سیلاب میں پھنسی حاملہ خواتین کو کن کن سہولیات اور چیزوں کی ضرورت ہو سکتی ہے؟
’ہمارے گھوٹ میں جو دائی تھی وہ تو کہیں چلی گئی ہے۔ اب کسی اور کو ڈھونڈنا ہو گا۔ میری حاملہ بہو کو کھانا بھی چاہیے اور ٹینٹ بھی۔ اب ہم ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوشش کریں گے۔ سرکاری ہسپتال تو یہاں سے دور ہے، ہمیں بدین جانا پڑے گا۔‘
20 برس کی بھوری دوسری بار ماں بننے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ پہلی زچگی میں انھوں نے مردہ بیٹے کو جنم دیا تھا۔ ان کی ساس نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھوری آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں اور ان کا خاندان بھی سیلابی ریلے سے بچنے کے لیے سڑک کنارے آ بسا ہے۔
بھوری کے زرد لباس کی طرح ان کی آنکھیں اور چہرہ بھی زرد تھا۔ بھوری کو نہیں معلوم کہ آیا انھیں طبی امداد مل سکے گی یا نہیں؟
پاکستان میں مسلسل بارشوں اور اب سیلابی صورتحال نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا ہے لیکن سندھ اور بلوچستان کا حال سب سے برا ہے۔
اس ہولناک تباہی سے جہاں انسانی جانوں کا نقصان ہوا، وہیں کھڑی فصلیں، جانور اور کئی عمارتیں بھی پانی کی نذر ہو گئیں۔
سیلاب سے جہاں پورے پورے خاندان متاثر ہوئے ہیں، وہیں حاملہ خواتین اور نومولود بچے اس قدرتی آفت میں زیادہ خطرے کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ نظام زندگی درہم برہم ہے۔
اقوام متحدہ کے بہبود آبادی کے فنڈ (یو این ایف پی اے) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کی ڈیلیوری آئندہ ماہ ہو سکتی ہے اور انھیں فوری طبی امداد کی ضرورت پڑے گی۔
سندھ کے شہر بدین کی ہی لکشمی تین بچوں کی ماں ہیں اور تین ماہ کی بیٹی پونم ان کی گود میں ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے گاؤں میں کمر تک پانی آ گیا تھا۔ ’ہم سب کچھ وہیں چھوڑ کر یہاں سڑک کنارے آ بیٹھے ہیں۔ پیچھے کب بند ٹوٹ جائے نہیں معلوم۔ ٹینٹ بھی نہیں ملے۔ برستی بارش میں یہ جھگی بنائی ہے۔ بارش اور پانی اتنا آ گیا تھا کہ سب لوگ بس بچے لے کر بھاگے، پیچھے ہمارے گھر گر گئے ہیں۔‘
جیون خان بدین کا آخری گاؤں ہے اور اس کے بعد تھرپارکر شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں سڑک کنارے کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ جنید الرحمان منصوری یہاں کے مقامی ہیں اور وہی خواتین اور ہمارے درمیان ترجمان بنے۔
خواتین نے بتایا کہ ان کیمپوں میں عمر رسیدہ خواتین سے لے کر حاملہ اور نئی مائیں بھی ہیں۔ ان کا گاؤں 10 کلومیٹر دور ہے اور یہ لوگ پیدل چل کر یہاں پہنچے۔
ہم نے چند ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سیلاب میں پھنسی حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو کن چیزوں اور سہولیات کی ضرورت ہو سکتی ہے اور اس ہنگامی صورتحال میں ان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔
’اس ہنگامی صورتحال میں تربیت یافتہ دائیاں سب سے بڑی امید ہیں‘
ڈاکٹر عزالہ خان جیک آباد کے سول ہسپتال سے منسلک ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر حاملہ خواتین کو کھانے پینے، صاف پانی اور کپڑوں کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر غزالہ نے حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو مشورہ دیا کہ جب انھیں پتا چلے کہ کہیں قریب میں میڈیکل کیمپ لگ رہا ہے یا کوئی موبائل میڈیکل ایمبولینس آئی ہے تو اس سے ضرور استفادہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس ہنگامی صورتحال کے باوجود جہاں تک ممکن ہو حاملہ خواتین وزن نہ اٹھائیں۔ زیادہ تکلیف کی صورت میں طبی مرکز یا ہسپتال پہنچنے کی کوشش کریں۔‘
ڈاکٹر عزالہ نے بتایا کہ ’اس ہنگامی صورتحال میں مڈ وائف اور تربیت یافتہ دائیاں سب سے بڑی امید ہیں کیونکہ وہ بھی نقل مکانی کر کے ان کیمپوں میں پہنچی ہوں گی اور حاملہ خواتین کے درمیان موجود ہیں۔
انھوں نے زور دیا کہ انتظامیہ اور این جی اوز اپنے اپنے علاقوں میں سب سے پہلے حاملہ خواتین کی تعداد معلوم کریں تاکہ ان کو الگ سے دیکھا جاسکے کیونکہ ان خواتین کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
’یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کن خواتین کی ڈیلیوری نزدیک ہے تاکہ انھیں بروقت مدد فراہم کی جا سکے۔ اگر کیمپ تک کوئی لیڈی ڈاکٹر یا میڈیکل سٹاف نہیں پہنچ سکا تو اطرف کے کیمپوں میں دائی کو تلاش کریں یا جنھیں تھوڑا بہت کام آتا ہے ان کے بارے میں معلوم کر کے رکھیں۔ یہ دونوں لوگ دستیاب نہ ہوں تو بڑی بوڑھیوں کی نگرانی میں دیگر خواتین تیاری کر کے رکھیں۔‘
’آس پاس کسی بھی طبی مرکز کی معلومات بھی رکھیں۔ ساتھ ہی قریب کی حاملہ خواتین ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں تاکہ ایک کو مدد ملے تو دوسری بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے۔‘
ڈاکٹر عزالہ نے یہ بھی کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ یہ خواتین خود کیمپوں میں ہیں۔ وہ کہیں آ جا نہیں سکتیں، راستے بند ہیں اور کہیں پانی کھڑا ہے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ موبائل ایمبولینس سروس کا آغاز کرے تاکہ زچہ و بچہ کو بچایا جا سکے۔‘
ڈاکٹر عزالہ نے بتایا کہ ’اگر ڈیلیوری کے دوران ٹانکے نہ لگے ہوں یا وہ درست طریقے سے نہ لگے ہوں تو پوسٹ پارٹم ہیمرج ہو سکتا ہے یعنی خاتون بہت زیادہ خون بہہ جانے کی صورت میں خطرے میں آ سکتی ہیں اور اس صورتحال میں باقاعدہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسے فوری ایمرجنسی میں پہنچائیں تاکہ زندگی محفوظ کی جا سکے۔‘
’اگر خون بہت زیادہ بہہ جائے تو شروع کے دو گھنٹے بہت اہم ہیں۔ راستے اور سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور کہیں رابطہ سڑک ہی سیلاب میں بہہ گئی۔ اس صورتحال میں اگر زچہ دیر سے ہسپتال پہنچے تو اس کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر عزالہ نے یہ بھی بتایا کہ نئی مائیں اس سیلابی صورتحال میں انفیکشن کا شکار ہو سکتی ہیں کیونکہ کیمپوں میں صفائی ستھرائی نہیں ہو سکتی۔
’صاف ستھری ڈیلیوری کے لیے کٹ مہیا کرنی چاہیے‘
ڈاکٹر اسما بلوچستان کے شہر پشین کے علاقے خانوزئی میں سرکاری ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں ایمرجنسی کیسز کو پہلے لیا جا رہا ہے۔
’قدرتی آفات میں ماں اور بچے کو کسی بھی وقت ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم ذہنی طور پر تیار ہیں۔‘
ڈاکٹر اسما نے بتایا کہ بنیادی طور پر خانوزئی میں پشتون آبادی کی اکثریت ہے۔ ساتھ ہی افغان پناہ گزین بھی یہاں ہیں، جس کی وجہ سے ہسپتال اور تحصیل پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
ڈاکٹر اسما بتاتی ہیں کہ پچھلے پندہ دن میں ان کے پاس ڈیلیوری کے 69 کیس سامنے آئے ہیں۔
’اسقاط حمل کے 38 کیسز میں سے 20 ادویات کے ذریعے جبکہ 18 کیسز میں خواتین کا آپریشن کیا گیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ ڈیلیوری کے دوران خون زیادہ بہہ جانے کی شکایت لے کر اب تک 14 خواتین ہم تک پہنچ چکی ہیں یعنی حاملہ خواتین اور نومولود خطرے میں ہیں۔‘
ڈاکٹر اسما نے بتایا کہ ’بے گھر افراد میں نمونیا، نزلہ و زکام، کھانسی اور جلدی امراض پھیل گئے ہیں۔ بہت سے بچوں کو بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے یہاں اموات بھی ہوئی ہیں۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ ان تمام مسائل کا حل بروقت طبی امداد ہے اور جتنا جلدی ہو سکے سیلاب متاثرین اپنی اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ جائیں۔
’امداد دینے والوں کو کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ چند بنیادی ادویات اور حاملہ خاتون کی صاف ستھری ڈیلیوری کے اہتمام کے حوالے سے بھی کٹ مہیا کرنا چاہیے۔ اس سے کافی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
’سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ماہر نفسیات کی بھی ضرورت‘
ثنا لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں اور بلوچستان کے شہر چمن کے ہیلتھ یونٹ سے منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ماہر نفسیات کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
’خاندان کا خاندان متاثر ہے۔ کسی کے بچے مر گئے اور کسی کے بچے کھو گئے ہیں۔ ایسی حاملہ مائیں ذہنی صدمے میں ہیں جن کے حمل صائع ہونے کے امکان زیادہ ہے۔‘
’ان حالات میں نئی ماؤں میں انفیکشن کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں، جو جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے صفائی ستھرائی اور سینٹری پیڈ کا بھی خیال رکھیں۔ اگر کپڑا استعمال کیا جا رہا ہے تو اس کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل کر لیا جائے۔ ساتھ ہی نئی ماؤں کو نومولو د کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ مناسب صفائی ستھرائی نہ ہونے کی صورت میں بچے بھی انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘
ثنا نے بتایا کہ ’ہم یہاں کوشش کر کے ان خواتین کے لیے شیلٹر یا چار دیواری مہیا کر تے ہیں تاکہ اگر ہنگامی بنیادوں پر ڈیلیوری کرنے کی ضرورت پڑے تو ایسا ممکن ہو سکے۔‘
ڈاکٹر رشید عبدالوہاب چائلڈ سپیشلسٹ ہیں اور سندھ کے شہر جیک آباد کے ایک موبائل کیمپ کا حصہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سیلاب نے بڑی تباہی مچائی ہے۔ بچوں میں ڈائیریا، ملیریا اور جلدی امراض پھیل چکے ہیں۔ جب مسلسل پانی کھڑا رہے گا تو ڈینگی، ٹائیفائڈ اور نمونیا کی وبائی صورتحال کا سامنا ہو گا۔ اس لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے کیونکہ نومولود اور چھوٹے بچے ان وبائی امراض کا آسان شکار بنیں گے۔‘
حاملہ خواتین کے لیے ریلیف باکس میں کیا کیا ہو؟
کراچی کی گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر صدیقہ فیاض کہتی ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسی حاملہ خواتین کو اگلے کئی ماہ تک کیمپوں کی مشکل، تکلیف دہ اور بے آرام زندگی کا سامنا رہے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’حاملہ خواتین میں اکثر ہیموگلوبین کی کمی ہوتی ہے لہذا حکومت اور سماجی اداروں کو چاہیے کہ ان خواتین کو فوڈ سپلیمنٹ کے ساتھ ساتھ آئرن، فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں مہیا کی جائیں۔ یہ گولیاں مہنگی نہیں آتیں۔‘
انھوں نے زور دیا کہ ضروری ہے کہ حاملہ خواتین کا ہیمو گلوبین اور کیلشیم درست ہو۔ اس لیے او آر ایس بھی سامان کا حصہ بنائیں تاکہ ڈائیریا کا شکار بچوں اور ماؤں کو بروقت نمکیات مل سکیں۔
’وہ حاملہ خواتین جن کا حمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہو اور انھیں قے اور متلی کی شکایت ہوتی ہے، اس لیے ریلیف باکس میں اس کے لیے بھی دوا ہونی چاہیے۔ جو خواتین حمل کے آخری مراحل میں ہوں اور انھیں درد زرہ کی شکایت ہو انھیں قریبی پرائمری صحت مرکز سے رجوع کرنا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ متاثرین سیلاب کے ریلیف کیمپوں کے آس پاس ایمبولینس سروس بھی ہونی چاہیے تاکہ ان خواتین کو بروقت ہسپتال پہنچایا جا سکے۔
’سیلاب زدہ علاقوں میں مچھر کی بہتات ہو جاتی ہے۔ اس لیے راشن کے سامان میں مچھر مار دوائیں یا سپرے بھی دیں تاکہ ملیریا اور ڈینگی سے بچاؤ ممکن بنایا جا سکے۔ حاملہ خواتین کو مچھر سے بچانا ضروری ہے کیونکہ اگر انھیں ملیریا یا ڈینگی ہو گیا تو وہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اکثر حاملہ خواتین میں پہلے ہی پلیٹیلیٹس کم ہوتے ہیں اور اگر انھیں ڈینگی ہو جائے تو موت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‘
’نئی ماؤں کو اپنی نگہداشت کے ساتھ ساتھ نومولود بچے کی بھی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہو گا۔ ان بچوں کو ماں خود اپنا دودھ پلائے اور اگر بچہ بوتل پیتا ہو تو بوتل اور دودھ بنانے والے پانی کو ابال لیا جائے کیونکہ اگر بچے کو انفیکشن ہو گیا تو بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر صدیقہ فیاض کے خیال میں ایک فسٹ ایڈ باکس بنا دیا جائے، جس میں پینا ڈول کی گولیاں ہوں، کسی کو بخار ہو تو دوا لے لی جائے۔ اس ہی طرح اینٹی الرجی وغیرہ کی گولیاں بھی۔ میڈیکل کیمپ کے ساتھ ساتھ یہاں رضاکاروں کو بھی تیار کیا جائے ، جنھیں ابتدائی طبی امداد اور بنیادی ادویات کی معلومات دے کر آگے بھیجا جائے۔‘
’اگر جلدی امراض پھیلتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ صفائی ستھرائی کا مسئلہ ہے۔ موجودہ ہنگامی صورتحال میں صفائی ستھرائی کی بہتر سہولیات نہیں مل سکتیں مگر کھانے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھو لینا چاہیے۔ اس بنیادی صفائی سے جراثیم پھیلنے کے عمل کو کم کیا جا سکتا ہے لہذا حکومت اور فلاحی ادارے کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ صابن بھی راشن کا حصہ بنائیں۔
ثنا علیم الخدمت فاؤنڈیشن کراچی میں راشن کی ترسیل کی نگرانی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ راشن کے ساتھ ہم چند بنیادی ادویات اور آو آر یس، صابن اور روئی مہیا کر رہے ہیں تاکہ اس ہنگامی صورتحال میں کیمپ میں موجود خواتین اور بچوں کو کسی حد تک محفوظ کیا جا سکے۔
ثنا کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینٹری پیڈ ہوں یا بچوں کے پیمپر، سیلاب زدہ علاقوں کی خواتین ان چیزوں کی عادی نہیں۔
’اس لے ہم پرانا کپڑا اور روئی اس مقصد کے لیے خواتین کے سامان میں رکھ رہے ہیں تاکہ وہ اپنی ضرورت کے تحت اسے استعمال کر سکیں۔‘