نارڈ سٹریم ون روس نے گیس کی سپلائی روک کر یورپ کو کتنا نقصان پہنچایا؟
روس نے رواں موسم گرما میں دوسری بار کلیدی پائپ لائن نارڈ سٹریم ون کو بند کر کے یورپ کو بھیجی جانے والی گیس کی مقدار میں بڑی کمی کی ہے۔
روس نے کہا ہے کہ نئی پابندیاں تین دن تک جاری رہیں گی اور یہ کہ پائپ لائن کی مرمت کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
روس پہلے ہی یورپ کے لیے توانائی کی برآمدات میں نمایاں کمی کر چکا ہے جس سے یورپ میں گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تاہم روس گیس کو ’سیاسی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔
نارڈ سٹریم ون کیا ہے اور یہ کتنی گیس فراہم کرتی ہے؟
نارڈ سٹریم ون پائپ لائن بحیرہ بالٹک کے نیچے سینٹ پیٹرزبرگ کے قریب روسی ساحل سے شمال مشرقی جرمنی تک 1,200 کلومیٹر (745 میل) تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہ منصوبہ سنہ 2011 میں شروع کیا گیا اور روس، جرمنی کو روزانہ زیادہ سے زیادہ 170 ایم کیوبک میٹر گیس بھیج سکتا ہے۔
یہ نارڈ سٹریم اے جی کی ملکیت ہے اور اکثریت شیئر ہولڈر روسی سرکاری کمپنی گیزپروم ہے۔
جرمنی نے پہلے بھی ایک متوازی پائپ لائن ’نارڈ سٹریم ٹو‘ کی تعمیر کی منظوری دی تھی لیکن یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ منصوبہ روک دیا گیا تھا۔
روس نے سپلائی کیسے کم کی؟
مئی میں گیزپروم نے یمال گیس پائپ لائن کو بند کر دیا، جو بیلاروس اور پولینڈ سے گزرتی ہے اور جرمنی و دیگر یورپی ممالک کو گیس فراہم کرتی ہے۔
جون میں، گیز پروم نے نارڈ سٹریم ون کے ذریعے گیس کی ترسیل میں 75 فیصد کمی کر کے روزانہ 170 ایم کیوبک میٹر گیس سے تقریباً 40 ایم کیوبک میٹر کر دی۔
پھر جولائی میں، اس نے مرمت کا حوالہ دیتے ہوئے نارڈ سٹریم ون کو 10 دن کے لیے بند کر دیا۔
دوبارہ کھلنے کے فوراً بعد گیزپروم نے ناقص آلات کا جواز دیتے ہوئے فراہم کی جانے والی 20 ایم کیوبک میٹر سپلائی کو روک دیا۔
اب اس نے پائپ لائن کے ذریعے یورپ کو گیس کی تمام سپلائی مکمل طور پر روک دی ہے اور دوبارہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ پائپ لائن کو مرمت کی ضرورت ہے۔
اگست میں جرمنی کے وزیر اقتصادیات نے تکنیکی مسائل کی تردید کی اور کہا کہ پائپ لائن مکمل طور پر کام کر رہی ہے لیکن روسی صدر ولادیمیر پیوتن کے ترجمان نے اصرار کیا کہ مغربی پابندیوں سے روسی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے جو رکاوٹوں کا سبب بنی ہیں۔
گیزپروم نے نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فرانسیسی انرجی کمپنی اینگی کو گیس کی سپلائی بند کریں گے۔
یہ یورپ کو کیسے نقصان پہنچا رہا ہے؟
یورپ اور خاص طور پر جرمنی، تاریخی طور پر اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روسی گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتا رہا ہے۔
جب روس نے جولائی میں سپلائی محدود کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تو ایک دن کے اندر اس سے یورپ میں گیس کی ہول سیل قیمت میں 10 فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔
گیس کی قیمتیں اب پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 450 فیصد زیادہ ہیں۔
کرسٹول انرجی کے سی ای او کیرول نکھلے کا کہنا ہے ’اس وقت مارکیٹ اتنی تنگ ہے کہ سپلائی میں کسی قسم کی رکاوٹ گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔‘
’یہ یورپی معیشتوں میں سست روی کا سبب بن سکتا ہے اور یورپ کو کساد بازاری کے راستے پر دھکیل سکتا ہے۔‘
سپلائی میں کمی پر یورپ کا ردعمل
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس پر الزام لگایا کہ وہ متحدہ یورپ کے خلاف گیس کی کھلی جنگ چھیڑ رہا ہے۔
انرجی انسٹیٹیوٹ کی فیلو کیٹ ڈوریان اس بات سے متفق ہیں کہ ’روس گیس کو اپنا ہتھیار بنا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’روس یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اب بھی توانائی کی سپر پاور ہے اور اس طرح وہ یورپ کی جانب سے اس پر لگائی جانے والی پابندیوں کا بدلہ لے سکتا ہے۔‘
روس کے یوکرین پر حملے سے پہلے، جرمنی اپنی گیس کا 55 فیصد روس سے حاصل کرتا تھا۔ اس نے اسے 35 فیصد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور درآمدات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
اس کے برعکس اس نے ناروے اور ہالینڈ سے گیس کی متبادل سپلائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈورین کہتی ہیں کہ جرمنی، قطر اور امریکہ سے مائع قدرتی گیس درآمد کرنے کے لیے پانچ تیرتے ہوئے ٹرمینلز بھی خرید رہا ہے تاہم اس میں ساحل سے جرمنی کے باقی حصوں تک نئی پائپ لائنوں کی تعمیر شامل ہو گی جس میں کئی ماہ لگیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ روسی گیس پر انحصار نہیں کر سکتے جیسا کہ جرمنی نے کیا ہے، اپنی سپلائی کے ذرائع کو جلد تبدیل کرنا ہوگا۔‘
منفی ماحولیاتی اثرات کے باوجود جرمنی کوئلے کے استعمال میں اضافہ کر رہا ہے اور ایسے پاور سٹیشنوں کو بحال کر رہا ہے جنھیں وہ بند کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
اٹلی اور سپین الجزائر سے مزید گیس درآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈورین کا کہنا ہے کہ ’ہر کوئی توانائی کی کمی کو دور کرنے کے لیے اپنے اپنے اقدامات کر رہا ہے۔‘
یورپی یونین کی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے سلووینیا میں ایک کانفرنس میں مزید کارروائی کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ توانائی کی مارکیٹ ’اب اس مقصد کے لیے موزوں نہیں رہی۔‘
جرمن حکومت اس موسم سرما میں عوامی عمارتوں میں روشنی اور گیس کے استعمال کو محدود کر کے اس میں دو فیصد کمی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
سپین پہلے ہی اسی طرح کے قوانین لا چکا ہے اور سوئٹزرلینڈ بھی ایسا کرنے پر غور کر رہا ہے۔ بہت سے یورپی شہری خود بھی اقدامات کر رہے ہیں۔
نکھلے کہتی ہیں کہ ’جرمنی میں لوگ لکڑی کے چولہے خرید رہے ہیں اور سولر پینل لگا رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے گیس کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
‘ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ لوگ گیس کی قلت کے امکان کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔‘