انڈیا پاکستان کے بٹوارے میں ڈکوٹا طیاروں نے کیا کردار ادا کیا؟
’سنگین حالات کے باوجود لوگ باہر نکل آئے تھے۔ لڑائی رُک چکی تھی اور لاشوں کو ٹھکانے لگایا جا رہا تھا۔ شہری اب اپنے گھروں کا رُخ یہ جاننے کے لیے کر رہے تھے کہ اُن کا کتنا نقصان ہوا ہے۔‘
انڈین مصنف بھیشم ساہنی نے تقسیمِ ہند کے وقت ہونے والے قتل عام اور لوٹ مار کی تصویر کشی اپنے ناول ’تمس‘ (تاریکی) میں کی ہے۔ سنہ 1947 میں ہونے والے اس بٹوارے کے نتیجے میں انڈیا اور پاکستان کے نام سے دو ریاستیں وجود میں آئی تھیں۔ اس موقع پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں تقریباً سوا کروڑ لوگ بے گھر ہوگئے جبکہ 10 لاکھ لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
گاؤں کے باسیوں کو اپنے گھروں کو جانے اور نقصان کا اندازہ لگانے کا یہ موقع اُس وقت میسر آیا جب اُن کے تباہ شدہ گاؤں کے اُوپر سے ایک طیارے نے فضا میں تین بار چکر لگائے۔
انڈین مؤرخ عاشق احمد اقبال کہتے ہیں کہ طیارے کی فضا میں موجودگی کافی مؤثر رہی کیونکہ اس کی وجہ سے بلوائیوں کے ہجوم ڈر کر منتشر ہوئے جبکہ گاؤں والوں کو اپنے دفاع کے لیے تیاری کرنے کا وقت ملا۔
عاشق احمد اقبال اپنی کتاب ’دی ایئرو پلین اینڈ دی میکنگ آف ماڈرن انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’تقسیم ہند کے دوران ہوائی جہاز کا مختصر مگر انتہائی اہم کردار رہا۔‘
تقسیم کے دوران انڈیا اور پاکستان سے مجموعی طور پر لگ بھگ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد نے اپنے گھروں کو چھوڑا اور نقل مکانی کی۔ ان میں سے بیشتر افراد نے نقل مکانی کے لیے ٹرین، بیل اور گھوڑا گاڑی یا پیدل سفر کیا۔
عاشق اقبال کہتے ہیں کہ نقل مکانی یا ہجرت کرنے والے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد میں سے صرف 50 ہزار (یعنی ایک فیصد سے بھی کم) کو ہوائی جہازوں کے ذریعے انڈیا سے پاکستان اور پاکستان سے انڈیا پہنچایا گیا۔ آبادی کے اتنے بڑے پیمانے پر تبادلے کا عمل ستمبر 1947 سے نومبر 1947 کے درمیان یعنی لگ بھگ تین ماہ میں مکمل ہوا۔
عاشق اقبال کے مطابق رائل انڈین ایئر فورس (برطانوی ہندوستان کی فضائی قوت جو بعد میں انڈین ایئرفورس بنی) نے نقل مکانی کے اس عمل کے دوران بدنظمی کو روکنے میں کچھ حد تک کردار ادا کیا مہاجرین کو متاثرہ علاقوں سے نکلنے اور اپنی پسند کے ملک پہنچنے میں مدد کی۔
ہر صبح رائل انڈین ایئر فورس کے طیارے حکمتِ عملی کے تحت اپنے مشن کا آغاز کرتے اور پناہ گزینوں سے لدی ٹرینوں کو بلوائیوں کے ممکنہ حملوں سے بچانے کے لیے ریلوے پٹریوں پر اُوپر ریل کے ساتھ ساتھ پرواز کرتے۔ طیاروں میں موجود افسران وائرلیس ریڈیو کا استعمال کرتے ہوئے ٹرینوں کے ساتھ رابطے میں رہتے اور اس بات کی بھی کھوج اندازہ لگاتے کہ کہیں پٹریوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ تو نہیں کی گئی ہے۔ پرواز کے دوران یہ طیارے زمین پر مسلح ہجوم کی تلاش بھی کرتے اور اس بابت ٹرینوں کے ڈرائیوروں کو آگاہ کرتے۔
عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ستمبر 1947 میں پنجاب کی فضا میں پرواز کرتے ایک طیارے کو چونکا دینے والا منظر نظر آیا: زمین پر سفر کرتا لگ بھگ 30 ہزار پناہ گزین کا قافلہ جو 40 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس طیارے نے بلوائیوں کے ایک چھپے ہوئے گروہ کا پتہ لگایا جو تھکے ہوئے پناہ گزینوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھا اور پھر انھوں نے یہ خبر اس علاقے میں گشت کرنے والے افسران تک پہنچائی۔
یہ طیارے اُن دیہاتوں سے دھویں کے کثیف بادل اٹھتے ہوئے دیکھنے کے شاہد ہیں جنھیں بلوائیوں نے آگ لگا دی تھی۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ ذرا نیچے سے پرواز کرتے تو آپ کو پنجاب کے مشہور نہری نظام میں تیرتی ہوئی لاشیں نظر آتی تھیں۔‘
صرف یہ ہی نہیں ’رائل انڈین ایئر فورس‘ کے قابل اعتماد ڈکوٹا طیاروں نے ہیضے کی ویکسین کی 15 لاکھ خوراکیں دہلی سے کراچی منتقل کیں تاکہ غیر محفوظ پناہ گزین کیمپوں میں ہیضے کی وبا کو روکنے میں مدد مل سکے۔ ان ہی طیاروں کے ذریعے مہاجرین کے لیے پکا ہوا کھانا، چینی، تیل اور اشیائے خورد و نوش بھی پہنچائے گئے۔
عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ان طیاروں کا استعمال انڈیا اور پاکستان میں فسادیوں کو تشدد پر مائل نہ ہونے سے متعلق انتباہی پرچے پھینکنے کے لیے بھی ہوا۔ رائل انڈین ایئرفورس نے پاکستان کے دور دراز علاقوں جیسا کہ ملتان، بنوں اور پشاور سے غیر مسلموں کے انخلا کا کام بھی سرانجام دیا۔
شاید آپ کو اگست 2021 کا کابل ایئرپورٹ کا وہ منظر یاد ہو گا جس میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد مایوس افغان امریکی فوجی جیٹ طیاروں کے ساتھ دوڑ کر اپنے ملک سے کسی بھی قیمت پر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سنہ 1947 میں دہلی اور پنجاب کے ہوائی اڈوں پر بھی ’بڑے خطرے اور مایوسی‘ کے ویسے ہی لمحات نظر آئے تھے۔
عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ’ہوائی اڈوں کے قریب کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزین اجازت ملتے ہی ہوائی جہازوں کی طرف بھاگتے تھے۔ خطرے سے باہر نکلنے کے لیے بے چین مسافر جہاز میں سوار ہونے کے لیے عملے کو پیسے اور سونا بھی رشوت دینے لگے تھے۔‘
اس وقت فضائی ٹکٹ مہنگے تھے اور مسافروں کو بہت کم سامان ساتھ لے جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ کتاب میں انڈیا کی موجودہ ریاست حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ گزین کی سرگزشت بھی شامل ہے جو اپنے ساتھ صرف قرآن پاکستان لے کر جا رہے تھے۔ جبکہ چند مسافروں کے پاس لے جانے کے لیے صرف اپنے ’بچے کی ٹوٹی پھوٹی بید کی کرسی‘ یا ’لاغر سا طوطا‘ تھا۔
ہوائی سفر مہنگا ہونے کے باوجود یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کہ پروازیں مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے طیاروں کے اندر سے نشستیں اور قالین ہٹا دیے گئے تھے۔ عمومی طور پر ڈکوٹا ڈی سی-3 طیارے پر 21 مسافروں کو لے جانے کی گنجائش ہوتی تھی لیکن وہ اکثر اس تعداد سے پانچ گنا زیادہ مسافر لے جا رہے ہوتے تھے۔
طیارے میں ایسے ہی پناہ گزینوں کے ایک ہجوم پر قابو پانے کے لیے ایک نجی ایئر لائن کے پائلٹ نے عملے میں موجود ٹیکنیشن کو آہنی مکہ (نکل ڈسٹر) دیا۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ وہ ٹیکنیشن طیاروں کے ٹائروں تلے موجود انڈر کیریج پنوں کو جمع کرتے ہوئے طیارے کے دروازے کی طرف آہنی مکے مارتے ہوئے پہنچتے اور پھر مضبوطی سے دروازہ بند کر دیتے۔ اور طیارہ کا دروازہ بند ہونے کے بعد جب ایک بار انجن سٹار ہو جاتا تو پھر انجنوں سے نکلنے والی بھاپ کی وجہ سے رن وے پر موجود ہجوم خود بخود منتشر ہو جاتا۔
یہ بہت بڑی بات تھی کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں کی طیاروں میں موجودگی، ہوائی اڈوں پر موجود ڈھیلی ڈھالی سکیورٹی اور طیاروں کے اپنے وقت سے زیادہ پرواز کرنے کے باوجود کسی بڑے حادثے کی اطلاع نہیں ملی۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ’مہاجرین اکثر سکیورٹی کی کمی کی وجہ سے ہوائی جہازوں کے رن وے پر اُترنے سے پہلے ہی ہوائی اڈوں پر بھیڑ لگا دیتے۔‘
سنہ 1947 کے اوائل تک انڈیا کے پاس 115 مسافر طیارے تھے جن کو 11 نجی کمپنیاں چلاتی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر سول ایوی ایشن کے میدان میں ’بے مثال ترقی‘ دیکھی گئی کیونکہ ہندوستانی کمپنیوں نے سستے طیارے خریدنے شروع کر دیے جن میں زیادہ تر ڈگلس ڈی سی-3 ڈکوٹا طیارے تھے جنھیں امریکی افواج جنگ کے بعد اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھیں۔ لیکن سپلائی میں کمی تھی اور طلب بھی بہت زیادہ نہیں تھی اس لیے منافع بھی زیادہ نہیں تھا۔ تقسیم کے دوران طے شدہ روٹ پر پرواز نہ کرنے والے سویلین طیاروں پاکستان سے مہاجرین کو انڈیا لے جانے کے کام لگا دیا جاتا تھا۔ اور اس کام کے لیے حکومت نے 10 طیاروں کو لگایا ہوا تھا۔
لیکن سویلین ایئر لائن آپریٹرز بڑے پیمانے پر لوگوں کے انخلا سے نمٹنے کے قابل نہیں تھے۔ انھوں نے اس ’ناممکن کام‘ کے لیے طیاروں اور اہلکاروں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی انکار کر دیا۔ آخر کار غیر ملکی مدد طلب کی گئی: 21 برٹش اوورسیز ایئر ویز کارپوریشن (بی او اے سی) کے جیٹ طیاروں نے 6,300 افراد کو دہلی سے کراچی منتقل کرنے کے لیے 15 دن تک ’نان سٹاپ‘ پروازیں کیں۔ وہ دہلی کے ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے مسلمان پناہ گزینوں کے لیے 45,000 کلوگرام خوراک، خیمے اور ویکسین بھی لے گئے۔
برطانوی شہریوں کو نکالنے کے لیے تعینات رائل ایئر فورس کے دو ٹرانسپورٹ طیاروں کو بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقریباً 12,000 افراد کو نکالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ عاشق اقبال لکھتے ہیں کہ ان 12 ہزار افراد میں سے صرف 2,790 برطانوی اہلکار شامل تھے باقی ریلوے، ڈاک اور ٹیلی گراف کے ملازمین تھے جو زمین پر آبادی کے تبادلے میں کلیدی کردار ادا کر رہےتھے۔
اکتوبر 1947 تک انڈیا نے محسوس کیا کہ یہ کوششیں اب بھی کافی نہیں ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ’آپریشن انڈیا‘ شروع کیا گیا تھا۔ اکتوبر اور نومبر میں چھ ہفتوں کے دوران 21 طیارے خاص طور پر آٹھ برطانوی کمپنیوں سے چارٹرڈ ڈکوٹا طیاروں نے، 35 ہزار افراد اور 15 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ وزن کا سامان انڈیا اور پاکستان کے درمیان منتقل کیا۔ اس آپریشن کی غرض سے برطانیہ سے تقریباً 170 ایوی ایشن اہلکاروں کو مدد کے لیے روانہ کیا گیا۔
انڈین ہوا بازی کی کمپنیاں بڑے پیمانے پر عوام کے انخلا کے باعث قاصر نظر آئیں چنانچہ اس لیے انڈیا اور پاکستان کو چارٹرڈ برطانوی طیاروں پر انحصار کرنا پڑا۔ عاشق اقبال کہتے ہیں کہ طیاروں کے استعمال نے ’آزادی کے بعد کے اہم مہینوں میں آزاد انڈیا کے آئین کو تیزی سے بنانے کے قابل بنایا۔‘