یورپ کی دلدلوں میں دفن انسانوں کی قربانیوں کی پراسرار داستانیں
قدیم دور کی بہت ہی غیر معمولی انداز میں محفوظ انسانی لاشیں شمالی یورپ کے دلدلی علاقوں میں دریافت ہوتی رہی ہیں۔ مُردوں کے محفوظ کیے جانے کے طریقے سے زیادہ حیرانی اُن لوگوں کی پریشان کن موت ہے۔
اینڈریو مولڈ کو شمال مغربی انگلینڈ کے شہر چیشائر میں ’لِنڈو ماس‘ نامی ایک دلدل کے نیچے ایک ٹھوس، گول شے دریافت ہوتی ہے جو اسے ایک پرانے زمانے کے چمڑے کے فٹ بال کے سائز میں ایک کھوپڑی کی صورت میں ملتی ہے۔ لیکن قریب سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ یہ جو بظاہر نظر آرہی ہے یہ اس سے کچھ زیادہ گنجھلک، پیچیدہ ہے اور کہیں زیادہ سنگین شہ ہے۔
اس مضمون میں قتل، رسم قربانی اور خودکشی کے حوالے شامل ہیں۔
مولڈ کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے یہ سب کچھ صاف کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ایک انسانی کھوپڑی ہے۔’ یہاں تک کہ اس میں ایک زرد رنگ کا مادہ بھی تھا جو اسے بعد میں معلوم ہوا کہ دماغ کی باقیات ہیں۔
دلدل میں انسانی باقیات کا ملنا مکمل طور پر حیرت کی بات نہیں تھی – صدیوں سے شمالی یورپ میں لنڈو ماس کی طرح دلدل میں پھنسے ہوئے انسانی جسم کے اعضاء دریافت ہوتے رہے تھے۔ دلدل میں گہری جگہوں کی کھدائی کرنا اینڈریو مولڈ کا خاندانی کاروبار تھا۔
اس کے بہت سے رشتہ دار دلدلی علاقے میں کام کرتے تھے، اور مولڈ اپنے والد کو کھدائی کرتے ہوئے دیکھنے کے لیے بچپن سے ہی لنڈو ماس جاتا تھا۔ مولڈ نے پہلے بھی ان معاملات کے بارے میں پڑھا تھا، اور اس نے اپنے کام کے دوران خود بھی ‘چھوٹے بڑے ٹکڑے’ تلاش کیے تھے، لیکن یہ کچھ نیا تھا۔
تو مولڈ نے وہی کیا جو اکثر لوگ کرنا چاہیں گے، اور وہ پولیس کے پاس چلا گیا۔ یہ مئی سنہ 1983 تھا اور 20 سال سے زیادہ عرصے سے چیشائر کانسٹیبلری نے ایک مقامی شخص پیٹر رین بارڈ پر اپنی بیوی ملیکا ڈی فرنانڈیز کو قتل کرنے کے شبے کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کی لاش کبھی نہیں ملی تھی۔ ایک جسم یا جسم کا کوئی ایک حصہ قریبی دلدل میں پھنسا ہوا مل جانا اس کیس کو آخرکار داخلِ دفتر کر سکتا تھا۔
جب چیشائر کانسٹیبلری نے رین بارڈ کو بتایا کہ لنڈو ماس میں ایک عورت کی کھوپڑی برآمد ہوئی ہے تو اس نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اس نے تفتیشی افسروں کو بتایا کہ ‘یہ اتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ میں نے سوچا کہ مجھے کبھی پتہ نہیں چل سکے گا۔’
ریان بارڈ کو معلوم نہیں تھا کہ کھوپڑی اس کی ہلاک شدہ بیوی کی نہیں تھی۔ درحقیقت یہ ایک ایسی عورت کی کھوپڑی تھی جو تقریباً 1,600 سال پہلے رہتی ہو گی۔ اور اس طرح جیسے ہی پولیس نے ایک پرانے کیس کو بند کیا، آثار قدیمہ کے ماہرین نے قتل کا ایک اور کیس کھول دیا، جو بہت زیادہ پرانا کیس تھا۔
دلدل کی تیزابی اور کم آکسیجن پانی والی گہرائیوں میں، بیکٹیریا اور دیگر مائکرو اورگینزم نامیاتی ٹشوز کو توڑنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں، یہ کیفیت مؤثر طریقے سے حیاتیاتی باقیات کے زوال کے نظام کو ہزاروں سالوں تک کے لیے معطل کر دیتی ہے۔ ‘لنڈو وومن’ کے معاملے میں جیسا کہ وہ بعد میں اس نام سے مشہور ہوئی، دلدلی ماحول نے اسے اس کے دماغ کے ساتھ ساتھ اس کی ایک آنکھ بھی محفوظ رکھی ہوئی تھی۔
اس کے جیسے اور بھی بہت سے انسانی جسم برآمد ہوئے ہیں۔ پورے شمالی یورپ میں وہی عمل جو دلدلی کائی کو کوئلے کی کان میں تبدیل کر دیتا ہے، اور انسانی باقیات کو بھی دلدلی جسموں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ان لوگوں کو 2000 قبل مسیح کے اوائل کے زمانے سے ہی آئرلینڈ اور جرمنی کے علاوہ دیگر دلدلوں میں دفن کیا گیا تھا (حالانکہ اس سے پہلے کے، یعنی 8500 قبل مسیح کے، ایسے دلدلی ڈھانچے بھی برآمد ہوئے ہیں جن کے ٹیشوز خراب ہو چکے تھے)۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کو شبہ ہے کہ بہت سی دلدلی لاشوں کے بارے میں ان کے غیر معمولی تحفظ کے علاوہ، کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو غیر معمولی نوعیت کی ہیں۔ تاریخ کے اس دور میں انسانی مُردوں کو دفنانا معمول نہیں تھا۔
عہدِ آہن (آئرن ایج) میں یورپ میں رسمی تدفین نایاب تھی، مردوں کو اکثر جلایا جاتا تھا، آسمانی تدفین یا دیگر اختراعی طریقوں کے استعمال کی ایک حد ہوتی تھی۔ دلدلی لاشوں میں سے بہت سے نوجوان بالغ تھے، نوعمر تھے اور بچے تھے، جو زیادہ تر صحیح حالت میں اور صحت مند لگ رہے تھے۔
کچھ میتیں برہنہ تھیں سوائے اس کے کہ ان میں کسی کے ساتھ ایک اچھی طرح سے محفوظ شدہ رسی، ٹوپی یا چادر تھی، اور بعض اوقات ان لاشوں کے کپڑے ان سے الگ قریبی دلدل میں دفن کر دیئے جاتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان میں ایسی لاشیں بھی برآمد ہوئی تھیں جن کو انتہائی پرتشدد طریقے سے ہلاک کیا گیا تھا۔
چونکہ حالیہ برسوں میں دلدل کی لاشوں کی فارنزک جانچ کے طریقے تیزی سے بہتر ہوئے ہیں کہ دلدلی لاشوں کے اسرار، اور وہ زندگی اور موت میں کیا حیثیت رکھتے تھے، یہ عقدے اب کُھلنا شروع ہو گئے ہیں۔
لنڈو وومن (لنڈو دلدل سے برآمد ہونے والی عورت کی لاش) کے بعد، دلدلی علاقوں کی کانوں کے اسی حصے میں ایک اور موقع کی دریافت نے یورپ میں دلدلی لاشوں کے مطالعہ کو نئی شکل دینے میں مدد کی۔
یہ دریافت بھی اب ایک جانی پہچانی شخصیت، اینڈریو مولڈ نے ایک اور مشن کے دوران کی تھی۔
موسم گرما میں جب اس نے لنڈو وومن کو دریافت کیا، مولڈ دلدلی کان کی کھدائی کی مشین کی کنویئر بیلٹ پر کام کر رہے تھے جب ایک سیاہ، ٹھوس گانٹھ کی بیلٹ ان کے پاؤں پر گر گئی۔ مولڈ کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے پہلے سوچا کہ یہ دلدلی لکڑی کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب اس نے اسے اٹھایا تو اسے ہینڈ بیگ کے چمڑے کی طرح محسوس ہوا۔ اس نے اسے اپنے دوست اور ساتھی کارکن کو دکھایا۔ ‘پھر ہم نے اسے تھوڑا سا صاف کیا، اور ہم نے پیر کے ناخن دیکھے۔’
اس کے بعد کے چند دنوں میں ایک پورے سر اور دھڑ کی احتیاط سے کھدائی کی گئی (حالانکہ اس موقع پر چیشائر کانسٹیبلری نے مزید سردی کے حالات سے نمٹنے کے لیے حالات کو بہتر نہیں کیا تھا)۔ برٹش میوزیم میں ایک ایسے آدمی کی لاش رکھی گئی تھی جس کا قد تقریباً ایک اعشاریہ تہتر میٹر تھا جبکہ وزن 64 کلو گرام کے آس پاس تھا، اور یہ لاش پہلی صدی عیسوی کے آس پاس کے وقت کی لگتی تھی۔
کارڈف یونیورسٹی کے سکول آف ہسٹری، آرکیالوجی اینڈ ریلیجن میں ایمریٹس پروفیسر اور ‘دلدلی لاشوں کی دریافت’ نامی کتاب کی مصنفہ مرانڈا ایلڈ ہاؤس گرین کہتی ہیں کہ ‘اس کے بارے میں جو بات شاندار تھی وہ یہ تھی کہ اسے تقریباً تین بار مارا گیا تھا۔ اسے انسانی اناٹومی کو سمجھنے والے لوگوں کی طرف سے ایک بہت ہی خاص لمبی موت دی گئی تھی: اس کے سر پر اتنا زور سے مارا گیا تھا کہ اسے دنگ کر دیا جائے، لیکن اسے مارا نہیں گیا۔ اس کے بعد اسے باندھ دیا گیا، اور پھر اس کے ساتھ ہی اس کا گلا بھی کاٹا گیا تھا۔‘
اتنا وحشیانہ قتل کیوں ہوا؟ ایلڈ ہاؤس گرین کا کہنا ہے کہ لنڈو مین کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال ہونے والا حد سے زیادہ تشدد ایک ‘عام’ قتل سے کہیں زیادہ غیر معمولی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مقدس مقامات
دلدلی لاشوں کے حالات کو سمجھنے کے لیے آپ کو پہلے عہد آہن (آئرن ایج) اور عہدِ روم (رومن دور) کے یورپ میں دلدل کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا۔ مانچسٹر یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کی سینئر لیکچرر اور کتاب ‘دلدلی لاشیں: ماضی کے ساتھ آمنے سامنے’ (Bog Bodies: Face to face with the past.)کی مصنفہ میلانیا جائلز کہتی ہیں کہ ‘ہم دلدل کو خالی جگہوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عہدِ آہن کے لوگ انھیں اس طرح نہیں سمجھتے تھے۔ وہ دلدل سے ایندھن حاصل کرتے تھے، کھدائی کا کام کرتے تھے، لوہا حاصل کرتے تھے۔ وہ اوزار اور ہتھیار بنا رہے تھے جیسے دیگیں اور تلواریں، وہ دلدلی کائی لے رہے تھے اور اس سے غیر معمولی چیزیں بنا رہے تھے۔ وہاں رہنے والے پرندوں کا شکار کرتے تھے۔ دلدلی علاقے عہدِ آہن کے لوگوں کے لیے وسائل اور پیداواریت کے لحاظ سے بہت اہم جگہیں تھیں۔’
اور پھر حقیقت یہ ہے کہ دلدل کہیں زمین اور پانی کے درمیان ایک سرحدی علاقہ ہوتا تھا ۔ ‘میرے خیال میں دلدل خود بھی بہت خاص ہیں، کیونکہ ان میں سڑانڈ بو ہوتی تھی۔ ان سے بخارات نکلتے تھے جو بعض اوقات بے ساختہ جل اٹھتے تھے۔ وہ بدبودار ہو سکتے ہیں۔ یہ زمین کی طرح نظر آتے ہیں، لیکن وہ زمین نہیں ہیں۔‘
ایلڈ ہاؤس گرین کہتے ہیں کہ ‘انھیں ممکنہ طور پر دوسری دنیا کے دروازے اور خداؤں کے دروازے کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔‘
’ڈنمارک کے شہر ہووڈگارڈن میں سلک بورگ میوزیم کی ڈائریکٹر اولی نیلسن کا کہنا ہے کہ آج بھی بلند ہوتے ہوئے دلدل مسحور کن ہو سکتے ہیں۔
’یہ تصور کرنے میں واقعی بہت زیادہ تخیلی ذہن کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ واقعی دیکھ سکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ عوامل عمل پیرا تھے۔‘
جائلز کا کہنا ہے کہ اس جگہ کے گردونواح کے محتاط تجزیے سے جہاں لنڈو مین پایا گیا تھا، وہ غالباً اس وقت زندہ تھا جب وہ آخری بار اس محدود ماحول میں داخل ہوا تھا۔ دلدل کا نقشہ بنانے کے لیے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے محققین کو معلوم ہوا کہ لنڈو مین کو گہرے حصے میں دفن کیا گیا تھا۔ کسی مردہ یا نیم مردہ حالت میں رہ جانے والے کو ایسے مقام پر پہنچانا اس طرح کی مشکل زمین پر انتہائی دشوار ہوتا۔
جائلز کا کہنا ہے کہ ‘کیونکہ اس وقت وہاں سے باہر نکلنا بہت خطرناک ہے، اس لیے جب وہ وہاں سے نکلنا چاہتا ہوگا تو شاید وہ اس وقت زندہ ہو گا۔’
اس کے جان لیوا زخموں کی تفصیلات بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ایلڈ ہاؤسگرین کا کہنا ہے کہ ’اس پر ظلم کرنے والے انسانی اناٹومی کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے، اور وہ جانتے تھے کہ اس شخص کو زندگی اور موت کے درمیان کچھ عرصے تک کیسے رہنا ہے۔ جب اس کے چہرے کو دلدل میں ڈالا گیا تو وہ ابھی تک سانس لے رہا تھا، کیونکہ پھیپھڑوں میں پانی ہے۔’
آخری کھانا
لنڈو مین کے بارے میں مزید معلومات کا سراغ اس کے پیٹ سے ملے۔ اس کے آخری کھانے کے بہت ہی عمیق تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جَو پر مبنی کھانا، ممکنہ طور پر جو تھوڑا سا جل گیا ہو گا۔ برٹش میوزیم میں یورپی عہدِ آہن (آئرن ایج) اور رومن فتح کے دور کی کیوریٹر، صوفیہ ایڈمز کہتی ہیں کہ ’مرنے سے پہلے اس نے آخری چیز جو کھائی وہ واقعی سادہ کھانا تھا۔ وہ کھا رہا ہے جسے وہ توے پر بنا ہوا کیک کہتے ہیں۔‘
آنجہانی کیلٹک اسکالر این راس، جنھوں نے لنڈو مین پر ابتدائی تحقیقی کام کیا تھا، نے دلیل دی کہ جَو سے بنا اور جزوی طور پر پکایا جانے والا یہ توے کا کیک اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اس مرنے والے کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔
اس دور میں برطانیہ کے پادری طبقوں میں، توے پر پکائے جانے والے کیک کو ایک تقریب میں استعمال کیا جاتا تھا جیسا کہ چھوٹا بھوسا استعمال کیا جاتا تھا۔ لوگ ایک تھیلے سے کیک کے ٹکڑے نکالتے تھے اور جس کا ٹکڑا پکا کر جلا دیا جاتا تھا اسے قربانی کے بکرے کے طور پر چن لیا جاتا تھا۔
دیگر دلدلی ڈھانچے بھی غیر معمولی آخری کھانے کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ڈنمارک کے دلدل سے دریافت ہونے والی ایک لاش جسے ‘گرابیل مین’ (Graubale Man) کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایک عہدِ آہن (آئرن ایج) کے کسان کی ہے جو وسطی ڈنمارک میں 390 قبل مسیح میں رہتا تھا۔
اس کے آخری کھانے میں 60 سے زیادہ مختلف قسم کے پودوں کو شامل کیا گیا تھا، جو اناج کے بے ذائقہ دلیہ، کڑوے چکھنے والی جھاڑیوں اور گھاس کی 13 سے زیادہ اقسام میں ملا ہوا تھا۔
ایلڈ ہاؤس گرین کا کہنا ہے کہ ‘آپ کے پاس اس کھانے کے لیے کافی وسیع علاقے سے بہت سارے بیج اور پودے اکٹھے ہوئے ہیں، جو اس علاقے پر مہارت کا اشارہ دیتے ہیں، اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی میں اس کی نمائندگی کی جا رہی تھی۔ لیکن آپ اس آخری کھانے کی ہر طرح کی تشریح کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ذلت آمیز کھانا بھی ہو سکتا تھا۔‘
لنڈو مین کے توے پر تیار کردہ کیک کے کھانے میں ایک اور پودے کی کہانی کا سراغ بھی موجود تھا: امربیل۔ این راس کا استدلال ہے کہ اس سے قدیم دور کے پیشین گوئی کرنے والے کے ساتھ تعلق کا پتہ چلتا ہے، جو امربیل جمع کرنے کی رسومات ادا کرنے کے لیے جانا جاتا تھا۔
ایلڈ ہاؤس گرین کہتے ہیں کہ یہ قدیم زمانے میں اعصابی عوارض کے لیے ایک دواؤں کے پودے کے طور پر پہچانا جاتا تھا، اور یہ ‘لنڈو مین کو پرسکون کرنے اور اس کی خوفناک موت کو برداشت اور قابلِ قبول بنانے کے لیے کھلائی گئی ہو گی۔‘
‘گرابیل مین’ نے بھی اپنے آخری کھانے میں ایک نفسیاتی عنصر بھی شامل کیا تھا، حالانکہ اس کے معاملے میں اس عنصر کا اسے سکون دینے کے سوا کچھ مطلب نہیں تھا۔
اس کے آنتوں میں الکلائیڈ ٹاکسن کے نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے آخری کھانے میں ایک فنگس کے عناصر موجود تھے جو رائی اور جو جیسے اناج کے ذخیروں میں پیدا ہوتی ہے۔ بڑی مقدار میں اس مخضوص فنگس سے جو زہر پیدا ہوتا ہے اس سے ذہنی طور پر وہم اور خوفناک اثرات پیدا ہوتے ہیں جسے ‘سینٹ انتھونی فائر’ کے نام سے جانا جاتا ہے (ایک مرض جس سے جسم کا متاثر حصّہ سُرخ ہو جاتا ہے)، جس میں خون کی خرابی، جلن کا احساس، اور گینگرین سے انتہائی نقصان ہوتا ہے۔ ‘گرابیل مین’ کے معدے میں جس مقدار میں اس بیماری کے اثرات ملے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا ہلکا اثر ہوا ہوگا۔
منفرد خصوصیت
ایلڈ ہاؤسگرین کا کہنا ہے کہ دریافت ہونے والی دلدلی لاشوں میں، جسمانی طور پر مختلف لوگوں کی زیادہ نمائندگی ایک حد سے زیادہ ہے تاکہ دوسروں سے منفرد اور نمایاں لگ سکیں۔
مثال کے طور پر’یدی لڑکی‘، جو کبھی 2,000 سال پہلے رہتی تھی اور نیدرلینڈز (ولندیز) کے سٹیوین دلدل میں مر گئی تھی، اس کی لاش سے ریڑھ کی ہڈی میں گھماؤ ظاہر ہوتا تھا، جس کی وجہ سے دائمی درد اور ممکنہ طور پر اس کے چلنے پھرنے کا انداز بھی متاثر ہوا ہو گا۔ اسی دور کی ایک اور ولندیزی دلدلی لاش، زوئیلو وومن، بونے پن کی ایک شکل تھی۔
برطانیہ میں تیسرے قدیم جسم لنڈو ماس (جسے لنڈو سوئم کے نام سے جانا جاتا ہے) میں پایا گیا کہ اس کے دائیں ہاتھ پر دوسرا انگوٹھا تھا۔
ایلڈ ہاؤس گرین کا کہنا ہے کہ ‘اس بات کا امکان موجود ہے کہ معذوری کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن خاص اور طاقتور ہونے کے طور پر کسی کو نشان زد کیا گیا تھا، اور ممکنہ طور پر اسے خدا کی طرف سے چھونے یا برکت پانے سے جوڑا گیا ہو۔’ لیکن، وہ زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ قدیم زمانے میں جسمانی اختلافات کو کس طرح سمجھا جاتا تھا، اور دلدلی لاشوں کے بارے میں اس طرح کے نظریات محض قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔
ایلڈ ہاؤس گرین کا کہنا ہے کہ ’اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ اس نے اسے جیسے ہی کھایا ہو اس کا رویہ بہت ہی عجیب و غریب ہو گیا ہو۔ اس نے اسے پریشان کن حرکتیں کرنے پر مجبور کر دیا ہوگا۔ اس سے وہ بہت گرم ہو جاتا، یہ اسے چیخنے پر مجبور کر دیتا۔ وہ ایک انتہائی نفسیاتی رجحان کا شکار ہو جاتا، اور ممکن ہے کہ یہ قربانی کے لیے ابتدائی مراحل کا حصہ ہو۔‘
موت کی رسم
شاید تمام قدیم دنیا کا سب سے بہترین محفوظ چہرہ ‘ٹولونڈ مین’ کا ہے، جو مئی 1950 میں ڈنمارک میں دریافت ہوا تھا۔ بہت سے دلدلی لاشوں کی طرح، دلدلی تیزاب نے اس کی جلد کو سیاہ نیلے رنگ کا کردیا اور اس کے کھونٹے اور بالوں کو چمکدار نارنجی بنا دیا ہے، حالانکہ وہ بھیڑ کی کھال کی ٹوپی پہنتا ہے جو اس کے بیشتر حصے کو ڈھانپتی ہے۔ ہر باریک لکیر سے لے کر اس کی جلد کا تقریباً ہر مسام تک نظر آ رہا ہے، اور اس کی جُھرّیوں والی پلکیں بند ہیں، جن کے دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پرسکون نیند سو رہا ہے۔
سلبرگ نیلسن کہتے ہیں کہ ‘آپ واقعی ایسا محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُس سے ملاقات کر رہے ہیں۔ چہرہ جسم کا وہ حصہ ہے جس میں انسانی جسم کا سب سے زیادہ اظہار ہوتا ہے۔ اور اس لیے عہدِ آہن کے انسان جس کی عمر 2000 سے زیادہ ہے، سے ملاقات کرنا واقعی دلچسپ بات ہے، ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے۔‘
اس کی بھیڑ کی کھال کی ٹوپی کے علاوہ ‘ٹولونڈ مین’ کو اس کے بیچ میں صرف ایک بُنی ہوئی پٹی ہے اور لگتا ہے کہ اس نے اپنی گردن میں پھندا پہنا ہوا ہے۔
نیلسن کا کہنا ہے کہ ‘اگر اس کے پاس کوئی اونی لباس ہوتا تو وہ محفوظ رہتا، کوئی شک نہیں۔ دلدلی تیزاب کولیجن; انسانی جسم میں پایا جانے والا ایک پروٹین جو ہڈیوں ، پٹھوں اور جلد میں پایا جاتا ہے) اور کیراٹین (حَل نہ ہونے والا مَواد جِس ميں سَلفَر پايا جاتا ہے) کو محفوظ رکھتے ہیں، جو اون جیسے مواد میں موجود ہوتے ہیں۔ ‘اس کے بال اب بھی برقرار ہیں، اور اس کے ناخن بھی ویسے ہی ہیں۔’
نہ ہی ‘ٹولونڈ مین’ کی جلد کی سطح پر کپڑے کا کوئی نشان ہے۔ ‘ہم نے واقعی اس کے جسم کا بہت احتیاط سے خوردبین سے معائنہ کیا ہے۔ اس کے جسم پر اب بھی دلدلی کائی کے بہت سے، پتے نظر آنے والے ہیں، لیکن کچھ بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی اور چیز تھی۔ اس لیے شاید اسے نیچے رکھا گیا تھا جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں۔ اسے ننگا اور ٹوپی کے ساتھ دیکھنا واقعی بہت عجیب بات ہے۔’
مجموعی طور پر، ٹولونڈ انسان کی حالت ایک رسمی موت کا اشارہ دیتی ہے۔
نیلسن کا کہنا ہے کہ ‘قربانی کے لیے اس کی داڑھی منڈوایا گئی تھی، اور اسے پھانسی کے ساتھ دلدل میں ڈال دیا گیا تھا۔‘
ان کا خیال ہے کہ پھانسی کے پھندے کے ساتھ لاش کو دلدل برد کرنا واضح ہے، کیونکہ رسی کے بنے ہوئے ٹکڑے جیسی سادہ چیز کی بھی قیمت ہوتی ہے اور اسے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نیلسن کا کہنا ہے کہ ‘یہ شاید ایک نشانی کے طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس رسی کو بھی دلدل میں ڈالنا تھا کیونکہ اس کا یہی مقصد تھا۔ چاہے وہ رضاکارانہ طور پر ایسا کیا گیا تھا، یا شاید اس نے چھوٹا بھوسا کھینچا، ہم نہیں جانتے۔ لیکن وہ (ٹولونڈ مین) اتنا غیر مطمئن نظر نہیں آتا۔‘
خدائی تحائف
ایسی بھیانک موت کے لیے رضامندی سے جانے کا خیال اکیسویں صدی کے ذہن کے لیے سوچنا ایک مشکل چیز ہے، لیکن یہ عہدِ آہن (آئرن ایج) میں رہنے والوں کے لیے شاید اتنا اجنبی نہیں تھا۔
نمائشی اخلاقیات
یورپ میں دلدلی لاشوں کو اکثر ان کی کھدائی اور محتاط تحفظ کے بعد عجائب گھروں میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ تاہم لاشوں کی عوامی نمائش سے تنازعات پیدا ہو گئے ہیں۔
اوٹاوا، کینیڈا میں ایک ٹورنگ نمائش کو انسانی باقیات کی نمائش پر عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
مانچسٹر یونیورسٹی کی میلانیا جائلز کا کہنا ہے کہ باقیات کی بامقصد اور سوچی سمجھی نمائش دلدلی لاشوں اور ان کے ساتھ تعامل کرنے والوں کے درمیان گہرے جذبات اور سماجی بندھن پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
ایلڈ ہاؤس گرین کہتے ہیں کہ ‘ہمیں ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے جس میں دیوتا ہر جگہ موجود تھے۔ لہذا آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ دیوتاؤں کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس طرح دیوتاؤں کو خوش رکھنا نہ صرف افراد بلکہ پوری برادریوں کے لیے زندگی اور موت ہو سکتا ہے۔
‘اگر آپ نے دیوتاؤں کو ناراض کیا تو وہ آپ کو خراب فصل دیں گے، یا آپ کو وبا میں مبتلا کردیں گے، یا فصلیں خراب ہو جائیں گی، وغیرہ وغیرہ۔ اور اس لیے آپ کو انھیں اپنے پاس رکھنا پڑتا تھا۔‘
جائلز اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘آپ ان ہستیوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو آپ کی زندگی، دیوتاؤں یا روحوں کو متاثر کر رہی ہیں، وہاں کوئی مافوق الفطرت چیز ہے جس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
جائلز نے مزید کہا کہ دلدل کے ذریعے دیوتاؤں کو لوگوں کے نذرانے یا چڑھاؤ دینے اور حاصل کرنے کے دائرے کا عنصر ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’چونکہ لوگ دلدل سے بہت کچھ لے رہے تھے، ایسا لگتا ہے کہ وہ چیزیں واپس دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کبھی وہ دیگچی ہوتی ہے، کبھی وہ انسانی باقیات ہوتی ہیں۔‘
بعض اوقات وہ کھانے کی نذر و نیاز بھی ہوتی تھیں جیسے دلدلی مکھن۔ ‘اگر آپ کسی شخص کی قربانی کرتے ہیں، یعنی اس کی زندگی، تو یہ آپ کا بہترین قسم کا نذرانہ ہوسکتی ہے۔‘
لیکن، جائلز نے خبردار کیا، جب کہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ’لنڈو مین،’ ‘لاولونڈ مین’ اور ‘گرابیل مین’ اور دیگر انسانی قربانیاں تھے تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ تمام دلدلی لاشیں قربانیاں ہی تھیں۔ کچھ لاشیں جیسے ‘لنڈو وومن’ ہے، ان میں سے صرف اتنا نہیں بچا ہے کہ وہ اس بات کی قائل کرنے والی تصویر بنا سکیں کہ اس کی موت کیسے واقع ہوئی۔
وہ بتاتی ہیں کہ ‘کچھ لاشیں ایسی ہیں جن پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے اور یہ لوگ شاید ڈوب گئے ہوں گے۔ یہ خطرناک مناظر ہیں۔ لوگ دلدل میں مر جاتے ہیں، وہ دلدل کے حالات کی وجہ سے بھی مر جاتے ہیں، وہ اسے عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مر جاتے ہیں، وہ کہیں دھنس جاتے ہیں یا کہیں غلط قدم رکنے کی وجہ سے پھسل جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حادثاتی اموات بھی ہوں گی۔’
دوسرا، وہ کہتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ سیدھے سادے قتل کے واقعات میں ہلاک ہوئے ہوں۔ شاید ایک ویران دلدل کبھی کبھی مذموم کاموں کے لیے آسان جگہ ہوتی تھی۔ مرنے والوں میں خودکشی کے شکار بھی ہو سکتے ہیں، جنھیں شاید ایسے وقت میں رکھا گیا تھا جب ایسی موت کے ساتھ ہمدردی کی بجائے خوف کے ساتھ برتاؤ کیا جاتا تھا۔
جائلز کا کہنا ہے کہ ‘ہو سکتا ہے کہ دلدلوں کو ایک خطرناک لاش کو رکھنے کے لیے صحیح جگہ کے طور پر سوچا گیا ہو، کوئی ایسا شخص جو پراسرار طور پر یا غیر فطری طور پر مر گیا ہو۔ اس میں سے کچھ کا تعلق مذہب کے ساتھ تھا یعنی وہ ان لوگوں کو اپنے قبرستانوں میں دفنانا نہیں چاہتے۔ کیونکہ ان کے نزدیک دلدل انسانی پہنچ سے باہر ایک طاقتور جگہ ہے جہاں ان مرنے والوں کو رکھا جاسکتا ہے۔’