انڈیا پنچایت کے ’فیصلے‘ پر خاتون پر سرعام تشدد کی وائرل ویڈیو، دو ملزمان گرفتار
انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے ضلع مدھے پورہ میں ایک خاتون پر سرعام تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ اس ویڈیو میں ایک خاتون سر پر ساڑھی کا پلو لیے کھڑی ہے اور اس کے ارد گرد کھڑے مرد مقامی زبان میں غصے میں باتیں کر رہے ہیں۔
ویڈیو میں ایک شخص بانس کی چھڑی کو ہلکی آگ پر سینکتا بھی نظر آرہا ہے۔ ایسے میں مشتعل افراد میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر خاتون کو اس گرم چھڑی سے بے رحمی سے پیٹنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ خاتون کی ساڑھی کھل جاتی ہے۔
اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اس معاملے میں اب تک دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ملوث دیگر ملزمان کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
مدھے پورہ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ راجیش کمار نے بی بی سی کو بتایا: ’اس واقعے میں سات افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے شنکر داس اور ایک دوسرے ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ واقعہ 20 مارچ کو پیش آیا تھا لیکن پولیس کے علم میں یہ معاملہ 23 مارچ کو اس وقت آیا جب یہ خاتون علاج کے لیے صدر ہسپتال پہنچی۔ اس پورے واقعے ذات پات کی بنیاد پر ایک مقامی پنچائت ہوئی تھی جس نے اس خاتون پر بدچلنی کا الزام لگا کر یہ سارا واقعہ انجام دیا۔‘
وائرل ویڈیو کا معاملہ ہے کیا؟
وائرل ویڈیو کا واقعہ رواں ماہ 19 اور 20 مارچ کا ہے۔ یہ واقعہ مدھے پورہ شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تلسی باڑی گاؤں میں تانتی برادری کے 15 سے 20 گھرانوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں پیش آیا۔
وائرل ویڈیو میں متاثرہ خاتون الپنا کماری (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’19 مارچ کی شب جب پیٹ میں اچانک درد محسوس ہونے پر میں رفع حاجت کے لیے گھر سے باہر مکئی کے کھیت میں گئی تو وہاں شنکر داس، پنٹو داس، پردیپ داس اور ابھے داس نامی افراد نے مجھے پکڑ کر میرے ساتھ گینگ ریپ کرنے کی کوشش کی، میرے شور مچانے پر میرے سسر وہاں آئے تو یہ لوگ کسی کو کچھ نہ بتانے کی دھمکی دے کر وہاں سے فرار ہو گئے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’اگلی صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ان چاروں افراد نے دوبارہ ہمارے گھر پر دھاوا بولا اور میرے سسر کو باندھ کر مجھے گھسیٹ کر باہر لے گئے۔ پھر ان لوگوں نے مجھے بانس کے گرم ڈنڈوں سے مارا، ساڑھی کھینچی اور تقریباً دس ہزار روپے چھین لیے۔ بعد میں رویندر تانتی، منوج داس اور چندن داس نے بوچائے داس کے گھر کے سامنے میرے ساتھ نازیبا حرکات کیں۔‘
جنھوں نے پیٹا وہی ہسپتال لے گئے
چار لڑکیوں اور ایک لڑکے کی ماں الپنا کماری کے شوہر اویناش کمار (فرضی نام) پنجاب کی گووند گڑھ منڈی میں مزدوری کرتے ہیں۔ الپنا گاؤں میں اپنی ساس سسر کے ساتھ رہتی ہیں۔ اویناش پنجاب میں 300 روپے یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا:’مجھے میری 14 سالہ بیٹی کا فون آیا کہ پاپا ممی کو بہت مارا پیٹا ہے اور دادا دادی کو بھی مار رہے ہیں۔ جس کے بعد میں نے گاڑی پکڑی اور 22 مارچ کی رات کو مدھے پورہ آیا۔ جن لوگوں نے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا وہ ہی اسے علاج کے لیے ہسپتال لے گئے، لیکن اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی، گھر پہنچنے کے بعد 23 مارچ کو اسے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جس کے بعد اسی دن اسے صدر ہسپتال میں داخل کرایا گیا، اسی دن اس نے پولیس سٹیشن میں شکایت بھی درج کروائی کی۔‘
فی الحال الپنا کا علاج صدر ہسپتال مدھے پورہ میں جاری ہے۔ شوہر اویناش نے بتایا کہ ان کے سر میں درد اور پورے جسم پر تشدد کے نشانات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ مدھے پورہ کے چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سنتوش کمار نے بی بی سی کو بتایا: ‘خاتون کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ میڈیکل کالج میں ان کا سٹی سکین کیا گیا ہے۔‘
شوہر اور گاؤں والے کیا کہتے ہیں؟
اس پورے واقعے پر مختلف باتیں کی جا رہی ہیں۔ اسی گاؤں کے ایک 22 سالہ دیہی ڈاکٹر نکیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خاتون کے سسر نے پنچایت سے کہا تھا کہ اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرو۔ جو کچھ بھی ہوا، ٹھیک نہیں ہوا۔ ساری عزت ختم ہو گئی ہے۔‘
اس واقعہ کی کوریج کرنے گئے ایک مقامی صحافی ترباسو کا کہنا ہے کہ ’19 تاریخ کو مکئی کے کھیت میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد رات کو ایک بار پھر تانتی ذات کی پنچایت ہوئی تھی جس میں متاثرہ خاتون کے سسر نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ پنچایت اس کی بہو کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے۔
صبح ہوئی تو ان لوگوں نے متاثرہ خاتون کو بے دردی سے مارا پیٹا۔ لیکن معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب ان لوگوں نے نئی بات کہی کہ یہ خاتون علاقے میں چوری کروا رہی تھی اور مخبری کیا کرتی تھی۔‘
اسی دوران متاثرہ کے شوہر اویناش نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ لوگ ماضی میں بھی اسے غلط کہتے تھے اور خاندان کو ہراساں کرتے تھے۔ میرے پاپا کو بھی ان لوگوں میں سے ایک شنکر داس نے ایک بار مارا پیٹا تھا۔ ہم سب غریب ہیں، کسی کے پاس پیسہ نہیں ہے، اور یہ لوگ طاقتور ہیں، مجھے باقیوں کا زیادہ علم نہیں کیونکہ جب سے میں آیا ہوں، میں اپنی بیوی کے علاج میں لگا ہوا ہوں۔‘
اس معاملے کے تمام مفرور ملزمان میں سے شنکر داس کی ماں اور پردیپ داس کی بیوی اس پورے واقعے کو غلط نہیں مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’اگر اس عورت کو سبق نہ سکھایا جاتا تو ہمارے گھروں کی بہو بیٹیاں بھی اسی طرح بگڑ جاتیں۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس واقعے کے ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اس پر رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یوتھ اگینسٹ ریپ نامی ایک مصدقہ ٹوئٹر ہینڈل نے طنز کرتے ہوئے لکھا ’بیٹی بچاؤ کا اچھا گہوارہ۔ بہار کے مدھے پورہ میں ایک خاتون کو گرم راڈ سے بے دردی سے پیٹا گیا۔ کچھ لوگوں نے سر عام اس کے کپڑے بھی اتارنے کی کوشش کی۔ آج کے دور میں بھی لوگ ایسا کرتے ہیں۔‘
ویڈیو کے ساتھ اس نے بہار پولیس اور خواتین کے قومی کمیشن کو ٹیگ بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ بیٹی بچاؤ بی جے پی اور مرکزی حکومت کا نعرہ ہے۔
روبی ارون نامی ایک صارف نے بہار کے وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ یہ ہے نتیش کمار کے سوشاسن (گڈ گورنینس) کا بربریت اور درندگی بھرا سچ۔ بہار کے مدھے پورہ میں بھری پنچایت کے سامنے ایک خاتون کے کپڑے اتارے جاتے ہیں، اسے لاٹھیوں سے جانوروں کی طرح پیٹا جاتا ہے۔‘
بہت سے لوگوں نے اس قسم کی پنچایت کے خاتمے کی بھی بات کی ہے اور اسے دہلی سے ملحق ہریانہ میں ہونے والی کھاپ پنچایت کہا ہے۔ کھاپ پنچایت کو خواتین مخالف اور مردوں کی اجارہ داری والی پنچایت کہا جاتا ہے۔