آخری اوور کا کھیل؟ عاصمہ شیرازی کا کالم
ہر کھیل کے کچھ طے شدہ اصول ہوتے ہیں۔ اکھاڑے میں موجود پہلوان ایک غیر تحریری معاہدے کا حصہ ہوتے ہیں کہ جو ہارا وہ شکست تسلیم کرے گا اور جو جیتا اُسے گلے لگائے گا۔ میچ سے پہلے اور میچ کے بعد ہار اور جیت دونوں صورتوں میں ہاتھ ملایا جاتا ہے تاکہ شکست کی ہزیمت اور جیت کا غرور سر چڑھ کر نہ بولے۔ کرکٹ کے میدان میں بھی کپتان ٹاس سے لے کر ہار جیت تک امپائر کے ہر فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔
ہماری سیاست کے کھیل میں امپائر کا کردار ہمیشہ ہی اہم رہا ہے اور یہ اصطلاح بھی جدید سیاست میں عمران خان صاحب نے ہی روشناس کرائی جو اب زبان زد عام ہے۔ امپائر کی جس اُنگلی کا تقاضا اُنھوں نے 2014 میں کیا اب اُنھیں اسی کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔ ذمہ دار وہ خود ہیں یا کوئی اور اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔
امپائر نے جو پچ تیار کی، اُس پر مرضی کے کھلاڑی اُتارے، روزانہ کی بنیادوں پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی وکٹیں گرنے کی اطلاع ملتی۔ ٹی وی سکرینوں پر تحریک انصاف میں کھلاڑیوں کی آمد کی بریکنگ خبریں چلتیں اور گلے میں تحریک انصاف کے مفلر ڈالے جاتے۔ ’امر بالمعرؤف‘ کا اعلان کرتے، تبدیلی کے گُن گاتے، نئے پاکستان کے خواب دکھاتے۔ کپتان نے سونامی سے تبدیلی، تبدیلی سے ریاست مدینہ اور پھر ریاست مدینہ سے امر بالمعروف کا سفر اپنے تئیں خوب طے کیا۔
پُرانے کھلاڑیوں سے نئے پاکستان کی تعمیر پر جب بھی سوال اٹھا تو کپتان کی موجودگی میں کھلاڑی غیر اہم ہی قرار دیے گئے۔
قصہ مختصر اب نیا پاکستان پرانے سے بھی پُرانا ہو گیا تو تبدیلی کے اہم کھلاڑی چور ڈاکو اور بکاؤ مال قرار دیے جانے لگے جن کے گھروں کے سامنے اب درجن بھر لوگ احتجاج کرتے ہیں اور بقول کپتان اب اُن کے بچوں سے کوئی شادیاں بھی نہ کرے اور عوام خود ایسے لوگوں کا گھیراؤ بھی کریں۔ خوف کے اس منظر نامے میں دھونس اور دھاندلی کا پس منظر شامل ہے۔
ایک ہی سانس میں ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنانا اور دوسری سانس میں خود کو ان کا باپ کہہ کر واپسی پر معافی کا اعلان کرنا بھی کپتان کے اکھاڑے کے ہی اصول ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خوف کے اصول کو ہتھیار بنا کر اب امپائر کو بھی دھمکایا جا رہا ہے۔
تاریخ کے جھروکوں میں میکاولی کی یاد تازہ ہو گئی ہے جو اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’دی پرنس‘ میں سیاست میں طاقت کے استعمال پر لکھتے ہیں کہ اگر حکمران کے پاس اختیار ہو کہ اس نے عوام کا محبوب حکمران بننا ہے یا خوفزدہ کرنے والا تو انتخاب خوفزدہ کرنے والا حکمران ہونا چاہیے۔
گذشتہ تین برسوں میں سیاست دانوں، صحافیوں، معزز ججوں کے بعد اب تخلیق کاروں پر حملہ آور تبدیلی کا یہ نظام ایک ایک کر کے سب کو نشانے پر لا رہا ہے۔ اب توپوں کا رخ اُن کی جانب ہے جن کی محنتِ شاخسانہ کا نتیجہ یہ تبدیلی تھی۔ گالم گلوچ بریگیڈ اب مقدس گائے کی تاک میں ہے جن کے کچھ دن پہلے تک گُن گائے جا رہے تھے۔
دھیرے دھیرے تبدیلی اپنے اصلی روپ میں لوٹ رہی ہے۔ پہلے نشانے پر سیاسی حریف، پھر تنقید نگار اور اب اپنی جماعت کے ناراض اراکین۔۔ یہاں تک کہ ایک صفحے کے اہم امپائر اور شاید اگلے مرحلے میں عدلیہ۔۔ خدا نا کرے کہ گھمسان کا ایسا رن پڑے کہ خوف دہشت کا شکار ہو جائے۔
جیت کے لیے اپنی مرضی کا میدان اب میسر نہیں اور نہ ہی امپائر۔۔۔ لیکن اس کشمکش میں کہ کھلاڑی ہاتھ سے نہ نکل جائیں میدان کو آگ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کیا آخری اوور کا کھیل شروع ہو چکا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کپتان کو جیت کے لیے کریز سے باہر نکلنا پڑے گا۔ ایسے میں کپتان کے ہاتھ اکلوتا تُرپ کا پتہ آئندہ ہفتے استعمال ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے پھر نیوٹرل کس قدر غیر جانب دار ہو سکتے ہیں یہ دیکھنا اہم ہو گا۔
اتحادی کھیل میں اپنا حصہ ڈالنے کو تیار جبکہ مخالف کیچ کرنے کے لیے پچ کے قریب گھیراؤ کر چکے۔ دباؤ کے اس آخری اوور میں گیند کیچ ہو گی یا گراؤنڈ سے باہر۔