بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹوز کی تنخواہیں اتنی زیادہ؟

بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹوز کی تنخواہیں اتنی زیادہ؟

بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکیٹوز کی تنخواہیں اتنی زیادہ کیوں ہیں؟

ایسا لگ رہا ہے کہ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں یعنی چیف ایگزیکٹیو آفیسرز (سی ای او) کی تنخواہوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ان کو اتنی تنخواہ کیوں ملتی ہے اور کیا ایسا ہمیشہ سے تھا؟

چھ جنوری کی شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب، جب کام کرنے کے ہفتہ وار اوقات کار کے مطابق صرف 34 گھنٹے گزرے تھے، تو چند معروف برطانوی کمپنیوں کے باسز نے اس اثنا میں اتنی رقم کما لی تھی جو کہ برطانیہ میں کام کرنے والا ایک معمول کی نوکری کرنے والا شخص سال میں کماتا ہے۔

لندن میں واقع تھنک ٹینک ہائی پے سینٹر کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق فنانشل ٹائمز سٹاک ایکسچینج 100 ( ایف ٹی ایس ای 100 ) یعنی لندن سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ شدہ سو سب سے زیادہ اہم کمپنیوں کے سربراہان 50 لاکھ ڈالر یعنی 36 لاکھ پاؤنڈز کے لگ بھگ اوسطاً سالانہ کماتے ہیں۔

انھی کمپنیوں میں کام کرنے والے دیگر ملازمین کی اوسط تنخواہ 31461 پاؤنڈز ہے جو کہ ان کے باسز سے سو گنا کم ہے۔

ان میں سب سے زیادہ تنخواہ کمانے والے سی ای او ٹم سٹیئنر ہیں جو کہ آن لائن سپر مارکیٹ اوکاڈو کے سربراہ ہیں اور انھیں 2019 میں ساڑھے پانچ کروڑ پاؤنڈز سے زیادہ تنخواہ ادا کی گئی تھی۔

یہ تنخواہ ان کی اپنی کمپنی کے دیگر ملازمین کے مقابلے میں دو ہزار گنا زیادہ تھی۔ ان کی تنخواہ کے زیادہ ہونے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ صرف ایک دن میں ٹم سٹیئنر اپنے ملازمین کی سالانہ تنخواہ سے سات گنا زیادہ پیسے کما لیتے ہیں۔

اگر ہم امریکہ کی بات کریں تو حالات اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع ایک تھنک ٹینک اکنامک پالیسی انسٹٹیوٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق امریکہ کی 350 سب سے بڑی کمپنیوں کے سربراہان نے 2019 میں اوسطاً دو کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم کمائی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سی ای او بمقابلہ دیگر ملازمین کی تنخواہ کا تناسب ایک کے مقابلے میں 320 ہے، جو کے 1989 کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔

یہ معلومات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث کم آمدنی والے طبقے کی زندگیاں مزید خطرے میں پڑ گئی ہیں، ان کی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں اور ان کی عمومی صحت پر اثر پڑا ہے۔

یہ عدم مساوات کے واقعات ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ بات مزید واضح ہوئی ہے کہ وہ ملازمین جنھیں وبا کے دوران ‘لازمی کام کرنے والے ملازمین’ قرار دیا گیا، انھیں کتنی قلیل تنخواہ اور حقوق ملتے ہیں۔

یہ نتائج سامنے آنے کے بعد سے لوگوں میں اشتعال بڑھتا جا رہا ہے اور اب کئی لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ کمپنیوں کے سربراہان اتنی زیادہ تنخواہیں کیوں لے رہے ہیں۔ اور یہ کہ ان کو اتنی زیادہ تنخواہ دینے کا فیصلہ کیسے ہوا اور کب ہوا، اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ان کو اتنی زیادہ تنخواہیں ملنے کا سلسلہ اب بھی جاری رہنا چاہیے؟

کمپنی سربراہان کی بھاری تنخواہوں کی وجہ کیا ہے؟

مسک

کمپنی سربراہان کی بھاری تنخواہوں کے بارے میں اگر بغور دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی جڑیں ان پالیسیوں سے جا ملتی ہیں جو کہ 1980 میں امریکہ میں صدر رونلڈ ریگن اور برطانیہ میں وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے دور میں نافذ کی گئی تھیں۔

ان دونوں سربراہان کا فلسفہِ حکومت تھا کہ ڈی ریگیولیشن اور نجکاری پر زور دیا جائے اور فری مارکیٹ سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھایا جائے۔ دونوں رہنما ہی مزدوں یونینز کے مخالف تھے اور اسی سوچ کی وجہ سے بڑی کمپنیوں میں ان کے ملازمین کے حقوق کے بارے میں آوازیں اٹھنا ختم، یا کم ہو گئیں۔

لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک سینڈی پیپر کہتے ہیں کہ اگر آپ اس دور کے اوائل کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کمپنی کے سربراہان کی کارکردگی کو جانچنے کا معیار ان کے ملازمین کے ساتھ ہی جڑا ہوا تھا اور سب کی تنخواہ کے بارے میں جائزہ ایک طریقے سے لیا جاتا ہے۔

سینڈی پیپر، جنھوں نے حال میں ہی ایک مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے سربراہان اور ملازمین کی تنخواہوں میں بڑھنے والے فرق کی وجوہات پر تحقیق کی ہے، کہتے ہیں کہ پرانا نظام اس وقت بکھر گیا جب ان افسران کی تنخواہیں کمپنی کے حصص کی کارکردگی سے منسلک کر دی گئی اور انھی پالیسیوں کے تحت افسران کو تنخواہیں ملنا شروع ہو گئیں۔

سینڈی پیپر کا مقالہ یہ واضح کرتا ہے کہ سنہ 2000 کے بعد سے ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ تین فیصد جبکہ سی ای اوز کی تنخواہ میں سالانہ دس فیصد اضافہ ہوتا چلا آیا ہے۔

سینڈی پیپر کہتے ہیں کہ اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ کیونکہ کسی بھی کمپنی کی مالی کارکردگی کی وجہ اس کے سربراہ کی کارکردگی کی عکاسی کرتی ہے اور اسی وجہ سے ان کو ملنے والی تنخواہ کے علاوہ انھیں کارکردگی سے منسلک بونسز اور حصص خریدنے کا آپشن بھی ملنا شروع ہو گیا۔

اس کی مثال کے لیے اگر اوکاڈو کے سربراہ ٹم سٹیئنر کی تنخواہ دیکھیں، تو 2019 میں انھیں ملنے والی تنخواہ میں پانچ کروڑ پاؤنڈز سے زیادہ بونس دیے گئے جس کی وجہ تھی کہ انھوں نے کمپنی کی ترقی کے منصوبے کے مطابق کارکردگی دکھائی تھی۔ ٹم سٹیئنر نے اس مضمون کے لیے تبصرہ دینے سے انکار کیا۔

لیکن حقیقت اتنی سادہ نہیں ہے۔

سی ای اوز کو دی جانے والی تنخواہ کا فیصلہ کرنے کے لیے تنخواہ دینے والی کمیٹی کرتی ہے جس میں کمپنی کے بورڈ ممبران اور کمپنی کے دیگر اعلی افسر شامل ہوتے ہیں اور وہ سال میں ایک بار ملتے ہیں۔

یہ کمیٹی ماضی کی کارکردگی اور تجربے کے علاوہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں کیسی تنخوہیں دینی چاہیے۔

سنہ 2010 میں جریدے جرنل آف فنانشل اکنامکس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ تنخواہ دینے والی کمیٹی کے نظام کی وجہ سے تنخواہوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ایسی کمپنیاں اپنے ہی باسز کی تنخواہوں میں اضافے کی حامی بھر لیتی ہیں۔

وال مارٹ

کمپنیوں کے دیگر ملازمین کی نمائندہ تنظیموں کے مطابق تنخواہ اور بونس دینے کا یہ طریقہ کار نقائص سے بھرا ہوا ہے کیونکہ کمپنیوں کے بورڈ اپنے سربراہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ سربراہ ان کو نوکری سے برخاست بھی کر سکتا ہے، تو چناچہ وہ تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی منظوری دے دیتے ہیں۔

برطانیہ کی ٹریڈ یونین کانگریس کی سینئیر رکن جینٹ ولیمسن کہتی ہیں کہ تنخواہیں دینے والی کمیٹیوں کا سلسلہ ہی مسئلہ کا سبب ہیں کیونکہ وہ انھی سی ای اوز کے نیچے کام کرتی ہیں جن کی تنخواہوں کا فیصلہ انھیں کرنا ہوتا ہے اور اس نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔

سینڈی پیپر بھی اپنے مقالے میں یہ کہتے ہیں کہ شواہد کے مطابق کمپنی کی مالی حیثیت اور تنخواہوں کا جانچنے کا ذریعہ مالی کارکردگی نہیں بلکہ کمپنی کا حجم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنی بڑی کمپنی ہوگی، اتنا ہی سی ای او کو تنخواہ ملے گی۔

‘سی ای اوز کی کامیابی کی کنجی ہیں’

سی ای اوز کی تنخواہ کا معاملہ سخت بحث کا باعث ہے۔ ایک جانب فری مارکیٹ کا پرچار کرنے والی ماہر معیشت ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ اگر کمپنی کے افسران حصص میں حصہ دار افراد کو لگتا ہے کہ زیادہ تنخواہ دینی چاہیے تو یہ مناسب ہے۔

نیو لبرل فلسفہ پر یقین رکھنے والے تھنک ٹینک ایڈم سمتھ انسٹٹیوٹ کے اعلی افسر ڈینئیل پرائیر کہتے ہیں کہ کسی بھی کمپنی کے لیے ‘ان کے سی ای اوز کی کامیابی کی کنجی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ایسی صلاحیت، ایسا کردار ہوتا ہے جو بڑی کمپنیوں کے سی ای او بننے کے اہل ہوتے ہیں، اور ایسے لوگوں کی بہت زیادہ طلب ہوتا ہے۔’

ڈینئیل پرائیر ایپل کمپنی کے سٹیو جابز اور ایمازون کے جیف بیزوس اور ٹیسلا کے ایلون مسک کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ انتہائی قابل اور نادر صلاحیتوں کے مالک ہیں اور انھوں نے بالکل نئے سرے سے انقلابی ٹیکنالوجی دنیا کے سامنے متعارف کرائی۔

لیکن دوسری جانب کئی محققین کا کہنا ہے کہ عام سی ای اوز کا کردار اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

مینجمنٹ امور کے ماہر ڈیوڈ بالوکور کہتے ہیں کہ کسی بھی کمپنی کی اچھی کارکردگی کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔

‘کسی معاملے ہو سکتا ہے کہ معیشت اچھی چل رہی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ صنعت اور شعبہ زیادہ کامیاب ہو اور جس کی مدد سے کمپنی کا کارکردگی بہتر ہو جائے اور اس میں سی ای او کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ کسی کیس میں ملازمین کی اچھی کارکردگی کمپنی کی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سی ای او کی کارکردگی کی مدد سے کمپنی کی کارکردگی نہیں جانچی جا سکتی اور اصل بات کی جڑ ہی یہیں ہے۔ کمپنی والے کہتے ہیں کہ ان کے سربراہان کی ‘صلاحیت’ بہت ہے لیکن کیا ان کی صلاحیت اتنی نادر ہے؟ میرے خیال میں تو یہ صرف ایک دھوکہ ہے۔’

ڈیوڈ بالوکور نے 2008 میں آنے والے عالمی مالی بحران کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کارکردگی اور تنخواہ ساتھ نہیں چلتے۔

‘مالی سیکٹر کے لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ تنخواہیں اس لیے جائز ہیں کیونکہ کمپنیوں کی کامیابی سی ای اوز کی نادر صلاحیتوں کے مرہون منت ہیں۔ لیکن اس بحران میں کتنے ہی بینک ڈوب گئے اور لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ ان سی ای اوز کو کس بات کے لیے اتنی تنخواہ مل رہی تھی اور بحران کے بعد بھی ان کو اتنی تنخواہ کیوں دی جا رہی ہے؟’

‘آگے بڑھنے کا ایک ڈرامائی قدم’

احتجاج

،تصویر کا ذریعہALAMY

کمپنیوں کے اعلی افسران کی تنخواہیں تو مسلسل بڑھ رہی ہیں لیکن دیگر ملازمین کی تنخواہوں میں بتدریج کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، بالخصوص وہ ‘فرنٹ لائن’ ملازمین جو وبا کے دور میں لازمی قرار دیے گئے تھے۔

اور ان ملازمین کے لیے اعلی افسران کی بھاری تنخواہیں ایک کڑوا گھونٹ بن کے رہ گئی ہیں۔

تنخواہوں میں اس واضح فرق پر ملازمین کا غصہ حال ہی میں اس وقت ابل کر سامنے آ گیا جب برٹش گیس کے ہزاروں ملازمین نے پانچ دن کی سٹرائیک کا فیصلہ کیا جب کمپنی نے اپنا منصوبہ پیش کیا کہ وہ ملازمین کی تعداد میں کمی لائیں گے اور ان کو نئے معاہدے پیش کریں گے جس میں ان کی حقوق میں کمی لائی جائے گی۔

کمپنی اور اس کے ملازمین کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ چل رہے تھے جب 2018 میں برٹش گیس کی مالک کمپنی سینٹریکا کے سی ای او کی تنخواہ میں 44 فیصد اضافہ کیا گیا اور وہ بڑھ کر 24 لاکھ پاؤنڈ ہو گئی۔

لیکن بالآخر اب کیسے کچھ شواہد سامنے آ رہے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ سی ای اوز کی تنخواہوں میں اضافہ شاید کچھ کم ہو جائے۔

سرمایہ کاری کرنے کے ماہر پال لی کہتے ہیں کہ برطانیہ میں کچھ برسوں سے سی ای اوز کی تنخواہوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے اور کئی سالوں سے بیشتر کو 40 سے 50 لاکھ پاؤنڈ سالانہ تنخواہ مل رہی ہے۔

پال لی کہتے ہیں کہ اب آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہن تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور وہ افراد وہ کمپنیوں میں سرمایہ لگاتے ہیں، انھیں علم ہے کہ اکثریت سرمایہ عام عوام کا ہوتا ہے۔

پال لی کہتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا اتنی بھاری تنخواہیں دینا مناسب ہے لیکن اب ساتھ ساتھ احتساب کا عمل بھی بڑھ رہا ہے اور لوگ اس بارے میں سوالات کر رہے ہیں۔

امریکہ کی بات کریں تو وہاں سینیٹر الزابتھ وارن نے ایک قانون کی تجویز دی ہے جس میں کمپنیوں کے حصص رکھنے والوں کو طویل مدتی منافع پر توجہ دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سان فرانسسکو اور پورٹ لینڈ میں ان کاروبار پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جائے گا جہاں تنخواہوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

دوسری جانب، وبا کے باعث کئی بڑی کمپنیوں کے اعلی افسران نے رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہوں میں کمی کے لیے رضا مندی اختیار کر لی تاکہ ان کے ملازمین کی نوکریاں نہ چلی جائیں، لیکن ناقدین کے مطابق یہ فیصلہ صرف نظر کا دھوکہ تھا اور زیادہ معنی نہیں رکھتا۔

ہائی پے سینٹر کے ڈائریکٹر لیک ہلڈیارڈ کہتے ہیں کہ کمپنیاں مزید معنی خیز اقدامات اٹھا سکتی ہیں جن کی مدد سے تنخواہوں میں فرق میں کمی آ سکتی ہے اور اس کی مدد سے زیادہ مسابقتی طریقے سے ملازمین میں تنخواہ بانٹی جا سکتی ہے۔

‘عام لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کی تنخواہوں میں وقتاً فوقتاً تھوڑا اضافہ کرنے سے بہت فرق پڑ سکتا ہے۔’

ہلڈیارڈ کہتے ہیں کہ سی ای اوز کی اس قدر بھاری تنخواہیں واضح ثبوت ہے کہ معاشرے میں کس قدر عدم مساوات بڑھ چکا ہے۔

‘برطانیہ کا شمار ان ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں تنخواہوں میں فرق انتہائی زیادہ ہے۔’

ہلڈیارڈ کہتے ہیں کہ وبا کے باعث ایک اور عالمی معاشی بحران آنے کا خدشہ ہے اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم مساوات کے خلاف شکایات میں اضافہ ہوگا۔

‘ایسے موقع پر جو لوگوں کی نوکریاں چلی گئی، وہیں اعلی افسران کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری ہے تو معاشرہ اور بٹ جائے گا اور عام کام کرنے والے ملازمین پر بہت برا اثر ہوگا۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *