افغانستان جانے والا پاکستان کا پارلیمانی وفد کابل ایئرپورٹ سے ہی کیوں واپس لوٹ آیا؟
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں افغانستان کے دارالحکومت کابل جانے والے نو رکنی پارلیمانی وفد کا طیارہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کابل ایئر پورٹ پر لینڈنگ نہیں کر سکا۔
کابل میں واقع ’حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ‘ پر موجود افغان اہلکاروں کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی پرواز ’پی کے 249‘ کابل میں ہوائی اڈے پر لینڈنگ کی تیاری کر رہی تھی جب اسے اسلام آباد واپس جانے کو کہا گیا۔
پاکستان حکام کو بتایا گیا ہے کہ حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کیا گیا تھا۔
طیارے پر دیگر مسافروں کے علاوہ نو رکنی پارلیمانی وفد بھی سوار تھا جو سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں تین روزہ دورے پر افغانستان جا رہا تھاـ
فغانستان کے لیے وزیراعظم پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ سیکورٹی خطرات کے باعث ہوائی اڈے کو بند کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستانی وفد کا دورہ افغانستان ملتوی کر دیا گیا اور نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گاـ محمد صادق بھی اس وفد کے ہمراہ تھے۔
افغان پارلیمنٹ کے سیکریٹریٹ کے سربراہ عبدالقادر زازئی کے مطابق اس واقعے کے بعد افغان پارلیمنٹ کے سپیکر میر رحمان رحمانی نے اسد قیصر سے بات کر کے انھیں صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔
عبدالقادر زازئی کے مطابق سکیورٹی وجوہات کے باعث متعدد طیاروں کو ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ کابل سے پانچ سے چھ پروازیں بھی تاخیر کا شکار ہوئی ہیں۔
دورہ ملتوی ہونے پر سپیکر اسد قیصر کا مؤقف کیا ہے؟
قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے ترجمان رضوان چوہدری نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ وہ پارلیمانی وفد کے ہمراہ قومی ایئرلائن ( PK249-A320) پر سوار ہو کر کابل جا رہے تھے۔ افغانستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد کنٹرول ٹاور سے جہاز کے پائلٹ کا رابطہ ہوا اور انھیں بتایا گیا کہ سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے کابل کا ائیر پورٹ بند کر دیا گیا ہے اس لیے جہاز کو لینڈنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ترجمان نے کہا کہ جہاز ایک گھنٹہ تک ہوا میں رہا اور جب لینڈ کرنے کی اجازت نہ ملی تو جہاز کا رخ واپس اسلام آباد کی جانب موڑ دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں نو رکنی پارلیمانی وفد نے افغانستان کے سپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کی دعوت پر افغانستان کا دورہ کرنا تھا۔
رضوان چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمانی وفد پی آئی اے کی کمرشل فلائٹ پر افغانستان گیا تھا اور جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے جہاز میں سوار دیگر مسافروں کو بھی اسلام آباد میں ہی اترنا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ جہاز نے جب اسلام آباد سے افغانستان کے لیے اڑان بھری تھی تو اس وقت تک افغان حکام کی طرف سے کابل ائیرپورٹ بند ہونے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں تھیں۔
رضوان چوہدری کا کہنا تھا کہ جب جہاز واپس اسلام آباد میں لینڈ کیا تو اس کے بعد افغانستان کے سینیٹ کے چیئرمین اور سپیکر نے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کو فون کیا اور پارلیمانی دفد کا دورہ ملتوی ہونے پر تبادلہ خیال کیا۔
سربراہان افغان پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کی وجہ سے پاکستانی وفد کا جہاز کابل ایئرپورٹ پر نہیں اتر سکا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی وفد کی سکیورٹی ہر چیز پر مقدم ہے۔
دورہ ملتوی ہونے پر افغان پارلیمان کے سربراہان کے اسد قیصر کو فون
سپیکر اسد قیصر کا دورہ کابل ملتوی ہونے پر افغان پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سربراہان چئیرمین سینیٹ فضل ہادی مسلم یار اور سپیکر ولوسی جرگہ میر رحمان رحمانی نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو الگ الگ فون کیا۔ ترجمان اسد قیصر کے مطابق سپیکر ولوسی جرگہ نے کہا کہ پاکستانی وفد کی سکیورٹی ہرچیز پر مقدم ہے۔ امید ہے بہت جلد پاکستان کا پارلیمانی وفد کابل کے دورے پر آئے گا۔
ترجمان کے مطابق سپیکر اسد قیصر نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی صورتحال بہتر ہونے پر جلد افغانستان کا دورہ کریں گے۔ اسد قیصر نے مزید کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
’افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘
’45 منٹ تک کابل ایئرپورٹ پر ہوا میں رہے‘
پاکستانی وفد میں شامل رکن قومی اسمبلی گل داد خان نے بی بی سی کے اعظم خان کو بتایا کہ ان کا طیارہ 45 منٹ تک کابل ایئرپورٹ کے اوپر ہوا میں رہا۔ ان کے مطابق طیارے کے پائلٹ سے افغان حکام رابطے میں تھے اور انھیں یہ بتایا گیا کہ نیٹو افواج ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کے پارلیمانی وفد نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی کرنی تھیں۔
گل داد خان کے مطابق پاکستان نے اس سے قبل اس سلسلے میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں نہ صرف افغان وفد شریک ہوا تھا بلکہ ان روابط کو مزید مضبوط کرنے اور تجارتی حجم کو مزید بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ گل داد خان کے مطابق وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دورے کی منسوخی میں افغان حکام بے بس تھے کیونکہ کابل کا نظم و نسق اب بھی امریکی افواج کے پاس ہی ہے۔
ان کے مطابق پارلیمانی وفد کے دورے کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد بحال کرنا اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک کے لیے برآمدات میں رکاوٹوں کے معاملے پر بات چیت کرنا تھا۔