سندھ میں سیلاب دادو کا باہمت شخص جس نے کشتی خرید کر دو ہزار افراد کو خود ریسکیو کیا
ہم دو روز اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ پانی کے گھیرے میں تھے لیکن کشتی دستیاب نہیں تھی۔ چوتھے روز ایک رشتے دار منت سماجت کر کے کشتی والے کو لائے اور ہمیں ریسکیو کیا۔ 12 سال کے بعد جب حالیہ سیلاب آیا تو میں نے سمجھ لیا کہ کشتی بنیادی ضرورت ہے۔‘
یہ ہیں صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ کے رہائشی عابد حسین ببر، جنھوں نے خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقے کے لوگوں کو خود ریسکیو کیا۔
پاکستان میں بارشوں کے نتیجے میں جنم لینے والی سیلابی صورتحال سے خیرپور ناتھن شاہ شہر سب سے زیادہ متاثر ہے جس میں اس وقت بھی دو سے تین فٹ پانی موجود ہے۔
سنہ 2010 کے سیلاب کی دو راتیں
سندھ میں حالیہ سیلابی صورتحال سے قبل سنہ 2010 میں بھی سیلاب آیا تھا اور ٹوڑھی کے مقام پر دریائے سندھ کے حفاظتی بند میں شگاف پڑ گیا تھا جس کے نتیجے میں کشمور اور کندھ کوٹ سے لے کر خیرپور ناتھن شاہ زیر آب آ گئے تھے۔
عابد حسین بتاتے ہیں کہ ’اگست کا مہینہ تھا اور ان دنوں بھی ضلعی انتظامیہ دادو نے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا تھا اور نہ ہی الرٹ آیا تھا کہ پانی آپ کی طرف آ رہا ہے۔‘
عابد حسین شام کو اپنے گھر میں موجود تھے کہ ایم این وی ڈرین کو شگاف پڑا۔ اس کے بعد خدا واہ نامی کینال بھی ٹوٹ گیا اور پانی کا رخ ان کے گاؤں کی طرف ہو گیا۔
اُنھیں اندازہ نہیں تھا کہ پانی کی سطح اس قدر بلند ہو جائے گی۔
’بڑے بھائی نے فیصلہ کیا کہ صبح چلیں گے، گھر میں خواتین اور بچوں سمیت میری بزرگ والدہ بھی موجود تھیں جو ہیپاٹائٹس میں مبتلا تھیں۔ پانی کی رفتار زیادہ تھی صبح تک ہمارے گھروں میں چار سے پانچ فٹ آ گیا اور ہم پانی کے گھیرے میں تھے۔ ہمیں ریسکیو کرنے کے لیے کوئی کشتی موجود نہیں تھی۔ دو روز بعد رشتے دار ایک کشتی لے کر آئے اور ہمیں ریسکیو کیا۔‘
کشتی بنیادی ضرورت ہے
12 سال کے بعد اگست کا ہی مہینہ تھا جب لاڑکانہ کے قریب سپڑیو بند کو شگاف پڑا اور بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے کٹ لگائے گئے۔ پانی کا ایک بار پھر رخ خیرپور ناتھن شاہ کی طرف تھا۔
اس بار پانی کی مقدار زیادہ تھی۔ ایک رات قبل ضلعی انتظامیہ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے لوگوں کو انخلا کے لیے کہا۔ کئی خاندان تو نکل گئے اور کئی خاندانوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
یہاں سے نکل جانے والوں میں عابد حسین کا خاندان بھی شامل تھا۔ عابد حسین کے مطابق اُنھیں اندازہ تھا کہ انتظامیہ لوگوں کو ریسکیو نہیں کر پائے گی اور کشتی ایک بنیادی ضرورت ہے کیونکہ جب تک انسانوں کو بچایا نہیں جاتا باقی ضروریات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا اُنھوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ رقم جمع کی۔
’ہم نے ٹھٹہ کے کینجھر جھیل سے ایک کشتی خرید لی۔ یہ استعمال شدہ تھی جو ہمیں سات لاکھ روپے کی ملی۔ اس کو چلانے کے لیے ہم وہاں سے ہی ایک ماہی گیر کو بھی لائے جس کے پاس جھیل کے علاوہ سمندر میں بھی کشتی چلانے کا تجربہ تھا اور اس کشتی کو ہم نے خیرپور ناتھن شاہ سے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے اتارا۔‘
عابد حسین کے مطابق خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقوں سے 15 روز میں اُنھوں نے 2000 کے قریب لوگوں کو ریسکیو کیا۔
’اس کے علاوہ دو افراد کی لاشیں بھی خشکی تک لے کر آئے ہیں جن میں ایک لاش دو روز سے سپڑیو بند کے کیمپ میں موجود تھی جہاں کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ کنارے تک لائے تاکہ خشکی میں اس کی تدفین ہو سکے۔‘
’خیرپور ناتھن شاہ آنے جانے میں تین ہزار کا ایندھن لگتا ہے‘
خیرپور ناتھن شاہ جاتے ہوئے راستے میں عابد حسین نے کشتی سے لول جا نامی گاؤں میں اپنا گھر دکھایا اور بتایا کہ دیکھیں وہ ڈوبا ہوا ہے۔
اُنھوں نے حال ہی میں اس کی تعمیر نو کروائی تھی۔ اب جب بھی ان کی کشتی یہاں سے گزرتی ہے تو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔
عابد حسین خیرپور ناتھن شاہ میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ان کے ساتھی آصف شیخ، احمد سندھی اور حفیظ قمبرانی بھی چھوٹے موٹے کاروبار اور ملازمت کرتے ہیں لیکن سماجی خدمت سے بھی وابستہ ہیں۔
انڈس ہائی وے پر واقع ایک لاکھ سے زائد آبادی کے اس شہر میں کئی تعلیمی ادارے ہیں اور یہ ایک تجارتی مرکز ہے۔
’خیرپور ناتھن شاہ آنے جانے میں کشتی پر تین ہزار کا ایندھن لگتا ہے۔ ابتدا میں تو دوست اس میں مدد کرتے تھے لیکن 10 روز کے بعد ان کے لیے ممکن نہیں رہا کیونکہ وہ سب سیلاب متاثرین تھے لیکن اُنھوں نے یہ کام جاری رکھا۔‘
خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس میں کشتیاں دستیاب نہیں صرف منچھر جھیل میں کشتیاں چلائی جاتی ہیں۔
موجودہ وقت انڈس ہائی وے پر نائچ گوٹھ کے مقام پر جیٹی جیسی صورتحال ہے جہاں سے پی ڈی ایم اے، پاکستان آرمی اور نیوی اپنا ریسکیو آپریشن ختم کر چکی ہیں تاہم نجی طور پر کشتیاں چلائی جا رہی ہیں جو لوگوں کو خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس میں لے کر جاتی ہیں۔ یہ 300 سے 500 روپے کرایہ لے رہی ہیں۔
عابد حسین نے اس وقت اپنی کشتی میڈیکل کیمپ لگانے والوں اور متاثرین میں راشن لے جانے والوں کے لیے مفت میں مختص کی ہوئی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ گاڈھی گوٹھ سے وہ ایک 16 سے 17 سالہ لڑکی کو ریسکیو کر کے لائے جس کو جھٹکے لگ رہے تھے۔
وہ ایک ڈیڑھ گھنٹے ادھر ادھر بھاگتے رہے لیکن کنارے میں کوئی میڈیکل کیمپ موجود نہیں تھا۔ لڑکی کی حالت دیکھ کر بے بسی محسوس کر رہے تھے، بالآخر دوستوں نے چندہ جمع کیا اور ایک گاڑی کے ذریعے لڑکی کو دادو روانہ کیا۔
خیرپور ناتھن شاہ میں دو سے تین فٹ پانی کی سطح کم ہونے کے بعد لوگوں نے فیملی کے ساتھ واپسی اختیار کی لیکن وہاں بجلی، مواصلات، پینے کے صاف پانی کی کوئی سہولت دستیاب نہیں۔
اس وقت ان کے لیے لائف لائن صرف کشتیاں ہی ہیں جو سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک چلتی ہیں۔