الیکشن 2024: کیا ایسے ہی نتائج متوقع تھے اور اب اگلا منظر نامہ کیا ہوگا؟
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے بارھویں عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وفاق میں بغیر اتحاد کے حکومت سازی کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کی شام مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے دیگر جماعتوں کو حکومت سازی میں شراکت داری کی دعوت دی۔
اگر پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت کے الیکشن میں اُترتی تو یقینی طورپر حکومت سازی کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس مختلف قسم کے آپشنز ہوتے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگلا منظر نامہ کیا بننے جارہا ہے؟
وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی تشکیل کس نوعیت کی ہوگی؟ آزاد اُمیدواروں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا پی ٹی آئی اپنے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے ساتھ کسی چھوٹی سیاسی جماعت میں شامل ہوجائے گی؟
جوڑ توڑ کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی اور مخلوط حکومت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو کیسے بلیک میل کریں گی؟ علاوہ ازیں، الیکشن کی ساکھ پر کس سطح کے سنجیدہ سوالات اُٹھے ہیں؟
جس طرح کے انتخابی نتائج آئے ہیں، کیا ایسے ہی نتائج کی توقع کی جارہی تھی؟ یہاں مذکورہ پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
کیا الیکشن کے نتائج غیر متوقع ہیں؟
الیکشن کے نتائج، ایک حد تک غیر متوقع قرار بھی دیے جا سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ یہ نتائج پاکستان تحریکِ انصاف اور اُس کے حامیوں کے لیے عین متوقع ہوں۔ بلکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی آخری اُمید اُن کے ووٹرز ہی تھے۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو یقین تھا کہ اُن کا ووٹر بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے گا اور نتیجہ بدلنے کی صورت میں پارٹی کی مشکلات میں کمی آئے گی۔
یہ نتائج مسلم لیگ ن اور اُس کے حامیوں کے لیے غیر متوقع ہیں، کیونکہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ ن اتنی نشستیں لے پائے گی کہ اُس کو حکومت سازی کے لیے کسی دوسری بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ میاں نوازشریف کی واپسی سے پنجاب میں پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی اور انتخابی نتائج بھی مختلف آئیں گے مگر یہ خیال پوری طرح درست ثابت نہ ہو سکا۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے نتائج توقع سے بھی زیادہ بہتر آئے ہیں۔ البتہ ن لیگ کو ہرگز اُمید نہیں تھی کہ اس طرح کے نتائج آئیں گے۔
اس ضمن میں سیاسی تجزیہ کار پروفیسر فاروق حسنات بھی سمجھتے ہیں کہ نتائج عین توقع کے مطابق ہیں۔ اُن کے مطابق یہ نظر آرہا تھا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے اور پی ٹی آئی کے نوجوان اور خواتین ووٹرز گھروں سے نکل کر پولنگ سٹیشن کا رُخ کریں گے۔
الیکشن کی ساکھ پر اُٹھنے والے سوالات
الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل بروقت نتائج کے حوالے سے کئی دعوے کیے تھے۔ الیکشن کمیشن کو اپنے الیکشن مینجمنٹ سسٹم پر بھی پورا بھروسہ تھا۔
مگر پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد گنتی کے عمل کے ساتھ جب نتائج کے اعلان کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ تاثر پیدا ہوا کہ بہت سے حلقوں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار میدان مار رہے ہیں تو نتائج کی آمد کا سلسلہ سست روی کا شکار ہوتا چلا گیا۔
نو فروری کی صبح چار بجے الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے نتیجہ کا اعلان کیا گیا۔ اُس کے بعد بھی نتائج کی آمد کا سلسلہ سست روی کا شکار رہا۔ حتیٰ کہ میاں نوازشریف اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ اُمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کے مابین ہونے والے مقابلہ کا نتیجہ نو فروری کی صبح ساڑھے دس بجے کے قریب آیا۔
جب رات کو نتائج سست روی کا شکار ہوئے تو اُس وقت میڈیا رپورٹس کے مطابق یاسمین راشد کی میاں نوازشریف پر ابتدائی طور پر برتری بتائی جا رہی تھی مگر تاخیر کے شکار کے بعد جب حتمی نیتجہ آیا تو میاں نوازشریف بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ مذکورہ نتیجہ اور مجموعی انتخابی نتائج میں تاخیر کے باعث الیکشن کمیشن پر شدید تنقید ہوئی۔ مگر مسلم لیگ ن جو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار ہے کی جانب سے الیکشن کمیشن پر تنقید نہیں کی گئی۔
اس بات نے نتائج کی شفافیت پر کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ سوال اُٹھنے لگے کہ جب دیگر جماعتیں الیکشن کمیشن پر تنقید کررہی ہیں تو مسلم لیگ ن کی جانب سے خاموشی کیوں؟ اس سے یہ تاثرپیدا ہوا کہ نتائج میں سست روی سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر کراچی اور پنجاب کے نتائج سست روی کا شکار ہوئے۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’الیکشن کس حد تک شفاف ہوں گے، یہ تو پہلے ہی پتا چل رہا تھا، رہی سہی کسر نتائج کی سست روی نے نکال دی۔‘
واضح رہے کہ پولنگ ڈے پر انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی بندش نے بھی کئی افواہوں کو جنم دیا اور رات گئے تک یہ سروسز بند رہیں۔
اب آگے کیا ہوگا؟
اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟ وفاق اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ممکنہ طور پر کس طرح کا منظر نامہ بننے جا رہا ہے؟
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کی برتری نے وفاقی حکومت کی تشکیل میں دشواری پیدا کردی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر وفاقی حکومت کی تشکیل کرسکتی ہیں، تاہم دوسری جماعتوں سے اتحاد کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔
مگر ایسی صورت حال میں جوڑ توڑ جہاں ہوگا وہاں ایک دوسرے کو خوب بلیک میل بھی کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کئی بار مسلم لیگ ن سے اتحاد نہ کرنے کہہ چکے ہیں۔
بلاول اپنے مستقبل کی سیاست کو مسلم لیگ ن مخالف بیانیہ کی بنیاد پر فروغ دے کر اُس نسل کے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں جو مسلم لیگ ن سے نالاں ہے۔
مگر آصف علی زرداری کا سیاسی انداز مختلف ہے تاہم یہ بلاول کو اگلا وزیرِ اعظم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے مابین ممکنہ طورپر کس طرح معاملات طے پاسکتے ہیں؟
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’یقینی طور پر پی ڈیم ایم طرز کی حکومت بنے گی اور پیپلز پارٹی اچھے طریقے سے اقتدار میں اپنا حصہ لے گی۔ صدارت پیپلزپارٹی کے حصہ میں آسکتی ہے۔‘
ڈاکٹررسول بخش رئیس کی رائے کا جائزہ لیا جائے تو پھر جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو وفاقی حکومت کی تشکیل کے لیے سیاسی اتحاد کرنا پڑے گا۔
صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا جائزہ لیا جائے تو خیبر پختونخوا اور سندھ میں تو صورت حال کافی حد تک واضح ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر حکومت بنائے گی، اسی طرح خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو حکومت دینا پڑے گی۔
مگر یہاں تھوڑی کنفیوژن ہے کیوںکہ پی ٹی آئی کے کامیاب اُمیدوار آزاد ہیں۔ کیا آزاد اُمیدواروں کی حکومت بنے گی؟ مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں صورتحال مزید آگے جا کر واضح ہوگی۔
بلوچستان میں قومی و صوبائی جماعتیں مل کر ہی حکومت بنائیں گی۔ لیکن اصل معاملہ پنجاب کا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے زیادہ سیٹیں لی ہیں، مگر آزاد اُمیدوار بھی بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ ن ہی حکومت بنائے گی۔ پنجاب میں حکومت بنائے بغیر یہ وفاق میں حکومت نہیں بنائے گی۔
آزاد اُمیدواروں کی حیثیت اور اگلا وزیرِ اعظم کون؟
اس بار کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار دو طرح کے ہیں: ایک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اور دوسرے غیر حمایت یافتہ اُمیدوار۔ مگر غیر حمایت یافتہ اُمیدواروں کی تعداد شاید ایک درجن سے زیادہ نہیں۔
آزاد ارکان اگر کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتے تو اُن کی حیثیت پھر آزاد ہی رہے گی۔ مگر پی ٹی آئی اپنے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے حوالے سے یہ نہیں چاہے گی کہ وہ پانچ سال آزاد ہی رہیں، اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیا ہوگا؟
دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی زیادہ سے زیادہ آزاد اُمیدواروں کو اپنی اپنی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
کیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں کو توڑا جا سکے گا؟
پروفیسر فاروق حسنات کہتے ہیں کہ آزاد ارکان کو تین دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہو گی ورنہ اُن کی حیثیت آزاد ہی رہے گی۔ مگر پی ٹی آئی اپنے ارکان کو پانچ سال آزاد رکھنے کی پالیسی اختیار نہیں کرے گی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ جہاں تک معاملہ ہے کہ پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کے دوسری پارٹیوں میں جانے کا تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان امیدواروں کو معلوم ہے کہ اگر انھوں نے وفاداری تبدیل کی تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا، جو ان سے پہلے والوں کا ہوا ہے۔
پروفیسر فاروق حسنات کا کہنا ہے کہ دوسری بات یہ ہے کہ آزاد اُمیدوار ہر طرح کی مشکلات دیکھ چکے ہیں۔ اب کسی بھی غیر سیاسی قوت کے سامنے پسپا نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ جو آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نہیں ہیں، وہ خریدے جائیں گے شاید کچھ حمایت یافتہ بھی وفاداری تبدیل کر جائیں۔ پی ٹی آئی کے حامی اُمیدوار آزاد گروپ کی شکل میں بھی رہ سکتے ہیں اور کسی چھوٹی پارٹی میں بھی جاسکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگلا وزیرِ اعظم کون ہوگا؟ ایک طرف میاں نوازشریف اُمیدوار ہیں تو دوسری طرف آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو وزیرِ اعظم بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے حلقوں کے مطابق یہ بات کہی گئی تھی کہ اگر دوتہائی اکثریت آئی تو میاں نواز شریف ورنہ شہباز شریف ممکنہ وزیر اعظم ہوں گے لیکن ابھی اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔