روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں بے

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں بے

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافے کی وجوہات سیاسی ہیں یا معاشی؟

پاکستان میں اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تیزی سے اپنی قدر کھو رہی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بظاہر موجودہ حالات میں اس کے نیچے آنے کے امکان کم لگتے ہیں۔

جمعرات کے روز کاروبار کے اختتام پر ایک ڈالر کی قیمت 239.94 روپے پر بند ہوئی تھی۔ ڈالر کی قیمت میں روزانہ کی بنیادوں پر تین سے چار روپے اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

19جولائی کو صرف ایک دن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً سات روپے کا اضافہ ہوا جو ملکی تاریخ میں ایک دن میں سب سے اضافہ ہے۔

ڈالر کی قدر میں اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان او ر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جولائی کے وسط میں قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے سٹاف لیول معاہدہ طے پایا۔

آپ کی کہانی اور سوال: پاکستان میں جاری معاشی بحران اور مہنگائی کے آپ کی زندگی پر اثرات

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اگست میں ایکسچینج ریٹ میں استحکام آنے کا امکان ظاہر کیا ہے تاہم کرنسی اور مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق یہ استحکام اسی وقت آ سکتا ہے جب پاکستان کو بیرونی ذرائع سے فنانسنگ شروع ہو جو اس وقت مکمل طور پر بند ہے۔

ماہرین پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران پر بھی تشویش کا اظہار کر تے ہیں جو ان کے مطابق معاشی اشاریوں کے لیے منفی ثابت ہو رہا ہے اور اس کا اثر ڈالر اور روپے کی قدر پر بھی ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لے گی کیونکہ پاکستان اپنی توانائی اور خوردنی ضروریات کے لیے درآمدی اشیا پر انحصار کرتا ہے جو ڈالر کے مہنگا ہونے سے مزید مہنگی ہو جائیں گی۔

ڈالر کی قیمت میں اب تک کتنا اضافہ ہو چکا ہے؟

گذشتہ سال اگست کے مہینے میں ایک ڈالر کی قیمت 155 سے 160 روپے کے درمیان موجود تھی۔

آپ نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بھی اکثر یہ کہتے سنا ہو گا کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں جب ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس وقت ڈالر 178 روپے کی سطح پر موجود تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی سربراہی میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے قیام کے وقت یعنی گیارہ اپریل کو ایک ڈالر کی قیمت 182 پر موجود تھی جس میں تسلسل سے اضافہ جاری رہا اور 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال پر ڈالر کی قیمت 205 روپے کی سطح تک پہنچ گئی۔

روپے، ڈالر

آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے سے ایک دن پہلے ایک ڈالر کی قیمت 210 پر بند ہوئی تھی جس میں معاہدے کے بعد ایک ڈیڑھ روپے کمی ہوئی تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور ڈالر کی قیمت جمعرات کے روز 240 روپے کے قریب بند ہوئی۔

نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک ڈالر کی قیمت میں 60 روپے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں ڈالر کی قیمت میں 55 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

تو یوں حکومتی اتحاد کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف روپے کی قدر میں استحکام لانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود ڈالر کی قدر کیوں بڑھ رہی ہے؟

جولائی کے وسط میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے سے پہلے جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا تو اس کی وجہ اس معاہدے میں تاخیر کو قرار دیا جا رہا تھا۔

تاہم جولائی کے وسط میں معاہدہ طے پانے کے باوجود ڈالر کی قیمت میں اضافہ جاری ہے، جس کے بارے میں کرنسی مارکیٹ سے وابستہ افراد اور مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق اس کا اثر ایک، دو دن ہی رہا اور اس کے بعد ڈالر نے ایک بار پھر اوپر کی سطح کی جانب سفر جا ری رکھا۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف معاہدے کا اثر ایک آدھ دن رہا تاہم اس کے بعد جب ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تو اس نے ملک میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا اور روپے نے اپنی قدر کھوئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حالات سے لگ رہا ہے کہ ابھی مزید سیاسی کشیدگی بڑھے گی جو معیشت کے لیے منفی ثابت ہو گی۔‘

ڈالر

ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک صرف آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ہے (مگر) پیسے نہیں آئے اور اگست میں جب آئی ایم ایف بورڈ بیٹھے گا تو اس کے بعد ہی پیسے ملنے کا امکان ہے۔‘

’ابھی تک پتا نہیں کہ آئی ایم ایف کی مزید کون سی شرائط ہیں، جو طے ہونی ہیں جو ابھی تک سامنے نہیں آئیں جن کی تکمیل کے بعد پیسے ملیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے نہ آنے کی وجہ سے دوسرے ذرائع سے بیرونی فنانسنگ بھی رُکی ہوئی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ پاکستان کا درآمدی بل، تجارتی خسارہ اور سیاسی بحران ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا کردار محدود ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اب یہ ڈالر کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔

’دوسری جانب جون میں درآمدکی جانے والی توانائی کی مصنوعات کی ایل سی کو سیٹل کرنے کے لیے جولائی کے مہینے میں اتنا زیادہ دباؤ آیا کہ کہ اس نے ڈالر کی طلب کو بہت زیادہ بڑھا دیا۔‘

سمیع اللہ نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جس کا اندازہ جون کے درآمدی بل سے لگایا جا سکتا ہے اور ان درآمدات کی ایل سی جولائی میں سیٹل ہوئی جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

انھوں نے ملک میں سیاسی بحران کو بھی کسی حد تک ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی جانب ڈالر کی سمگلنگ بھی بڑھ گئی ہے جو ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت پشاور میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر 250 روپے تک فروخت ہو رہا ہے جبکہ افغانستان میں 255 روپے میں اس کی فروخت ہو رہی ہے۔

ملک بوستان نے بھی کہا کہ ہمارے اکاؤنٹ سے افغانستان کی درآمدی ضروریات کے لیے بھی ڈالر جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایک سال میں دیکھا جائے تو افغانستان کی درآمدی ضروریات کی وجہ سے پاکستان کا درآمدی بل ماہانہ بنیادوں پر ساڑھے چار ارب ڈالر سے ساڑھے سات ارب ڈالر تک چلا گیا۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال اگست میں پاکستان کے پاس بیس ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے جو اس وقت نو ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں۔

پاکستان، ڈالر

مستقبل میں ڈالر کی قیمت میں کس رجحان کا امکان ہے؟

مستقبل میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں رجحان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر فی الحال بے لگام ہو چکا ہے اور اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کہاں جا کر رُکے گا۔

ان کے مطابق جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا اور بیرونی ذرائع یعنی آئی ایم ایف اور دوست ملکوں سے ڈالر نہیں آتے تب تک روپے کی قدر گرتی رہے گی۔

ادھر سمیع اللہ طارق کے مطابق جون کے مہینے میں ہونے والی درآمدات کی جولائی میں ایل سی سیٹل ہونے کا اب دباؤ کم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے امکان ہے کہ روپے پر دباؤ کم ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ گاڑیوں، موبائل فونز اور دوسری چیزوں کی درآمد کے لیے ایل سی کھولنے پر قوانین میں سختی کی گئی ہے اس لیے امکان ہے کہ بہت بڑا اضافہ نہیں ہو گا۔

ان کا خیال ہے کہ ڈالر 245 سے 250 کے درمیان رہے گا۔ ’شاید یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ نے آنے والے ہفتوں میں ایکسچینج ریٹ میں استحکام کی بات کی ہے۔‘

تاہم سمیع اللہ کے مطابق اگر آئی ایم ایف سے پیسے مل بھی جاتے ہیں تو پھر بھی ڈالر کی قیمت میں کسی بڑی کمی کا امکان موجود نہیں اور ڈالر زیادہ سے زیادہ چار پانچ روپے گرے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایکسچینج ریٹ 235 روپے کے آس پاس رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *