انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم بننے سے انتخابات

انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم بننے سے انتخابات

انوار الحق کاکڑ کے نگران وزیر اعظم بننے سے انتخابات اور تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا؟

بلوچستان میں پشتونوں کے معروف کاکڑ قبیلے سے تعلق رکھنے والے انوار الحق کی بطور نگران وزیر اعظم نامزدگی بہت سے لوگوں کے لیے ایک ’سرپرائز‘ ثابت ہوئی ہے۔

انھیں ایک ایسے وقت میں پاکستان کا آٹھویں نگران اعظم نامزد کیا گیا ہے کہ جب ملک کو کئی سیاسی و معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔

جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد اٹک جیل میں قید کیا گیا ہے تو وہیں ملک میں قومی اسمبلی کی تحلیل اور نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد آئندہ عام انتخابات میں تاخیر کا خدشہ موجود ہے۔

تو کیا پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی عمران خان کی جماعت تحریک انصاف دباؤ کا شکار رہے گی؟ یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ آیا ’اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ‘ نگران وزیر اعظم ملک میں بروقت عام انتخابات کروا سکیں گے؟

اس تحریر میں ہم نے انھی سوالوں کے جواب جاننے کے لیے تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

نگران حکومت

انوار الحق کاکڑ کے آنے سے انتخابات میں تاخیر ممکن؟

صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق نامزد نگران وزیر اعظم انوار الحق کا نام اس لیے ایک ’سرپرائز‘ ہے کیونکہ وہ دیگر امیدواروں، جیسے جلیل عباس جیلانی یا تصدق جیلانی، سے کم عمر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عموماً ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا معمر افراد کو نگران وزیر اعظم بنایا جاتا رہا ہے جن کے ’اپنے کچھ ارادے نہ ہوں، جو پُرجوش نہ ہوں۔‘ لیکن انوار الحق کاکڑ ’بہت ینگ ہیں جو کچھ کرنے کے لیے بہت پُرعزم ہو سکتے ہیں۔‘

تو کیا اس کا تعلق اس امکان سے ہوسکتا ہے کہ نگران حکومت کی مدت تین ماہ سے بڑھ سکتی ہے؟ اس پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ یہ کافی حد تک ممکن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بظاہر کاکڑ صاحب کا نام بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہیں بلکہ ’انھی‘ کی طرف سے آیا۔ ’اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نام آنا اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ نگران حکومت طوالت اختیار کر جائے۔‘

تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کی رائے میں بھی انوار الحق کاکڑ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔

چوہدری غلام حسین کے مطابق انوار الحق کی تعیناتی اس بات کا اشارہ ہے کہ ’انتخابات کا انعقاد مزید آگے بھی جا سکتا ہے۔‘

’ہمیں بظاہر تو بتایا گیا ہے کہ انتخابات فروری یا مارچ 2024 تک نہیں ہو پائیں گے لیکن لگ رہا ہے کہ الیکشن اس سے بھی آگے جائیں گے۔ لوگوں نے فرض کر لیا ہے کہ معاشی صورتحال سیاسی عدم استحکام، تخریب کاریوں کے خطرات کا حل ’انھی‘ کے پاس ہے اور (یہ بھی کہ) عوامی مینڈیٹ کے ساتھ منتخب حکومت کی ضرورت نہیں جو کہ بدقسمتی ہے۔‘

صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے انوار الحق کی تعیناتی پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’سینیٹر انوار کا تعلق بلوچستان سے ہے اور سیاسی حوالے سے بلوچستان کے کئی لوگ اس وقت ناراض ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پی ڈی ایم کا حصہ بھی رہے ہیں۔

’انوار الحق کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے اور وہ خود بھی کہتے رہے ہیں کہ وہ ریاست کے حامی رہے ہیں اور انھی کا بیانیہ پیش کرتے رہے ہیں۔‘

ادھر تجزیہ کار طلعت حسین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ انوار الحق کی نامزدگی سے انتخابات میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’نگران حکومت طویل ہونے کے خدشات بہت ہیں مگر اس کے امکانات کم ہیں۔ اس سیٹ اپ کو ایک سیاسی جواز چاہیے جو الیکشن کی مشق سے ہی مل سکتا ہے تو الیکشن تو کروانے ہی ہوں گے کیونکہ اس کے بغیر نظام چل نہیں سکتا۔

’چاہے کاکڑ صاحب ہوں، ان کی کابینہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ۔ وہ اس تہمت کو برداشت نہیں کر سکتے اور عملی طور پر یہ نظام چل نہیں سکتا۔ اگر اس کو اسی طرح آگے لے جایا گیا تو بین القوامی روابط بھی مشکل ہو جائے گے۔‘

نگران حکومت

کیا پی ٹی آئی کے خلاف ریاستی پالیسی مزید سخت ہوگی؟

جہاں ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد اٹک جیل میں قید ہیں تو وہیں ان کی جماعت تحریک انصاف اس وقت واضح طور پر دباؤ کا شکار ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے اس کے کئی رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کر رکھا ہے۔

تو ایسے میں نگران حکومت کے آنے سے لے کر عام انتخابات تک، جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟

تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ انھیں ان حالات میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آ رہی بلکہ لگتا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی انوار الحق کی تعیناتی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

جبکہ چوہدری غلام حسین کے مطابق نگران وزیر اعظم سے ’ایسی کوئی امید نہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی مسلسل زیادتیوں کو روکنے کی کوشش بھی کریں گے۔‘

مگر صحافی طلعت حسین کی رائے میں تحریک انصاف کے خلاف ’کارروائیوں میں اگر تیزی آئے گی تو اس کی وجہ یہ ہو گی کہ پہلے حکومت پر الزام لگتے تھے کہ وہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے (مگر) اب یہ الزام نہیں لگے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’نگران سیٹ اپ، جو بادی النظر میں نیوٹرل ہے، میں تحریک انصاف کو مقدمات کی حد تک کسی قسم کا فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ الٹا نقصان ہوتا نظر آ رہا ہے۔‘

جبکہ شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ نو مئی کے بعد پاکستانی سیاست تبدیل ہوئی ہے۔ ’پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، آگے بھی وہی ہو گا۔ اس کا انوار الحق کاکڑ کی تعیناتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ سیاسی طاقتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کا مسئلہ جاری رہے گا جب تک ’پی ٹی آئی کے جن کو قابو نہ کر لیا جائے۔‘

خیال رہے کہ نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کے معاملے پر تحریک انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ ’وزیر اعظم کی جانب سے کسی بھی سطح پر ان کی جماعت سے مشاورت نہیں کی گئی۔‘

تاہم اس نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ انوار الحق ’برقت انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں گے اور عمران خان کے خلاف بدترین سسنر شپ کا بھی فوری نوٹس لیں گے۔‘

تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’امید کرتے ہیں انوار الحق کاکڑ اپنی نئی ذمہ داری کو غیر جانبدار انداز میں پورا کرتے ہوئے 90 روز میں انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔ ان کے لیے اب پہلا امتحان غیر جانبدار نگران کابینہ کے چناؤ کا ہو گا۔‘

پی ٹی آئی کو امید ہے کہ ’نگران وزیراعظم عوام کے آئینی و جمہوری حقوق پر مزید کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو منصفانہ ماحول میں انتخابی مہم چلانے کے مواقع میسر کرنا نگران حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *