بلیک ستمبر: کیا 1970 میں فلسطینیوں کے ’قتل عام‘ میں ضیاالحق بھی ملوث تھے؟
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری حالیہ تنازع پر دنیا بھر کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان میں بھی فلسطینیوں کے حق میں متعدد مظاہرے کیے گئے جن میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔
اسی طرح تاریخی طور پر بھی پاکستان کی جانب سے فلسطین کی حمایت کرنے اور اسرائیلی مخالفت کی حکومتی پالیسی کو اٹل سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں جب بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں کسی قسم کا عندیہ دیا گیا تو اس پر تند و تیز بحث اور تنقید کی بوچھاڑ دیکھنے میں آئی اور اسے فلسطینیوں کے ساتھ بے وفائی کے طور پر گردانا گیا۔
تقریباً سات دہائیوں سے جاری اس تنازع میں عمومی طور پر فلسطینی عربوں کو اسرائیلی افواج کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن تقریباً 51 برس قبل فلسطینی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں نے ایک جنگ مسلمان ملک اردن کے خلاف بھی لڑی تھی جس میں ان کو نہ صرف بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا بلکہ شاید ہمارے اکثر قارئین کو اس بات کا علم نہ ہو کہ اس جنگ میں ایک پاکستانی فوجی افسر کا کردار کس قدر اہم تھا۔
یہ بات ہو رہی ہے کہ 1970 میں 16 ستمبر سے لے کر 27 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ کی جس کو تاریخ میں ’بلیک ستمبر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کئی مبصرین نے بعد ازاں لکھا ہے کہ اردن کے شاہ حسین کو اس جنگ میں فیصلہ کن مشورہ دینے والے مستقبل میں پاکستان کے فوجی آمر محمد ضیا الحق تھے جن کی مدد سے اردنی فوج کو جنگ جیتنے میں مدد ملی۔
ضیا الحق اس وقت اردن میں کیا کر رہے تھے اور اس جنگ میں ان کا کیا کردار تھا؟
اسرائیل کے خلاف 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ میں شکست کے بعد اردن میں حالات کافی نازک تھے۔ مصر اور شام کے ساتھ اردن نے اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھایا تھا اور وہ بیت المقدس (یروشلم)، غزہ اور غرب اردن کے علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔
ایسے میں فلسطینی ’فدائین‘ نے غرب اردن کے ساتھ واقع علاقوں میں اپنے موجودگی قائم کر لی اور وقتاً فوقتاً اسرائیلی قبضے میں لیے گئے سرحدی علاقوں پر کامیاب حملے کیے جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جس کے باعث انھیں شامی اور عراقی حمایت بھی ملنے لگی۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اردن کے سربراہ شاہ حسین نے اپنے پاکستانی دوست بریگیڈئیر ضیاالحق سے مدد مانگی جو اُس وقت عمان میں پاکستانی سفارتخانے میں ڈیفنس اتاشی کا فرض نبھا رہے تھے۔
مصنف اور محقق طارق علی اپنی کتاب دا ڈوئیل میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق امریکہ سے اپنی ٹریننگ مکمل کر کے ملک واپس آئے تو انھیں اردن بھیج دیا گیا جس نے حال میں ہی چھ روزہ جنگ میں خفت اٹھائی تھی۔
اسی بات کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے کے سابق عہدیدار بروس ریڈیل اپنی کتاب ’واٹ وی ون‘ میں لکھتے ہیں کہ ضیا الحق اردن تین سال قبل آئے تھے اور ان کی ذمہ داری تھی کہ پاکستانی اور اردنی فوج کے درمیان عسکری امور پر باہمی تعلقات بڑھائیں اور اردن میں ہونے والے واقعات کی رپورٹ وطن واپس بھیجیں۔
لیکن بریگیڈیئر ضیا الحق نے اپنے دیے گئے مینڈیٹ سے بڑھ کر بھی ذمہ داریاں نبھائیں جن کا تذکرہ اردن میں اُس وقت موجود سی آئی اے کے افسر جیک او کونل نے اپنی کتاب ’کنگز کونسل‘ میں کیا۔
جیک او کونل، جنھوں نے خود لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دو سال گزارے تھے، لکھتے ہیں کہ سنہ 1970 میں جب شامی افواج اردن پر چڑھائی کی غرض سے ٹینک لے کر آ گئیں اور اردن کو امریکہ کی جانب سے امداد کے بارے میں کوئی جواب نہ ملا تو شاہ حسین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔
اس گھمبیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاہ حسین نے اپنے ’دوست‘ ضیا الحق سے درخواست کی کہ وہ شامی محاذ کا دورہ کریں اور انھیں زمینی صورتحال سے آگاہ کریں۔
جیک او کونل لکھتے ہیں کہ جب ضیاالحق سے اردنی حکام نے حالات کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ ’حالات بہت خراب ہیں۔‘
بروس ریڈیل اپنی کتاب کے باب چار میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر ضیا الحق نے شاہ حسین کو مشورہ دیا کہ اردنی فضائیہ کو شامی فوج کے خلاف استعمال کیا جائے اور ’یہی وہ فیصلہ ثابت ہوا جس کے باعث اردن جنگ جیتنے میں کامیاب ہوا۔‘
بلیک ستمبر میں ضیاالحق کے کردار کے بارے میں سب سے اہم گواہی شاہ حسین کے بھائی اور اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال نے بروس ریڈیل سے بات کرتے ہوئے دی۔
بروس ریڈیل لکھتے ہیں کہ شہزادہ حسن بن طلال نے اپریل 2010 میں انھیں بتایا کہ ’ضیاالحق شاہ حسین کے دوست اور ہم راز تھے‘ اور شاہی خاندان اس جنگ میں ان کی مدد کا بہت شکر گزار تھا جس میں ان کی موجودگی اتنی ضروری تھی کہ وہ تقریباً فوج کی قیادت کر رہے تھے۔
بروس ریڈیل کے مطابق ضیاالحق کا یہ فعل پاکستان میں حکام کو ناگوار گزرا کیونکہ یہ واضح تھا کہ ضیاالحق نے ’اردنی فوج کے ساتھ لڑ کر اپنی سفارتی ذمہ داریوں اور احکامات سے تجاوز کیا۔‘
لیکن ان خدمات کا صلہ ضیاالحق کو شاہ حسین کی جانب سے کی گئی سفارش کی صورت میں ملا جنھوں نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق کے بلیک ستمبر کی جنگ کے کارناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے ضیاالحق کو بریگیڈئیر سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کے سابق مشیر راجہ انوار اپنی کتاب ’دا ٹیررسٹ پرنس‘ میں وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر شاہ حسین اس موقع پر ضیاالحق کی سفارش نہ کرتے تو حد درجہ ممکن تھا کہ ضیاالحق کا فوجی کرئیر بطور بریگیڈئیر ہی ختم ہو جاتا۔
’کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق نے بلیک ستمبر کے قتل عام میں حصہ لیا تھا اور اپنی فوجی اور سفارتی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتی اور قواعد کی خلاف ورزی کی۔‘
’لیکن شاہ حسین کی سفارش نے شاید وزیراعظم بھٹو کو یہ عندیہ دیا کہ ضیاالحق ان کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔‘
کیا ’بلیک ستمبر‘ کے دوران فلسطینیوں کے ’قتل عام‘ میں بھی ضیاالحق ملوث تھے؟
سرکاری طور پر یہ جنگ 16 ستمبر سے 27 ستمبر تک جاری رہی جس کے بعد چھوٹے پیمانے پر جھڑپیں اگلے برس جولائی تک چلتی رہیں۔
مختلف حوالوں اور بروس ریڈیل سمیت متعدد تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ اس جنگ میں تین سے چار ہزار فلسطینی فدائین کی ہلاکت ہوئی جبکہ 600 کے قریب شامی فوجی مارے گئے اور اردن کو 537 فوجیوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف کے بیانیے کو دیکھیں تو فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں فدائین کو نقصان اٹھانا پڑا جو کہ 20 سے 25 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
طارق علی اپنی کتاب دا ڈوئیل میں نامور اسرائیلی جنرل موشے دایان سے منسوب بیان دہراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’شاہ حسین نے 11 دن میں جتنے فلسطینی ہلاک کیے اتنے تو اسرائیل 20 برسوں میں بھی نہیں ہلاک کر سکتا۔‘
اسی طرح بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے انڈین صحافی اور تاریخ دان وجے پرشاد سنہ 2002 میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ ’شاہ حسین نے ضیا الحق کی مدد سے اپنی بدؤوں پر مشتمل فوج فلسطینیوں کا قلع قمع کرنے بھیجی اور اس کے بعد ایک ایسا قتل عام ہوا جس کا کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا۔‘
لیکن اس کے بالکل برعکس بیانیہ آج سے 11 برس قبل ایک سابق پاکستانی سفارتکار نے پیش کیا جو ستمبر 1970 میں خود اردن میں تعینات تھے۔
اگست 2010 میں انگریزی اخبار دا نیوز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں سابق سفیر طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ چھ روزہ جنگ میں شکست کے بعد مختلف عرب ممالک نے پاکستان سے عسکری مدد اور تربیت کی درخواست کی تھی جس کے بعد پاکستان نے اردن، شام اور عراق میں اپنے افسران کو بھیجا تھا۔
طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ اردن بھیجے جانے والوں میں تینوں افواج کے 20 اعلیٰ افسران شامل تھے جس کی سربراہی بری فوج کے میجر جنرل نوازش علی کر رہے تھے اور ضیاالحق ان کے نائب تھے۔
طیب صدیقی لکھتے ہیں کہ بعد ازاں پاکستانی فضائیہ کا بھی ایک رجمنٹ شاہ حسین کی درخواست پر اردن پہنچ گیا لیکن اس پوری ٹیم کا مینڈیٹ صرف اور صرف اردنی افواج کو تربیت دینا تھا اور کسی قسم کی جنگ میں حصہ لینا نہیں تھا۔
طیب صدیقی اپنے مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ پاکستانی سفیر اور فوجی دستے کے سربراہ کی غیر موجودگی میں وہ سفارتخانے کی قیادت کر رہے تھے جب دو ستمبر کو انھیں ضیاالحق کا فون موصول ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ شاہ حسین نے شامی سرحد کے نزدیک موجود اربد شہر میں انھیں فوجی ڈویژن کی قیادت کرنے کو کہا ہے کیونکہ اردنی کمانڈر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔
طیب صدیقی آگے لکھتے ہیں کہ ’میں نے فوراً سیکریٹری دفاع غیاث الدین کو فون کر کے معاملہ بتایا تو ناقابل یقین طور پر انھوں نے بلا توقف اجازت دے دی۔ میں نے اپنا اعتراض بیان کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ’ہم نے استخارہ کر لیا ہے۔ ہاشمی سلطنت کا ستارہ عروج پر جا رہا ہے۔ بادشاہ کی ہدایات پر عمل کرو۔‘
طیب صدیقی کے بقول ضیاالحق نے فوجی دستے کی کمانڈ سنبھال لی لیکن کوئی فوجی آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی امریکی اور اسرائیلی دباؤ میں آ کر شام نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’مبینہ فلسطینی قتل عام میں یہ تھا ضیاالحق کا کُل کردار۔‘
طیب صدیقی نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا کہ عمومی طور پر یہ وثوق سے کہا جاتا ہے کہ ضیاالحق ہزاروں فلسطینیوں کے قتل میں ملوث تھے اور یہ کہ اس کے بعد یاسر عرفات نے عہد کیا تھا کہ وہ کبھی پاکستان نہیں جائیں گے۔
’لیکن اس بات کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ یاسر عرفات بعد میں متعدد بار پاکستان کے دورے پر گئے۔‘