اسحاق ڈار کی واپسی اور ڈالر کی قیمت میں کمی کیا یہ ملک کے معاشی اشاریوں میں بہتری کو ظاہر کرتا ہے؟
پاکستان میں گذشتہ دو روز میں ملکی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ انٹربینک میں ایک ڈالر کی قیمت دو روز میں چھ روپے کے لگ بھگ گر چکی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 11 روپے کی کمی دیکھی گئی ہے۔
ڈالر کی قیمت میں دو روز میں ہونے والی بڑی کمی کے پس پردہ کوئی معاشی محرکات یا بیرون ملک سے کسی قرضے یا امداد کا آنا نہیں ہے بلکہ ماہرین معیشت کے مطابق اسحاق ڈار کی لندن سے پاکستان واپسی ہے جنھیں مفتاح اسماعیل کی جگہ وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے بدھ کو وفاقی وزیرِ خزانہ کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ وہ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے دوسرے اور تیسرے اقتدار میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔
اسحاق ڈار کی پانچ سال بعد ملک واپسی کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں کمی دیکھی جا رہی ہے جو گذشتہ ہفتے انٹربینک میں 245 روپے کی حد تک چلا گیا تھا۔
پاکستان میں دو دن میں ڈالر کی قدر میں ہونے والی کمی نے مسلسل 15 روز تک ڈالر کی قیمت میں اضافے کے رجحان کو روک دیا ہے تاہم کرنسی کے تجزیہ کار اس کی وجہ پاکستان کے کسی معاشی اشاریے میں بہتری کو قرار نہیں دیتے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ڈار کی واپسی کی وجہ سے فی الحال تو ڈالر کی قیمت میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے تاہم کسی بڑی معاشی پیش رفت کے بغیر اس کمی کے رجحان کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
اسحاق ڈار کی واپسی نے ڈالر کی قیمت کیسے کم کی؟
کرنسی مارکیٹ سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرنسی مارکیٹ اور سٹاک مارکیٹ ملک میں ہونے والی ہر پیش رفت پر ردعمل دیتی ہیں، اسحاق ڈار کیونکہ بطور وزیر خزانہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے ایک عمومی تاثر رکھتے ہیں اس لیے کرنسی مارکیٹ نے ان کی بطور وزیر خزانہ واپسی پر اپنا ردعمل دیا ہے۔
مالیاتی امور کے تجزیہ کار فہد رؤف کے مطابق اگر صرف اس سال ہونے والی چند بڑی پیش رفتوں کو دیکھا جائے تو اس پر کرنسی مارکیٹ کا ردعمل بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں نے حکومت بنائی تھی تو اس وقت بھی ڈالر کی قیمت میں آٹھ سے نو روپے کی کمی واقع ہوئی تھی۔
اسی طرح جب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے قرضہ پروگرام کی بحالی کی منظوری دی تو اس وقت بھی ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی تھی اور مفتاح اسماعیل کی جگہ پر اسحاق ڈار کی وزیر خزانہ کی پیش رفت اسی مارکیٹ سینٹیمنٹ یعنی تاثر کا حصہ ہے کہ جب مارکیٹ ایسے مواقع پر اپنا ردعمل دیتی ہے۔
اُنھوں نے کہا یہ بھی حقیقت ہے کہ مارکیٹ میں قیاس آرائیوں کی بنیاد پر بھی ڈالر کی قیمت اوپر نیچے ہو رہی تھی کیونکہ لوگ اپنی بچت ڈالروں میں بدلتے ہیں اور جب کوئی ایسی پیش رفت ہوتی ہے کہ جس سے قیمت کم ہونے کا اندیشہ ہو تو اس پر فوراً ڈالرز کو فروخت بھی کر دیتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ وہ ڈالر کو کنٹرول کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ممکنہ طور پر لوگوں نے ڈالر فروخت کیے ہیں۔
کرنسی ڈیلر اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے اس سلسلے میں کہا کہ ڈالر کی قیمت میں ہونے والی موجودہ کمی کی بڑی وجہ ڈالر کی قیاس آرائیوں پر مبنی تجارت ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کافی عرصے سے ڈالر کی تجارت کو بھی سٹاک مارکیٹ کی طرح چلایا جا رہا ہے اور انٹر بینک مارکیٹ میں اسی بنیاد پر ڈالر کی قیمت کو اوپر نیچے لے جایا جاتا ہے۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ اسحاق ڈار کے بارے میں ایک عمومی تاثر پایا جا رہا ہے کہ وہ ڈالر کو نیچے لے آئیں گے اس لیے کرنسی مارکیٹ میں بھی اس بنیاد پر ڈالر کو قیاس آرائیوں کی بنیاد پر نیچے گرایا گیا ہے مگر ان کے نزدیک ایسا نہیں کہ اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد ڈالر رکھنے والے افراد جلدی میں ڈالر فرو خت کر رہے ہیں۔
پراچہ کے مطابق جولائی کے مہینے میں یہ ہوا تھا کہ جب لوگوں نے ڈالر دھڑا دھڑ فروحت کیے تھے جس سے ڈالر کی قیمت کم ہوئی تھی تاہم ابھی ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔
کیا معاشی اشاریوں کا کوئی حصہ ہے؟
ظفر پراچہ نے کہا کہ جہاں تک درآمدی ادائیگیوں کی وجہ سے روپے پر آنے والے دباؤ کا معاملہ ہے تو اس وقت کوئی بڑا پریشر موجود نہیں ہے جس کا ایک مثبت اثر تو موجود ہے تاہم درآمدی ادائیگیوں کی نارمل طریقے سے ایل سی کُھل رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈالر کی طلب موجود ہے اور اتنی زیادہ کمی اس کی وجہ سے نہیں آ سکتی۔
تاہم اُنھوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈالر اس وقت پاکستان میں بہت زیادہ اوور ویلیو اور مقامی کرنسی بہت زیادہ انڈر ویلیو ہے۔ ’اس عدم توازن کو کم تو ہونا تھا اور ڈار کی آمد کی وجہ سے یہ عدم توازن تھوڑا کم ہو ا ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی بھی کسی حد تک ڈالر کی قیمت پر اثر انداز ہوئی ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد بیرونی فنانسنگ ابھی تک نہیں آ سکی جس کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں ہونے والے اضافے کی رفتار بھی کم ہو گئی ہے اور اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اس سال کے پہلے دو مہینوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
معاشی اشاریوں میں بہتری نہ ہونے کے باوجود ڈالر کی قیمت میں کمی پر فہد رؤف نے کہا معاشی اشاریوں میں تو فی الحال کوئی بہتری نظر نہیں آئی تاہم اسحاق ڈار کی آمد سے کچھ حرکت پیدا ہوئی کہ وہ کچھ پالیسی بیان دیں گے اور بینکوں سے بات کریں گے، اسی طرح درآمدات کو کم کرنے کے بارے میں کچھ اقدامات اٹھائیں گے، ان تمام عوامل کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے پاکستان کے آٹھ بینکوں کو ڈالر ریٹ اوپر رکھنے پر شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈالر کی قیمت ایسے وقت میں مزید کم ہو سکتی ہے جب ڈالر عالمی مارکیٹ میں مضبوط ہو رہا ہے؟ دنیا بھر میں ڈالر عالمی کرنسیوں کے خلاف مضبوط ہو رہا ہے، یہاں تک کہ برطانوی پاؤنڈ، یورو اور جاپانی ین کے سامنے بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
فہد رؤف نے کہا کہ دنیا میں کساد بازاری اور مہنگائی کی شرح زیادہ ہو رہی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جب کسی ملک میں کساد بازاری اور مہنگائی ہوتی ہے تو اس کی کرنسی بھی کمزور ہوتی ہے اس لیے فی الحال عالمی سرمایہ کار ڈالر میں سرمایہ کاری کو محفوظ آپشن سمجھتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی کرنسی میں ہونے والی کمی کسی معاشی اشاریے میں مثبت پیش رفت پر نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک ردعمل پر کمی ہے جو دیرپا نہیں ہو سکتی جب تک کہ کوئی بڑی معاشی پیش رفت واقع نہ ہو۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ دنیا میں خام تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں جس کا اثر انرجی درآمدات پر کم ڈالر خرچ کرنے کی صورت میں ہو گا۔ اسی طرح عالمی مالیاتی اداروں سے بھی فنڈنگ آنے کی امید ہے جس کا اثر ڈالر کی قیمت میں کمی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
تاہم اُنھوں نے کہا کہ کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ ڈالر 200 روپے سے نیچے آ جائے۔