افغان فورسز کی امریکی ساختہ ’ہم وی‘ جیپ پاکستان کی تحویل میں
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں افغانستان سے متصل سرحدی ضلع قلعہ عبد اللہ میں پاکستانی سرحدی فورسز نے افغان فوج کی ایک امریکی ساختہ ’ہم وی‘ گاڑی کو تحویل میں لے لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز کی امریکی ساختہ ہموی گاڑی کو پیر کے دن پاکستان اور افغان سکیورٹی فورسز میں سرحد پر ایک جھڑپ کے دوران تحویل میں لیا گیا۔
ایک سینیئر حکومتی اہلکار نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ گاڑی پاکستانی حدود میں داخل ہوئی تھی جس پر اس کو تحویل میں لیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق کوئی افغان فوجی اہلکار پاکستانی فورسز کی تحویل میں نہیں ہے۔
دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز میں کشیدگی کے باعث پاکستانی حکام کو چمن میں باب دوستی کو چند گھنٹے کے لیے ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کرنا پڑا تھا تاہم بعد میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان بات چیت کے بعد اسے کھول دیا گیا۔
سرحدی فورسز کے درمیان کشیدگی کس بات پر ہوئی؟
بلوچستان حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کے روز پاکستانی فورسز سرحد پر حسب معمول باڑ لگانے کے عمل میں مصروف تھیں کہ وہاں افغان فورسز نے موقع پر پہنچ کر سرحد پر باڑ لگانے کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغان فورسز کی جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل میں مداخلت کے بعد دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران افغان فورسز کی ایک امریکی ساختہ ’ہم وی‘ گاڑی پاکستانی حدود میں آئی تھی جس کو پاکستانی سرحدی فورسز نے تحویل میں لیا۔
تاہم افغان حکام نے صوبے کندھار میں بی بی سی پشتو کے نامہ نگار مامون درانی کو بتایا کہ یہ واقعہ کلی لقمان میں پیش آیا جو ان کے مطابق افغانستان کی حدود میں واقع ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے کلی لقمان میں باڑ لگانے کی کوشش کی تھی، جس پر دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ افغان حکام کے مطابق اس دوران افغان سکیورٹی فورسز کی ایک امریکی ساختہ ہم وی گاڑی اس جھڑپ میں تباہ ہوئی ہے جو ابھی تک اسی مقام پر موجود ہیں۔
دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز میں جھڑپ کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع بابِ دوستی کو چار سے پانچ گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا جس کے باعث دونوں جانب لوگوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد پھنس کر رہ گئی۔ سرحد بند ہونے کے باعث دونوں اطراف پھنسے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق بعدازاں دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری حکام کے درمیان سرحد پر اجلاس ہوا جس میں پاکستانی حکام کی جانب سے افغان حکام کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستانی فورسز پاکستان کی حدود میں باڑ لگا رہی ہے اور اس پر افغان فورسز کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
انھوں نے افغان حکام کو بتایا گیا کہ آئندہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو کشیدگی پیدا کرنے کی بجائے اس کو مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ پاکستانی حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ اس حوالے سے ضروری قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہموی گاڑی کو افغان فورسز کے حوالے کیا جائے گا۔
پاکستان، افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں
پاکستان اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحدی علاقوں چمن اور سپن بولدک میں جھڑپوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قلعہ عبداللہ بالخصوص چمن سے متصل سرحدی علاقوں میں گذشتہ چند برسوں کے دوران کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث بعض اوقات جھڑپیں بھی ہوتی رہیں جن میں دونوں اطراف سے ہلاکتیں بھی ہوئیں ہیں۔
گذشتہ چار سال کے دوران دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان سب سے بڑی جھڑپ مئی 2017 میں ہوئی تھی جب پاکستانی اہلکار مردم شماری کے سلسلے میں سرحد پر واقع دو غیر منقسم گاﺅں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کے لیے گئے تھے۔ اس جھڑپ میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر کشیدگی رہی ہے۔
پشتون قوم پرست جماعتوں کی جانب سے باڑ لگانے کے اس اقدام کی مخالفت کی جا رہی ہے اور ان کا کہنا ہے یہ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے قبائل کے لوگوں کی تقسیم کا باعث بنے گا۔
دوسری جانب باڑ لگانے کے حوالے سے بلوچستان میں مقامی سطح پر موجودہ اور مستقبل میں ممکنہ درپیش مسائل کے حل کے لیے محکمہ داخلہ بلوچستان کے زیر اہتمام مستقل اجلاس ہو رہے ہیں۔
15 مارچ کو وزیر داخلہ بلوچستان کی صدارت میں ہونے والے پانچویں اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اب تک بلوچستان سے متصل سرحدی علاقوں میں 187 کلومیٹر طویل باڑ لگائی گئی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ باڑ لگانے سے بلوچستان میں بد امنی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور باڈر پر باڑ کی تنصیب دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔