چندر شیکھر ہربولا وہ 38 سال اس کے زندہ لوٹنے کا انتظار کرتے رہے اور پھر سیاچن سے بس لاش واپس آئی
کئی برسوں سے شانتی دیوی کی دو بیٹیاں ہر روز ان سے ایک ہی سوال پوچھتی رہی ہیں کہ ’ماں، ڈیڈ کب گھر آئیں گے؟‘
وہ ہمیشہ انھیں بتاتیں کہ ان کے والد کام کے سلسلے میں باہر گئے ہیں اور جلد ہی گھر واپس لوٹ آئیں گے۔
کئی سال گزر گئے لیکن ان کی گفتگو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ان کے والد چندر شیکھر ہربولا، جو کہ انڈین فوجی تھے، سنہ 1984 میں سیچن گلیشیئر پر گشت کے ایک مشن کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔
38 سال قبل سیاچن پر لاپتہ ہونے والے انڈین فوجی کی لاش مل گئی
20 افراد پر مبنی انڈین فوجی یونٹ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دنیا کے سب سے اونچے میدانِ جنگ کے طور پر مشہور سیاچن گلیشیئر پر ایک برفانی تودے کی زد میں آ گیا تھا۔
یہ خطرناک ترین خطہ انسانوں کے رہنے کے لیے موزوں نہیں ہے، لیکن دونوں ممالک نے 1984 میں گلیشیئر پر ایک مختصر جنگ لڑنے کے بعد اپنی چوکیاں خالی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دونوں ممالک کے فوجی عام طور پر برفانی تودے گرنے سے مرتے رہے ہیں۔
ہربولا اور ان کے ساتھیوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ برفانی تودہ گرنے کے بعد 15 لاشیں نکال لی گئی تھیں تاہم پانچ لاپتہ تھے جن میں ہربولا بھی شامل تھے۔
جب انھیں لاپتہ قرار دیا گیا تو ان کی بڑی بیٹی کویتا کی عمر آٹھ سال تھی جبکہ ببیتا چار سال کی تھیں۔ تقریباً چار دہائیوں کے بعد بالآخر انھیں اپنے والد کے بارے میں خبر ملی، لیکن اس قسم کی نہیں جس کی وہ توقع کر رہی تھیں۔
گذشتہ ہفتے فوج نے انھیں بتایا کہ ایک یونٹ کو گلیشیئر میں ان کی لاش ملی ہے۔ اس سے خاندان کا انتظار تو ختم ہوا، لیکن ساتھ ہی ان کے دل بھی ٹوٹ گئے۔
وہ تینوں دل ہی دل میں امید کرتی رہتی تھیں کہ کاش ہربولا زندہ ہوں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید انھیں پاکستانی فوج نے پکڑ لیا تھا اور کسی دن، وہ واپس آ جائیں گے۔
ان کا انتظار اس ہفتے اُس وقت ختم ہوا جب ہربولا کی لاش کو ہمالیائی ریاست اتراکھنڈ میں ان کے گاؤں لایا گیا اور جہاں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
شانتی دیوی کے لیے، پچھلے 38 سال صرف دو چیزوں کے بارے میں تھے۔ اپنی بیٹیوں کی بہترین پرورش کرنا اور دعا کرنا کہ ہربولا کسی دن واپس آ جائیں۔
اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد شانتی دیوی نے نرسنگ کی تربیت حاصل کی اور باگیشور ضلع کے ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرنے لگیں۔
انھوں نے اپنی زندگی اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر مرکوز کر دی اور اپنے آپ کو مصروف کر لیا۔ انھوں نے کبھی دوبارہ شادی نہیں کی کیونکہ انھوں نے تو شوہر کی واپسی کی کبھی امید ہی نہیں ہاری تھی۔
شانتی دیوی نے اپنے شوہر کی تصویر دیکھتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اپنے بچوں کو یقین دلاتی تھی کہ ان کے والد ایک دن ضرور واپس آئیں گے۔‘
وہ اکثر اس راستے کی طرف جاتیں جو گاؤں کو مرکزی سڑک سے ملاتا تھا۔ ہربولا جب بھی چھٹی پر گھر آتے یا چھٹی کے بعد اپنے کام پر واپس جاتے تو یہی راستہ اختیار کرتے۔
آخری بار جب انھوں نے سنہ 1984 میں گاؤں کو الوداع کہا تو انھوں نے ہمیشہ کی طرح یہی وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی گھر واپس آئیں گے۔
ہر دن مایوسی پر ختم ہوا، لیکن پھر بھی شانتی دیوی کے من میں امید کا دیا جلتا رہا۔
’میں سوچتی کہ شاید انھیں قیدی بنا لیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے انھیں پاکستانی فوج نے جنگی قیدی کے طور پر پکڑا ہو۔ اس طرح کے بہت سے خیالات میرے ذہن میں آتے۔‘
اب وہ اس حقیقت پر یقین کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں کہ ان کی امیدوں کا خون ہو چکا ہے۔ پڑوسیوں اور صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ماں بیٹیاں ہر چند جملوں کے بعد رونے لگتی ہیں۔
لاش کیسے ملی؟
فوج کا ایک یونٹ معمول کے گشت پر تھا جب اسے ایک بنکر نظر آیا۔ جب وہ قریب گئے تو انھیں ایک لاش ملی۔
ہربولا کا آرمی آئی ڈی نمبر جو کہ دھات کے ٹکڑے پر کندہ تھا، اب بھی برقرار تھا۔ یونٹ نے یہ معلومات ہیڈ کوارٹر تک پہنچائیں، جہاں ریکارڈ کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد اس بات کی تصدیق کی گئی کہ لاش لاپتہ فوجی چندر شیکھر ہربولا کی ہی ہے۔
اس کے بعد فوج نے خاندان کے ساتھ رابطہ کیا۔
ہربولا کے بھتیجے ہریش چندر ہربولا نے بتایا کہ ’ہمیں 13 اگست کی رات کو یہ خبر ملی۔ خاندان سے (ہربولا کی) بھرتی کے وقت دی جانے والی شناختی ڈسک کی بنیاد پر رابطہ کیا گیا۔ ڈسک کے ذریعے انھوں نے ہمارے چچا کی شناخت کی۔ اس خبر نے ہمیں چونکا دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کا خاندان ابھی تک صدمے میں ہے، لیکن انھیں فخر ہے کہ ہربولا نے اپنے ملک کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔
ہربولا کی آخری رسومات میں شامل ایک افسر نے کہا کہ فوج نے اپنے لاپتہ فوجیوں کی تلاش کبھی نہیں چھوڑی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم گمشدہ جوانوں (فوجیوں) کو تلاش کرتے رہے ہیں اور اس موسم گرما میں جب سیاچن گلیشیئر کی برف پگھلنے لگی، گمشدہ جوانوں کی تلاش دوبارہ شروع ہوئی اور ہمیں ہربولا مل گئے۔ ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی مل جائیں گے۔‘
رپورٹس کے مطابق یونٹ کو ایک اور لاش ملی ہے، لیکن اس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
جب ہربولا کی لاش لانے والا ٹرک پہنچا تو اس کے انتظار میں کویتا، جو کہ اب 46 سال کی ہیں، اور ببیتا، جو اب 42 سال کی ہیں، اپنی ماں کے ساتھ اس کا انتظار کر رہی تھیں۔
رشتہ داروں، پڑوسیوں اور عوام کی ایک بڑی بھیڑ انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع تھی۔
پورا علاقہ ’چندر شیکھر ہربولا امر رہے‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا اور وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ واقعی ان کی لاش ملی ہے۔ ایسا ہر روز نہیں ہوتا کہ 38 سال بعد کوئی لاش ملی ہو اور اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ گھر لایا جائے۔