انڈین پریمیئر لیگ کیا انڈیا میں کورونا وائرس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی لہر میں آئی پی ایل کا محفوظ انعقاد ہو سکے گا؟
دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اور چکاچوند ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کا جمعے سے ایک ایسے وقت میں آغاز ہو رہا ہے جب انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر شدت اختیار کر رہی ہے اور انڈیا میں نئے متاثرین کی ریکارڈ تعداد سامنے آرہی ہے۔
نو اپریل سے شروع ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں آٹھ ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں جو کہ اگلے سات ہفتوں تک انڈیا کے چھ شہروں میں 52 میچز کھیلیں گی اور 30 مئی کو اس ٹورنامنٹ کا اختتام ہوگا۔
یہ مقابلے چنئی، بنگلور، دہلی، ممبئی، کولکتہ اور احمد آباد میں کھیلے جائیں گے اور ان مقابلوں میں شائقین شرکت نہیں کر سکیں گے۔ یہ تمام وہی شہر ہیں جہاں حالیہ دنوں میں وائرس میں شدت آگئی ہے اور بڑی تعداد میں متاثرین سامنے آئے ہیں اور ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے میں اضافہ ہوا ہے۔
انڈیا میں وبا کے آغاز کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 65 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک کروڑ 25 لاکھ سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
اپریل میں وائرس کی دوسری لہر آنے کے بعد سے ملک میں اوسطاً یومیہ 90 ہزار متاثرین کی تشخیص ہو رہی ہے اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اضافہ عوام میں حفاظتی اقدامات سے لاپرواہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
البتہ انڈین کرکٹ بورڈ کے ایک سینئیر عہدے دار کا کہنا ہے کہ انھیں آئی پی ایل کے 14ویں ایڈیشن کے انعقاد کے بارے میں کوئی خدشہ نہیں ہے۔
انڈین کرکٹ بورڈ کے نائب صدر راجیو شکلا نے مقامی نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ آئی پی ایل میں کھلاڑیوں اور ٹورنامنٹ سے منسلک لوگوں کے لیے بائیو سکیور ببل قائم کیا گیا ہے جہاں مسلسل ان کی ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے اور انھیں توقع ہے کہ حفاظتی اقدامات لینے کے بعد ٹورنامنٹ ‘بغیر کسی مشکل کے’ ہو جائے گا۔
لیکن ہر کوئی اتنا پر اعتماد نہیں ہے۔
اب تک چار کھلاڑی اور ایک ٹیم کے عہدے دار میں کووڈ 19 کی تشخیص ہو چکی ہے اور ٹورنامنٹ شروع ہونے سے قبل ہی ان کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔
بدھ کے روز بنگلور رائل چیلنجرز کے کھلاڑی ڈینئیل سیمس وہ پہلے غیر ملکی کھلاڑی ہیں جن میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں کام کرنے والے عملے میں سے دس افراد میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ اس میدان میں دس میچز کھیلے جائیں گے جبکہ آٹھ میں سے پانچ ٹیمیں ممبئی میں مختلف ہوٹلوں میں مقیم ہیں اور شہر کے مختلف میدانوں میں ٹریننگ کر رہی ہیں۔
انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر میں ملک کا دوسرا سب سے متاثر ہونے والا شہر بھی ممبئی ہی ہے۔
اخبار ٹائمز آف انڈیا نے ان حالات پر ایک سرخی شائع کی: ‘آئی پی ایل پر گہرے بادل منڈلانے لگے’۔
اسی اخبار نے ٹورنامنٹ کے حوالے سے کئی اہم سوالات بھی کیے جیسے یہ ٹورنامنٹ شائقین کی غیر موجودگی میں چھ شہروں میں کیوں کھیلا جا رہا ہے، ٹورنامنٹ کو گذشتہ سال کی طرح متحدہ عرب امارات کیوں نہیں منتقل کیا گیا۔
اخبار نے پوچھا: ’کیا اس سال کا ٹورنامنٹ کہیں ایک ٹائم بم تو نہیں؟‘
ٹیموں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں محفوظ ماحول میں رکھا گیا ہے تاکہ وہ ببل سے باہر کے لوگوں سے رابطے میں نہ آئیں۔
انڈین بورڈ نے اس ببل کو محفوظ رکھنے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں جو ہر ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں۔
ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق ممبئی کے سٹیڈیم کا عملہ ہر دو دن بعد کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرواتا ہے۔ لیکن کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ببل کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔
ان آٹھ ٹیموں کے تمام کھلاڑیوں کو ملا کر کُل دو سو افراد اس ببل کا حصہ ہیں۔ پھر اس کے بعد ٹیموں کا عملہ اور ان کے عہدیداران، کمنٹیٹرز، براڈ کاسٹ عملہ، میدان کا عملہ، اور دیگر کئی افراد ہیں جن کو اس ببل میں رکھنا ہے۔
ہندوستان ٹائمز اخبار کے مطابق ٹورنامنٹ کے براڈ کاسٹر سٹار سپورٹس کے اپنے 700 افراد ہیں جنھیں اس ببل میں رکھا گیا ہے جبکہ 100 سے زیادہ کمنٹیٹرز کو آٹھ مختلف ببلز میں رکھا گیا ہے۔
ایک آئی پی ایل ٹیم کے سابق اہلکار نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈین بورڈ کے حکام نے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔
‘اگر ایک بھی ببل متاثر ہوا، تو پورا ٹورنامنٹ خطرے میں پڑ جائے گا۔’
دوسری جانب سابق انڈین کپتان اور بورڈ کے موجودہ سربراہ، ساروو گنگولی نے کہا ہے کہ گذشتہ برس کے آئی پی ایل نے دکھا دیا ہے کہ ‘ جب سب کچھ قابو میں آ جائے گا اور ہر کوئی ببل میں ہوگا، تو چیزیں قابو میں رہیں گی۔’
لیکن شاید انڈین شہروں میں ان ببلز کو برقرار رکھنا اتنا آسان نہ ہو۔
گذشتہ برس جب آئی پی ایل یو اے ای میں کھیلا گیا تھا تو وہاں انفیکشن کا تناسب آج کے انڈیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم تھا۔
اس کے علاوہ وہاں مقابلے صرف تین مقامات پر کھیلے گئے تھے اور ان میں کسی قسم کے ہوائی سفر کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس سال آئی پی ایل میں ایسا نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ اگر یہ ٹورنامنٹ منسوخ ہوتا ہے تو وہ انڈین بورڈ کے لیے بہت بڑا مالی دھچکہ ہوگا۔
گذشتہ سال کے آئی پی ایل کو جب پہلے منسوخ کیا گیا تھا تو صرف میڈیا حقوق کی مد میں بورڈ کو 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا۔
کرکٹ کے موقر جریدے وزڈن المانک کے انڈیا ایڈیشن کے مدیر سریش مینن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ اس ٹورنامنٹ پر بہت زیادہ پیسہ لگا ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘آئی پی ایل کی وجہ سے بہت پیسہ آتا ہے اور وہ مقامی کرکٹ کے لیے ضروری ہے۔ لیکن میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ یہ ٹورنامنٹ نہیں ہونا چاہیے تھا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ اگر ان ببلز میں کسی کو انفیکشن ہوا تو ٹورنامنٹ ختم کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ اس سال انڈیا کی قومی ٹیم کا شیڈول بہت مصروف ہے۔ اب سے لے کر اگلے سال کے آئی پی ایل تک انڈیا کو 14 ٹیسٹ میچز، 12 ایک روزہ میچز، 22 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے ہیں اور اس کے علاوہ اکتوبر میں انڈیا میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کا بھی انعقاد ہونا ہے۔
سریش مینن نے کہا کہ اچھی منصوبہ بندی اور کھلاڑیوں کے ڈسپلن کے باعث انڈیا نے گذشتہ سال تو بغیر کسی دشواری کے نکال دیا لیکن ان حالات میں کھیلنا کھلاڑیوں کے لیے آسان نہیں ہے۔
‘گذشتہ برس ہم بہت خوش قسمت رہے۔