اڈانی بندرگاہ انڈیا کا تاج‘ کہلائے جانے والے اربوں ڈالر کے منصوبے کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟
انڈیا کی ریاست کیرالہ میں زیر تعمیر ’اڈانی پورٹ‘ ملک میں بننے والی سب سے بڑی بندرگاہ ہو گی۔ تاہم اربوں روپے مالیت کے اس منصوبے کے معاشی فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے عام لوگوں کی مشکلات کو نظرانداز کرنے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
7500 کروڑ روپے لاگت سے بنائے جانی والی اس بندرگاہ کا اصل نام تو ’وزحنجم انٹرنیشنل سی پورٹ لمیٹڈ پراجیکٹ‘ ہے تاہم اب یہ اڈانی پورٹ کے نام سے مشہور ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کے خلاف گذشتہ برس اگست سے عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس پر کچھ عرصے کے لیے اس منصوبے پر کام روک دیا گیا تھا۔
تاہم گذشتہ ہفتے اس سلسلے میں ہونے والے مظاہرے اُس وقت پرتشدد ہو گئے جب لوگوں نے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کر کے اس میں توڑ پھوڑ کی۔ اس سے قبل پولیس نے اُن مظاہرین کو گرفتار کیا تھا جنھوں نے اس منصوبے کی تعمیر میں استعمال ہونے والے گرینائٹ پتھر لے جانے والے ٹرکوں کا راستہ روکا تھا۔ چند مظاہرین کی گرفتاری کے ردعمل میں مشتعل مظاہرین نے پولیس سٹیشن پر حملہ کر دیا تھا۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے بھی اس سلسلے میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ عوام کی جانب سے درج کروائی جانے والی ایف آئی آر پر اب تک کیا کارروائی کی گئی ہے۔
اس جاری تنازع پر ریاست کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجےیان نے کہا ہے کہ ’یہ حکومت کے خلاف احتجاج نہیں ہے، یہ ریاست کی ترقی کو روکنے کی کوشش ہے، چاہے کچھ بھی ہو، انھیں (مظاہرین) کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘
بندرگاہ کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟
ترقی کے خلاف احتجاج کو لے کر بہت سے لوگ جو بندرگاہ کی تعمیر کی مخالفت کر رہے ہیں، ان کی رائے مختلف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس منصوبے کے باعث ترواننتھاپورم سے کولم تک پورے ساحل کے ساتھ ساتھ آباد ماہی گیروں کے روزگار چھن جائے گا۔
ساحل پر بسنے والے زیادہ تر ماہی گیر خاندان مسیحی ہیں اور اس منصوبے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں پیش پیش ہیں۔ وہ اس منصوبے کے باعث ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے لیے نئے سرے سے جائزے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاریخ دان اور سماجی نقاد جے دیویکا کا کہنا ہے کہ ’ان ماہی گیروں کو، جن کے آباؤ اجداد 500 سال سے یہاں رہ رہے ہیں، انھیں نہ صرف روزی روٹی کے چھن جانے کی فکر ہے بلکہ اپنے گھروں اور زمین کی بھی کیونکہ منصوبے کے مطابق بندرگاہ کی تعمیر کے لیے انھیں ان کی بستیوں سے اٹھا دیا جائے گا۔‘
اڈانی پورٹ پراجیکٹ کیا ہے؟
اس منصوبے کے تحت ایسا انفراسٹرکچر بنایا جائے گا کہ بڑے مال بردار جہاز انڈین ساحل پر لنگر انداز ہو سکیں گے۔ اس وقت فیڈرز جیسے چھوٹے انڈین بحری جہازوں کو بھی کولمبو، سنگاپور یا دبئی کی بندرگاہوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد وہاں سے مصنوعات درآمدات یا برآمدات کے لیے منتقل کی جاتی ہیں۔
وی آئی ایس ایل کیرالہ کی ایک سرکاری کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر گوپال کرشنن نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’ہم ہر 20 فٹ کنٹینر کے لیے 80 امریکی ڈالر ادا کرتے ہیں کیونکہ ہم انڈیا میں کہیں بھی مدر شپ (یعنی بڑا مال برادر بحری جہاز) پارک نہیں کر سکتے۔‘
اس کے نتیجے میں نہ صرف سات دن کا نقصان ہوتا ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ پیسہ ضائع ہوتا ہے اور یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے۔ سنہ 2016-17 کے اعداد و شمار کے مطابق ہم صرف اس کام کے لیے 1000 کروڑ روپے ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ ہم 3,000-4,000 کروڑ روپے فریٹ پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ تمام چارجز کووڈ کے بعد چار سے پانچ گنا بڑھ گئے ہیں۔‘
انڈیا کی غیر ملکی تجارت
ایک 20 فٹ کنٹینر، جسے ٹوئنٹی ایکومنٹ یونٹ یا ٹی ای یو کہا جاتا ہے، میں تقریباً 24 ٹن سامان لدا ہوتا ہے۔ مدر شپ یعنی بڑے بحری جہاز میں 10,000 سے 15000 20 فٹ کے کنٹینرز بھیجے جا سکتے ہیں۔
اس سے انڈیا کی مال برداری پر خرچ ہونے والی رقم کی بچت ہو گی، وقت کی بچت ہو گی، درآمدات اور برآمدات پر خرچ ہونے والی رقم کی بچت ہو گی، انشورنس اور تیل پر خرچ ہونے والی رقم کی بچت ہو گی۔
گوپال کرشنن کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اس سال غیر ملکی تجارت میں ایک ٹریلین کا ہندسہ عبور کرنے والا ہے اور اس تجارت کا 90 فیصد سمندری راستے سے ہو رہا ہے۔
ٹرانس شپمنٹ پورٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی مشرق و مغرب بحری روٹ سے صرف 10 ناٹیکل میل کے فاصلے پر وزحنجم پر واقع ہے، جو کہ انڈیا میں کسی بھی ٹرانس شپمنٹ پورٹ کے لیے سب سے کم فاصلہ ہے۔
گوپال کرشنن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی بحری راستے سے اس کا فاصلہ بہت کم ہے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ یہ منصوبہ ’انڈیا کا تاج‘ بننے والا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ’اس کا 19.7 میٹر کا قدرتی ڈرافٹ ہے‘۔ ڈرافٹ وہ گہرائی ہے جس میں جہاز لنگر انداز ہوتے وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ واٹر لائن اور جہاز کے نیچے کے درمیان کا فاصلہ ہوتا ہے۔
گوپال کرشنن کا کہنا ہے کہ ابھی یہ ساحلی ڈرافٹ سمندری فضلے سے بھرا ہوا ہے۔ ہمیں اسے صاف کرنا ہو گا۔ اس کا 40 فیصد کام ہو چکا ہے۔ باقی حصے کو صاف کرنا ہے۔ ہمیں بریک واٹر (سمندر کی دیوار جو اونچی لہروں کو ساحل سے ٹکرانے سے روکتی ہے) کی تعمیر کا کام مکمل کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں بہت مضبوط لہریں ہیں جنھیں تھوڑا سا نیچے کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا اس منصوبے سے سمندری کٹاؤ شروع ہوا ہے؟
مظاہرین اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے لیے اب تک جو بھی کام ہوا ہے، اس سے سمندری کٹاؤ میں تیزی آئی ہے۔
ساحلی زندگی کا مطالعہ کرنے والے ماہر عمرانیات پروفیسر جان کورین کہتے ہیں کہ ’وزحنجم ایک تیزی سے کٹتا ہوا ساحل ہے۔ جہاں سمندری کٹاؤ ہوتا ہے وہاں بندرگاہیں نہیں بنائی جاتیں۔ جہاں یہ ساحلی پٹی ہے، یہ قدرتی طور پر ایک خوبصورت جگہ ہے۔ اگر آپ سمندر میں ٹی کی طرح کا کوئی ڈھانچہ بناتے ہیں تو یہ ساحلی پٹی پر ریت کی نقل و حرکت کو متاثر کرے گا، ریت جنوب کی طرف جمع ہونا شروع ہو جائے گی اور یہ واضح دکھائی دے گا کہ کٹاؤ شمال کی طرف ہو رہا ہے۔‘
پروفیسر کورین نے چنئی کے مرینا بیچ کی مثال دی ہے۔ مرینا بیچ اور پڈوچیری دونوں جنوب کی طرف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’مرینا بیچ بندرگاہ کے جنوب کی طرف آتا ہے اور دیکھیں کہ کس طرح کٹاؤ جنوب کی طرف بڑھ گیا ہے۔‘
تاہم، گوپال کرشنن بریک واٹر یا کسی بھی ڈھانچے کی تعمیر سے سمندری کٹاؤ میں اضافے کے معاملے کو مسترد کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر، مشرقی ساحل پر مغربی ساحل کے مقابلے میں سمندری کٹاؤ کا زیادہ خطرہ ہے۔ اوچکھی اور اس کے بعد آنے والے کئی سمندری طوفانوں کی وجہ سے، مغربی ساحل پر سمندری کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔‘
پروفیسر کورین کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے بریک واٹر بنانے کا کام بڑھ گیا ہے، اسی طرح کٹاؤ بھی ہوا ہے اور بہت سے لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ گوداموں میں رہ رہے ہیں اور اس سے لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔‘
اڈانی گروپ کا کیا کہنا ہے؟
اڈانی پورٹس اینڈ سپیشل اکنامک زون لمیٹڈ (اے پی ایس ای زیڈ) کا موقف اس کے برعکس ہے۔
اڈانی گروپ کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزحنجم بندرگاہ کا منصوبہ ساحلی پٹی پر بنیادی ڈھانچے کو کنٹرول کرنے والے قوانین اور ضوابط کے تحت ہے۔ منصوبے کی اہمیت اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ انڈیا میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔ اور ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ اس پراجیکٹ رپورٹ کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کی نگرانی این جی ٹی خود کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2016 کے بعد سے این جی ٹی کو اڈانی گروپ کے کام میں ماحولیاتی اور سماجی خلاف ورزیوں کا ایک بھی کیس نہیں ملا ہے۔ اڈانی گروپ نے 2015 سے ریاست میں کورپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی کے تحت مختلف منصوبوں پر 570 ملین روپے خرچ کیے ہیں جس سے وزحنجم کے علاقے میں 150,000 سے زیادہ لوگوں کی جانیں بچائی گئی ہیں۔ اور اس کا مثبت اثر پڑا ہے۔‘
اڈانی گروپ اور سرکاری ادارے وی آئی ایس ایل دونوں کا کہنا ہے کہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشین ٹیکنالوجی، انفرا انجینیئرنگ، سینٹرل انسٹیٹیوٹ آف اوشین ریسرچ اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشین ریسرچ جیسے نامور اداروں نے سمندری کٹاؤ اور لوگوں کے ذریعہ معاش کو بچانے میں تعاون کیا ہے اور ساحلی پٹی کے کٹاؤ اور لوگوں کے ذریعہ معاش کے نقصان کے دعوؤں اور الزامات کو مسترد کیا جاتا ہے۔
ماہی گیروں کے روزگار پر اثرات
کیرالہ کیتھولک بشپس کونسل کے ترجمان فر جیکب پالاکاپلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے بندرگاہ کے منصوبے کی تعمیر شروع ہوئی ہے، سمندر کے کنارے کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ماہی گیر اپنی روزی روٹی بچانے میں ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ وہ گہرے سمندر میں مچھلی پکڑنے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ ماہی گیروں کے یہاں ایک ہزار سے زائد خاندان آباد ہیں، اسی لیے مناسب سائنسی جائزے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ایسے کمیٹی تشکیل دے جس میں مچھیروں کی نمائندگی کرنے کے لیے بھی ایک قابل شخص کو شامل کیا جائے۔‘
جبکہ حکومتی ادارے وی آئی ایس ایل کا کہنا ہے کہ ’اس منصوبے کی تین کمیٹیاں نگرانی کر رہی ہیں۔ ان میں سے دو کمیٹیوں میں سائنسدان اور مختلف سائنسی اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔‘
گوپال کرشنن کا کہنا ہے کہ ’ہر روز ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور ہر چھ ماہ بعد ترواننتھ پورم میں یہ کمیٹیاں دو دن تک ڈیٹا کا جائزہ لیتی ہیں۔ اس جائزہ میں 15 عوامل بھی شامل ہیں جن میں ڈریجنگ میٹریل کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے، آیا ساحل کم ہو گیا ہے۔ کیا سمندری نباتات اور سمندری حیات میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور کیا ماہی گیروں کو مچھلی میں کمی کا سامنا ہے ۔ یہ رپورٹیں کمیٹیوں نے سپریم کورٹ اور این جی ٹی کو بھی پیش کی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ماہی گیروں سے ایک ایکڑ اراضی بھی حاصل نہیں کی گئی اور نہ ہی زبردستی چھین لی گئی، گزشتہ سات سالوں میں مچھلیوں کے شکار میں بھی 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
گوپال کرشنن نے یہ بھی تسلیم کیا کہ حکومتی کمپنی وی آئی ایس ایل اپنے گھروں یا روز گار کھو دینے والے کئی خاندانوں کو نقد معاوضہ ادا کیا ہے۔
متاثرہ افراد کی بحالی پر تقریباً 100 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ 100 بستروں پر مشتمل ہسپتال بنایا گیا ہے اور اگلے دو ماہ میں مقامی آبادی کے لیے ہنر سکھانے کا مرکز (سکل سینٹر ) کھول دیا جائے گا لیکن دیویکا کا خیال ہے کہ اس پروجیکٹ سے تھومبا سمیت کئی گاؤں متاثر ہوں گے۔
جہاں لوگوں نے ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی درخواست پر پہلا راکٹ لانچ کرنے کے لیے اپنی زمین انڈیا کے خلائی تحقیق کے ادارے اسرو کو دی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑا ثقافتی سانحہ بھی ہے۔ ساحل پر واقع دیہات تاریخ میں درج ہیں۔ ان دیہاتوں میں قدیم مسیحی ثقافتی آثار باقی ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے اپنے پرانے رسم و رواج کو نہیں چھوڑا۔‘
’ہندوتوا تنظیمیں جو کہتی ہیں کہ مذہب تبدیل کرنے والے کیتھولک چرچ کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلیاں ہیں، یہ دیہات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دعویٰ کس قدر جھوٹا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ان دیہاتیوں کو ایک تاریخی اور ثقافتی ورثے کے طور پر محفوظ کیا جاتا۔ ‘
منصوبے پر کس حد تک کام ہوا ہے؟
تکنیکی طور پر چار مراحل پر مشتمل اس منصوبے کے پہلے مرحلے کا تقریباً 60 سے 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔
پہلے مرحلے کی تکمیل کا مطلب یہ ہوگا کہ تقریباً 10 لاکھ ٹی ای یو یا بیس فٹ کنٹینرز بندرگاہ پر پہنچ سکتے ہیں۔
گوپال کرشنن کہتے ہیں کہ ’یہ 2019 تک مکمل ہونا تھا، لیکن اوچکھی طوفان اور پھر کووڈ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ ہم اسے 2024 تک مکمل کرنے کی امید کی جا رہی ہے۔ باقی مراحل دسمبر 2025 یا جنوری 2026 تک مکمل ہو جائیں گے۔ ہڑتال اور مظاہرین کا اس منصوبے پر بہت بڑا اثر پڑا ہے لیکن ہماری کوشش ہے کہ اس منصوبے کو وقت پر مکمل کیا جائے۔