خان کی جماعت کے 65 بینک اکاؤنٹ ہیں اور سال 2008-09 اور 2012-13 میں تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے۔
سٹیٹ بینک کی بینک سٹیٹمنٹ سے ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے۔ یوں تحریک انصاف نے 31 کروڑ روپے سے زائد کی رقم (310،440،444) الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سابق رکن اکبر ایس بابر نے سنہ 2014 میں پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست پر الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے 96 سماعتیں کیں۔
اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹوں میں منتقل کیے گئے اور تحریک انصاف نے یہ بینک اکاؤنٹ الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے۔
الیکشن کمیشن میں منگل کی سماعت کا احوال
منگل کو پی ٹی آئی کے خلاف مبینہ غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے کی۔
درخواست گزار اکبر ایس بابر، پی ٹی آئی کے اسد عمر، عامر کیانی، پی ٹی آئی وکیل شاہ خاور الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ فریقین سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پبلک نہ کریں۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آگئی ہے، جس پر اکبر ایس بابر کے وکیل نے استدعا کی کہ جب سکروٹنی کمیٹی کے بعد ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس آئے گا تو ہمیں کاپی فراہم کی جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل شاہ خاور نے مؤقف اپنایا کہ رپورٹ فریقین کو دے دی جائے تاہم ہمارے کمنٹس آنے تک اس رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔
شاہ خاور نے دلائل دیے کہ دیگر جماعتوں کے اکاؤنٹوں کی سکروٹنی کا عمل مکمل ہو جانے دیں، وہ رپورٹیں بھی حتمی مراحل میں ہیں، اس کے بعد سب کو اکٹھے دیکھیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے سب رپورٹوں کو کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں۔
وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ ہر کیس میں سب چیزیں پبلک ہوتی ہیں جس پر وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ الیکشن کمیشن آرڈر کر دے کہ فریقین سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو پبلک نہ کریں جس پر رکن الیکشن کمیشن نے واضح کیا کہ اوپن کورٹ میں ہم کیسے پابندی لگا سکتے ہیں کہ رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔
الیکشن کمیشن کی کارروائی کے بعد وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ایک ایک روپے کا حساب الیکشن کمیشن کو دیا ہے۔ تاہم ان کے مطابق کچھ ڈبل اکاؤنٹس شمار کر لیے گئے، جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے صرف 26 اکاؤنٹس کی بات کی گئی ہے۔
ان کے مطابق ابھی اس مقدمے کی سماعت ہو گی تو ان کی جماعت اپنی پوزیشن واضح کر لے گی۔
فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن سے مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک کے فنڈز کی تفصیلات جاری کی جائیں تاکہ عوام فرق کو سمجھے۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کی تو کوئی سکروٹنی ہی نہیں کی جارہی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے کہا ہے کہ میڈیا نے بریکنگ نیوز کے چکر میں فیک نیوز چلائی۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن نے اس کی جو صیحح وضاحت کی ہے اس کو میڈیا نے دیکھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں پر بینک اکاؤنٹس خفیہ رکھنے کے الزامات عائد کیے۔
الیکشن کمیشن ایک وقت پر تین بڑی جماعتوں کے اکاؤنٹس کا فیصلہ سنائے۔ ان کے مطابق یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک پارٹی کی تو سکروٹنی کریں مگر دیگر کو چھوڑ دیں۔