بلال کاکا کا قتل سندھ میں لسانی بنیادوں پر سندھی اور پشتون برادری میں کشیدگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟
فرش پر شیشے کی کرچیاں موجود ہیں، باہر بار بی کیو ٹیبل پر گوشت کو لٹکانے والے کنڈے لگے ہیں جبکہ ہوٹل کے اندر جانے والے راستوں کو تخت سے بند کر دیا گیا ہے، باہر ایندھن کے لیے کٹی لکڑیاں اور بجھے ہوئے کوئلے موجود ہیں۔
یہ حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں واقع سپر سلاطین ہوٹل کا منظر ہے جہاں سے نکلنے والے شعلے سندھ بھر میں کشیدگی کا باعث بنے تھے۔
اسی ہوٹل پر 12 جولائی کی شب نوجوانوں کے ایک گروہ اور ہوٹل انتظامیہ میں جھگڑا ہوا تھا، جس میں بلال کاکا نامی نوجوان ہلاک ہو گیا۔ واقعے کے بعد سندھ قوم پرست جماعتوں نے احتجاج کیا اور سندھ کے متعدد شہروں میں پشتونوں کے ہوٹل اور دکانیں بند کروا دیں۔ یوں ایک ذاتی نوعیت کی رنجش کے واقعے نے لسانی رنگ اختیار کیا۔
یہ کشیدگی حیدرآباد سے کراچی پہنچی جہاں پشتون گروہوں نے سہراب گوٹھ کے علاقے میں احتجاج کیا، جو پرتشدد شکل اختیار کر گیا، اس احتجاج کے دوران شہر میں لوٹ مار ہوئی، ہوائی فائرنگ بھی کی گئی جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
’لسانی تفریق نہیں انصاف چاہیے‘
بلال کاکا قتل کیس میں اس وقت ہوٹل مالک شہوار سمیت چار ملزمان گرفتار ہیں ورثا کے اعتراض پر ایس ایچ او بھٹائی ٹاؤن سٹیشن کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بلال کاکا کے چچا شاہ میر کاکا کے مطابق ایس ایچ او نے ملزمان کو ریلیف دیا جس کی وجہ سے عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ’وہ اس معاملے میں لسانی تفریق نہیں چاہتے ہیں وہ انصاف کے طلب گار ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بلال جس جگہ سکیورٹی سپروائزر تھا اس کی وراثت پر تنازع ہے لہٰذا مالکان میں جو جھگڑا چل رہا اس میں بلال پر بھی مقدمہ دائر کیا گیا اور جو اسلحہ تصویروں میں دکھایا جا رہا ہے وہ لائسنس یافتہ اور اسی ادارے کا ہے۔‘
حکومتی اقدامات اور قوم پرست جماعتوں کے رابطوں کے بعد حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں پشتون برادری کے ہوٹل اور دیگر کاروبار زیادہ تر کھل چکے ہیں۔
حسین آباد چوک پر ادریس خان نے بتایا کہ ان کا ہوٹل ایک ہفتے تک بند رہا، 15 کے قریب ملازم گاؤں چلے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ آئے انھوں نے کہا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ جھگڑا ہوا ہے میں نے کہا مجھے تو علم نہیں اس کے بعد انھوں نے ہوٹل بند کرنے کے لیے کہا، کچھ توڑ پھوڑ بھی کی اور شٹر بند کر دیا۔‘
ادریس خان کہتے ہیں کہ انھوں نے ہوٹل تو کھولا ہے لیکن کاروبار میں مزا نہیں، گاہکی کم ہو گئی ہے کیونکہ ان کے پاس زیادہ تر سندھی چائے پینے آتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے روزانہ پانچ من دودھ استعمال ہوتا تھا اب مشکل سے دو سے ڈھائی من استعمال ہو رہا ہے، امید ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘
کیا بلال کاکا کے قتل کا واقعہ حادثاتی تھا؟
بلال کاکا کا قتل ایک حادثاتی واقعہ تھا اس بات پر سب متفق ہیں۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کہتے ہیں کہ ’یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا جس میں ایک قیمتی جان ضائع ہو گئی، اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ ہمارے پاس جو فالٹ لائنز ہیں لوگ ان پر سیاست کرتے ہیں ایسے ایشوز پر سیاست نہیں کرنی چاہیے جس سے مزید نقصان ہو سکتا ہے۔‘
سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی کا کہنا ہے کہ ’بلال کاکا کے قتل کے بعد احتجاج ایک فطری عمل تھا پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر اور ملزمان کی عدم گرفتاری کے بعد سندھ میں ایک ایسی فضا بن گئی جیسے کوئی سندھی پشتون تنازع بن گیا ہے جس کی وجہ سے ایک خوف کا ماحول تھا۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگ نکلے انھوں نے پشتونوں کے کاروبار وغیرہ بند کروائے جتنی بھی جماعتیں تھیں انھوں نے مکمل ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، کراچی سے لے کر کشمور تک کسی پشتون کو ایک تھپڑ تک نہیں مارا گیا کیونکہ یہ سب سمجھ چکے تھے کہ سندھ کو بربادی اور خانہ جنگی کی طرف دھکلیلا جا رہا ہے۔‘
قائد اعظم یونیورسٹی میں استاد اور ’پاکستان میں لسانی سیاست‘ کے مصنف ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر یہ قتل انفرادی معاملہ تھا نہ کہ پشتون اور سندھی تنازع تاہم کچھ عناصر نے اس کی سندھی اور پشتون فریمنگ کی۔‘
سندھ کی قوم پرست تحریک پر کتاب گلوری آف نیشنلزم کی مصنفہ اور لمز یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر عاصمہ فیض کا خیال ہے کہ یہ واقعہ اتفاقی اور حادثاتی ہے لیکن اس کی ایک بڑی تصویر بھی ہے۔’کراچی میں بشریٰ زیدی کی ہلاکت کا واقعہ ہو یا اس سے قبل سندھ کے دیگر شہروں اور علاقوں میں 1980 اور 90 کی دہائی میں جو فسادات ہوئے اس کی وجہ بھی کوئی ایک واقعہ ہی بنتا تھا۔‘
کیا سندھی پشتون کشیدگی حقیقت ہے؟
کیا سندھ میں بسنے والی سندھی اور پشتون برادری میں واقعی کوئی کشیدگی ہے؟ اس پر ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی کہتے ہیں کہ ’اس کشیدگی کے زیر زمین محرکات گذشتہ 40 برس سے موجود ہیں یہ رجحان نہ صرف سندھی قوم پرستی بلکہ مہاجر قوم پرستی میں بھی نظر آتا ہے۔ جی ایم سید کا یہ کہنا کہ ہم اپنے ہی صوبے میں ریڈ انڈین بن جائیں گے کیونکہ غیر مقامی آبادی بہت بڑھ رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 1980 میں جب جی ایم سید اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین میں اتحاد تھا تو ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ جو پناہ گزین آرہے ہیں یہ بڑا مسئلہ ہیں اس کے حوالے سے کچھ کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر عاصمہ فیض بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں کہ دونوں کمیونٹیز میں کشیدگی موجود ہے۔
’جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا ہے پھر چاہے سوات آپریشن ہوا وزیرستان میں کارروائیاں ہوں، وہاں کی آبادی سندھ میں بڑھی ہے، اتنے لسانی گروپس ہیں، ان کی محرومیاں ہیں کشیدگی ہے اختیار کی جنگ ہے، ثقافتی تناؤ ہے، ڈیمو گرافی کی تبدیلی کے خدشات ہیں جبکہ وسائل بہت کم ہیں تو سب چیزوں کو ملائیں تو اس کا ایک بڑا پس منظر بنتا ہے۔‘
محققین اور شعبہ تدریس سے منسلک افراد سے قوم پرست اتفاق نہیں کرتے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما یونس بونیری کہتے ہیں کہ پشتونوں اور سندھیوں کی کوئی لڑائی نہیں بقول ان کے سندھ سندھیوں کا ہے اور سندھ نے پختونوں کو پناہ دی ہے۔
’سندھ کے ایک ایک انچ پر صرف سندھیوں کا ہی حق ہے پختون اگر کراچی میں آئے ہیں تو وہ صرف روزگار کے لیے آئے ہیں۔‘
سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا ہے کہ دونوں قوموں میں کوئی تنازع نہیں ہے ہم تاریخی طور پر سندھی پشتون پاکستان کی محکوم قومیں ہیں۔
’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم محکوموں کے حوالے سے اتحادوں میں رہے ہیں جمہوری ہلچل میں مارشل لا کے خلاف اتحاوں میں رہے ہیں آج بھی ہماری انڈر اسٹینڈنگ ہے۔‘
پشتونوں کی آبادی میں اضافہ
سندھ بالخصوص کراچی میں پشتون آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، مردم شماری رپورٹس کے مطابق کراچی میں پشتو بولنے والی آبادی 1981 میں 8.7 فیصد اور 1998 میں 11.42 فیصد تھی۔
تاہم، 2017 کی مردم شماری میں یہ مزید بڑھ کر 15.01 فیصد ہو گئی ہے، جس کی کل آبادی 2,406,011 ہے، اسی مردم شماری میں بھی ہندکو، جو زیادہ تر خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن اور پشاور اور کوہاٹ کے شہری مراکز میں بولی جاتی ہے، کو ایک علیحدہ زبان کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
کراچی میں ہندکو بولنے والی آبادی 679,539 ہے جو کہ شہر کی کل آبادی کا 4.24 فیصد ہے۔
اس آبادی کے مسلسل بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں؟
تنازعات کے موضوع پر لکھنے والے صحافی و محقق ضیا الرحمن سمجھتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں کراچی میں انڈسٹریلائزیشن کے سبب شہر کے صنعتوں خصوصاً ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جب افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو خبیرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے مختلف اضلاع میں صنعت نہ ہونے کے سبب بڑی تعداد میں لوگ ’مائگرینٹ مزدوروں‘ کی صورت میں شہر پہنچے اوریہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا رہا۔
’نائن الیون کے بعد افغانستان میں بدلتی صورت حال سے جب قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ کے اضلاع میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنوں کے سبب بھی وہاں کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کراچی پہنچی جن میں اکثریت امن کی بحالی کے بعد واپس چلے گئے۔ اسی طرح 2005 میں آنے والا زلزلہ بھی خیرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے لوگوں کی کراچی ہجرت کا سبب بنا۔‘
ان کے بقول ’کراچی کی جانب ہجرت کرنے کی ایک اہم وجہ یہاں پہلے ہی سے ان کی رشتہ داروں کا آباد ہونا اور ملک کے دیگر شہروں کی نسبت روزگار کے مواقع کی دستیابی اور سستا ہونا شامل ہے۔‘
البتہ ضیا لرحمن کا کہنا ہے کہ 2007 سے 2013 تک شہر میں امن وامان کی ابتر صورت حال کے سبب خیبر پختونخوا سے کراچی ہجرت کا سلسلہ اب بند ہو چکا ہے اوریہ لوگ اب پنجاب کے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔
البتہ شہر کی جانب اب جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع سے ’مائگرنٹ مزدوروں‘ کا ایک سلسلہ گذشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما یونس بونیری کہتے ہیں کہ ’پاکستان بننے کے بعد اگر منصفانہ تقسیم ہوتی، وسائل پر قوموں کا اختیار ہوتا تو پختون تو کیا کوئی بھی پنجابی و سرائیکی بولنے والا کراچی نہیں آتا ساری ترقی یہاں ہوئی سارے کارخانے یہاں لگے۔ جہاں روزگار ملے گا انسان کو وہاں جانا ہے یہ اس وقت کی حکومتوں اور اداروں کی ذمہ داری بنتی تھی۔ اگر چاروں صوبوں میں برابر ترقی ہوتی تو یہ صورتحال پیش نہیں آتی۔‘
ڈاکٹر عاصمہ فیض کہتی ہیں کہ چاہے میگا ڈویلپمنٹ منصوبے ہوں یا چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبے اس میں جب کوئی باہر سے آئے گا تو وہ یہاں کی مقامی ملازمت تو لے گا اگر پشتون کا جائزہ لیں تو وہ وائیٹ کالر ملازمت کرنے والے نہیں بلکہ مزدور طبقہ ہے یا ٹرانسپورٹر ہیں اس کے برعکس ماضی میں سندھی مہاجر کشیدگی میں ہم نے دیکھا کہ مہاجر وائٹ کالر ملازمت میں بھی ہوتے تھے۔
’دنیا بھر میں ڈویلمپنٹ اور نقل مکانی مقامی آبادی کا توازن بگاڑ دیتی ہے جو سن آف سوائل ہیں وہ اقلیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کو ریڈ انڈین فنومیناا کہا جاتا ہے جس میں جو اصل باشندے تھے وہ اپنی ہی زمین پر اقلیت میں چلے گئے پھر چاہے وہ حقیقت میں ایک تصور یا خوف ہے۔ ‘
ڈاکٹر عاصمہ فیض کا کہنا ہے کہ ’دیہی سندھ اور بلخصوص کراچی میں تو مسلسل نقل مکانی ہوئی ہے جس میں پشتون آئے ہیں سرائیکی آئے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بات قابل سمجھ ہے جو سندھی قوم پرست بیانیہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ کا کہنا ہے کہ سندھ میں باہر سے آبادی کا آنا کوئی نئی بات نہیں یہ سلسلہ راجہ داہر کے زمانے سے جاری ہے لیکن قیام پاکستان سے قبل جو آبادی آئی وہ یہاں ضم ہو گئی۔ صورتحال میں بگاڑ اس وقت آیا جب قیام پاکستان کے بعد جو لوگ آئے انھوں نے اپنی شناخت علیحدہ اختیار کی، بعد میں پشتونوں نے بھی اس تسلسل کو جاری رکھا حالانکہ ماضی میں جو پشتون آئے وہ اس دھرتی میں ضم ہوئے۔
کشیدگی اور افغان پناہ گزین
سندھ میں حالیہ کشیدگی کے واقعے میں سندھ پولیس نے افغان شہریوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے، سہراب گوٹھ میں ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 70 سے زائد افغان شہریوں کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی جس میں انکشاف ہوا کہ انھوں نے واقعے کی ویڈیوز افغانستان بھیجیں جہاں سے انڈیا بھیجی گئیں اور یہ ٹک ٹاک اور فیس بک پر اپ لوڈ کی گئیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما یونس بونیری کہتے ہیں کہ سہراب گوٹھ میں جو کچھ ہوا اس کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہ جرائم پیشہ افراد تھے جن کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا جنھوں نے لوٹ مار کی، انھیں نہ سندھی نظر آرہا تھا نہ اردو سپیکنگ بس ان کا مقصد لوٹ مار کرنا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں بدامنی کیس کی سماعت کے دوران بھی پولیس کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں خرابی کی ایک وجہ افغان شہریوں کو قرار دے چکی ہے۔
’افغان اور افغانی میں تفریق کریں‘
پاکستان میں 40 سال سے زائد عرصے سے افغان پناہ گزین موجود ہیں، ان کی حتمی تعداد کتنی ہے اس کے کسی کے پاس اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے پناہ گزین کے بارے میں ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق رجسٹرڈ پناہ گزین کی تعداد 13 لاکھ کے قریب ہے جبکہ بعض اداروں کا کہنا ہے کہ صرف ڈھائی لاکھ کے قریب کراچی میں ہیں۔
سندھ کی قوم پرست جماعتیں گذشتہ 40 برسوں سے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے افغان جنگ کے بعد غیر قانونی تارکین وطن پورے پاکستان میں آئے کراچی چونکہ روزگار کا مرکز ہے اس لیے ملک بھر سے افغان پناہ گزین یہاں پہنچ گئے، وفاقی حکومت اور نادرا کا کام ہے کہ ان کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ان کی واپسی یقینی بنائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما یونس بونیری کہتے ہیں کہ افغان اور افغانی شہریوں میں تفریق کرنا پڑے گی، سندھ بشمول پاکستان میں جتنے بھی پختون رہتے ہیں وہ سب بحیثیت قوم افغان ہیں اور ہر پختون افغان ہے لیکن ہر افغان پختون نہیں ہے۔
سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما قادر مگسی کہتے ہیں ’جو افغان مہاجرین آئے تھے انقلاب دور کے بعد سہراب گوٹھ میں ان کے کیمپ بنے تو پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد نو لاکھ بتائی گئی تھی اس کے بعد ایسا ہوا کہ پورے پاکستان کے افغان کراچی میں اکٹھے ہو گئے ان کے سیاسی مقاصد بھی بن گئے ان میں سے کئی نے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈومیسائل بھی بنا لیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے پشتونوں کا سندھیوں اور بلوچوں کے ساتھ ایک مشترکہ موقف تھا کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت ختم ہو اور افغانی عوام اپنے ملک میں جائیں لیکن چند سالوں سے نیا رجحان آیا ہے کہ جو یہاں کا پشتون ہے وہ کہتا ہے کہ ہم افغان ہیں تو وہ جو افغان کا نعرہ لگا کر افغانیوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے تو یہاں ایک کشیدگی اور تناؤ نظر آتا ہے۔ پشتونوں کو یہ بات دیکھنی چاہیے کہ ہم اتحادی رہیں سندھ کے احساسات کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اب جب افغانستان سے امریکہ بھی چلا گیا ہے تو پناہ گزین کی بھی واپسی ہو۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سندھ میں جو مطالبہ ہوتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو واپس جانا چاہیے کہ تو کسی بھی پشتون کو یہ اپنے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے اگر بنگالیوں اور برمیوں کو نکالنے کی بات کی جاتی ہے تو کوئی اردو سپیکنگ اس کو اپنے خلاف نہ سمجھے سندھ کے جو قدیم باشندے ہیں ان کے احساسات کو سمجھ کر ان کا ساتھ دیناچاہیے۔‘
سندھ میں اس وقت بظاہر صورتحال پر امن ہے لیکن سوشل میڈیا پر اب بھی کشیدگی دیکھی جا سکتی ہے، غیر ملکیوں بلخصوص افغانی شہریوں کے انخلا کے لیے سندھی قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔