بلقیس بانو گینگ ریپ بی جے پی حکومت کی ’مجرموں کی پذیرائی پست سیاست کی عکاس ہے
انڈیا کی ریاست گجرات میں تقریباً 21 سال قبل ہوئے ہندو مسلم فسادات کی گونج آج ایک بار پھر ملک کی سب سی بڑی عدالت میں سنائی دے رہی ہیں اور اس کی وجہ ہے بلقیس بانو گینگ ریپ اور قتل کیس کے مجرمان کا اپنی سزا مکمل کرنے سے قبل ہی نہ صرف جیل سے رہا ہو جانا بلکہ حکومتی سرپرستی میں ان کا عوامی اجتماعات میں حکومتی ارکان کے ساتھ سٹیج شیئر کرنا ہے۔
انڈیا کی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو گینگ ریپ اور قتل کیس کے مجرموں کو سزا پوری ہونے سے کئی برس پہلے رہا کر دیے جانے کے معاملے میں وفاق اور گجرات حکومت سے تفصیلات طلب کی ہیں۔
انڈین سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیر کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے گجرات حکومت سے کہا کہ وہ 18 اپریل کو آئندہ سماعت پر تمام مجرموں کی رہائی سے متعلق تمام دستاویزات عدالت کے روبرو پیش کریں۔
یاد رہے کہ تین مارچ 2002 کو گجرات کے فسادات کے دوران ایک ہجوم نے بلقیس بانو کا گینگ ریپ کیا تھا اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا تھا۔
قتل کرنے سے پہلے بلقیس کی ماں اور ان کی ایک کزن کا بھی ریپ کیا تھا۔ ان سنگین جرائم کے لیے 11 افراد کو عمرقید کی سزا ہوئی تھی۔
یہ مجرمان 2008 سے سزا کاٹ رہے تھے لیکن ریاست گجرات کی’ریمیشن پالیسی‘ کے تحت تمام مجرموں کو گذشتہ برس یوم آزادی کے موقع پر رہا کر دیا گیا تھا۔
بلقیس بانو نے مجرموں کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔ بلقیس نے اپنی درخواست میں کہا کہ ’اس طرح سے تمام سزا یافتہ مجرموں کو رہا کرنے سے معاشرے کا اجتماعی شعور ہل گیا۔‘
گجرات کی ریاستی حکومت کا کہنا ہے رہائی کے لیے جو بھی مروجہ ضوابط ہیں ان پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا گیا۔
جیل سے رہائی پانے والے ریپ اور قتل کے ایک مجرم کیس کی سماعت سے ایک روز قبل گجرات میں ایک سرکاری تقریب میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان کے ساتھ سٹیج پر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
جس کے بعد انڈیا کے سوشل میڈیا پر نہ صرف بی جے پی کی حکومت پر تنقید کی گئی بلکہ اس عمل کی بھرپور مذمت بھی کی گئی۔
ایک انڈین صارف راکھی تریپاٹھی نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ایک وزیر کے ساتھ سٹیج پر ایک ریپسٹ اور قاتل کا ہونا۔ ایسے میں میڈیا کی خاموشی میڈیا کا کردار بتاتی ہے یعنی مطلبی، بزدل اور قبل نفرت۔
انھوں نے انڈیا میڈیا کے چند اینکرز و صحافیوں کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ویسے سب بہت شور مچاتے ہیں اب کیا ہوا؟جانتے ہیں کہ آپ کیا نظر انداز کر رہے ہیں؟
گجرات کے رکن پارلیمان جگنیش میوانی نے بھی اس پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حکومت اتنی بے شرم ہو چکی ہے کہ اب وہ سرکاری تقاریب میں ریپسٹ کو سٹیج پر بٹھاتی ہے، ان کی پذیرائی کرتی ہے۔ یہ بی جے پی کا کردار گرنے کی انتہا ہے۔‘
ترنمول کانگریس کی رہنما مہوواموئترا نے اس کی مذمت کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’ان مجرموں کو جیل واپس بھیجا جائے‘
انڈیا میں فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ چیک کے شریک بانی و صحافی محمد زبیر نے لکھا کہ ’سنہ 2002 کے گجرات فسادات میں بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت خاندان کے 14 افراد کے قتل کے مقدمے سزا یافتہ مجرم شاہلیش بھٹ کو سابق یونین منسٹر اور بی جے پی کے رکن اسمبلی کے ساتھ سٹیج شیئر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔‘
’یہ صرف ایک مسلم خاتون نہیں بلکہ ہر انڈین عورت کی لڑائی ہے‘
سپریم کورٹ میں بلقیس بانو کا کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ریپ اور جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی ممبئی کی تنظیم ’شی سیز‘ کی سربراہ تریشا شیٹی کہتی ہیں کہ اجتماعی ریپ اور 14 افراد کے مجرموں کو رہا کیا جانا ’مسلمانوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں، اگر آپ کا اکثریتی مذہب سے تعلق نہیں تو آپ کو اس جمہوری نظام میں انصاف نہیں ملے گا۔ یہ میری نہیں حکومت کی سوچ ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تریشا نے کہا ’یہ صرف ایک مسلم خاتون کی لڑائی نہیں یہ ہر انڈین عورت کی لڑائی ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم ایک جمہوری نظام اور قانون کی حکمرانی میں رہیں گے یا انسانیت کے قتل کا تماشہ دیکھیں گے۔‘
تریشا شیٹی کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے بہت پر امید ہیں۔ ’امید اس لیے ہے کیونکہ بلقیس کی درخواست مسترد نہیں ہوئی۔ اگر اتنے سنگین جرم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو پھر زندہ رہنے کے کیا معنی ہیں۔ امید ہی تو ہے۔ ہمیں بلقیس بانو کی طاقت پر بھروسہ ہے۔‘
’گینگ ریپ اور قتل کے مجرموں کی پذیرائی پست سیاست کی عکاس ہے‘
مسلم خواتین کے حقوق کی علمبردار ذکیہ سمن کہتی ہیں ریپ اور اجتماعی قتل کے خوفناک مجرموں کو جیل سے رہا کرنا قانونی اور انسانی طور پر کسی بھی نقطہ نظر سے قابل قبول نہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بی جے پی کی مذہبی لگاؤ کی جو سیاست ہے اسی کے تحت یہ قدم اٹھایا گیا۔ ریپسٹ اور قاتلوں کو ہیرو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ اجتماعی ریپ اور قتل کے مجرم ہیں۔ انھیں ہار پہنانا، سٹیج پر بٹھانا، ان کی پذیرائی کرنا، یہ حد درجے گری ہوئی سیاست اور پست ذہنیت کی عکاس ہے۔‘
ذکیہ مزید کہتی ہیں کہ حکومت ایک طرف تو خواتین کے تحفظ کی بات کرتی ہے اور دوسری جانب اجتماعی ریپ کے مجرموں کو رہا کر کے وہ ان خواتین کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے جو ریپ اور جنسی تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔