میرے شوہر کو پچاس دن تک میری برہنہ ویڈیوز دکھائی گئیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جاوید اقبال کو لاپتہ افراد کے کمیشن سے ہٹانے کی سفارش
وفاقی پارلیمان کی پبلک اکاونٹس کمیٹی یعنی پی اے سی کے جمعرات کو منعقد ہونے والے اجلاس میں طیبہ گل نامی خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے انھیں متعدد مواقع پر ہراساں کیا اور اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب جاوید اقبال لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن کے سربراہ تھے۔
طیبہ گل کے مطابق بعدازاں جاوید اقبال جب قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے چیئرمین بنے تو انھیں سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔
طیبہ گل نے اس سے قبل چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ انھیں چیئرمین نیب، ڈی جی نیب اور دیگر اہلکاروں کے ذریعے مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ اس خط کے بعد کمیٹی نے دونوں فریقین کو طلب کیا تاہم جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال آج پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے۔
بی بی سی نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔
اجلاس میں طیبہ گل اپنے شوہر اور وکیل کے ہمراہ پیش ہوئیں اور بیان دیتے وقت متعدد بار رو پڑیں۔ انھوں نے کمیٹی اراکین کو بتایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن میں اُن کی جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کی چچی لاپتہ تھیں اور اسی سلسلے میں اس کیس میں پیش ہوئی تھیں۔
’مسنگ پرسن کی درخواست پر میرا نمبر درج تھا، جاوید اقبال اس نمبر پر کال کر کے مجھے وقتاً فوقتاً بلاتے رہے، وہ کہتے تھے آپ ضرور آئیں ورنہ سماعت نہیں ہو گی۔ وہ کہتے تھے کہ میں آپ کی وجہ سے جلد تاریخیں دیتا ہوں، آپ آئیں گی تو سماعت ہو گی۔ میں نے کہا کہ میرا ہونا ضروری نہیں میں براہ راست متاثرہ فریق نہیں ہوں۔۔۔ جب میں نے جاوید اقبال کو بار بار فون کرنے سے منع کیا تو وہ ناراض ہو گئے۔‘
انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ جسٹس ر جاوید اقبال نے چیئرمین نیب بننے کے بعد انھیں کہا کہ ’اب یہاں تو ملاقات نہیں ہو سکتی لہذا آپ لاپتہ افراد کے کمیشن ہی آئیں۔ تاہم ان کے مطابق جب انھوں نے جسٹس جاوید اقبال کو بار بار ہراساں کرنے سے منع کیا تو انھیں سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور اس دھمکی پر عمل بھی کروایا گیا۔‘
’جب میں نے سختی سے انھیں رد کیا تو انھوں نے کہا کہ اب میں چیئرمین نیب ہوں، میں چاہوں تو تمہاری زندگی خراب کر سکتا ہوں۔ جنوری 2019 میں لاہور سے نیب نے ہمیں رات کو گھر سے گرفتار کر لیا۔ چیئرمین نیب نے مجھے اور میرے شوہر فاروق کو گرفتار کروا دیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتا تھا کہ کیسز کیا ہیں۔ اسی طرح ایک ویڈیو میں انھوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ اگر تم کسی اور کے پاس گئیں تو تمہارے ٹکڑے جھنگ جائیں گے۔‘
طیبہ گل نے کمیٹی کو بتایا کہ انھیں نیب لاہور کی ٹیم نے اسلام آباد سے گرفتار کیا اور اس ٹیم میں کوئی خاتون اہلکار شامل نہیں تھی۔ اُن کا کہنا تھا ’ان اہلکاروں کے پاس میرے ٹرانزٹ سے متعلق حکم نامہ نہیں تھا مگر یہ مجھے اسلام آباد سے لاہور لے گئے۔ گاڑی میں راستے میں میرے ساتھ جو درندگی کی گئی وہ میں نہیں بتا سکتی۔‘
طیبہ گل یہ بتاتے ہوئے رو پڑیں اور کہا کہ لاہور پہنچنے تک ان کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور ان کے جسم پر نیل کے نشان تھے۔
’لاہور میں مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں میرا تماشہ لگایا گیا۔ ڈی جی نیب نے کہا کہ سب سے پہلے تو اس کی تلاشی لو۔ یہاں کوئی خاتون اہلکار نہیں تھی۔ میری تلاشی کے لیے مجھے بے لباس کیا گیا اور سامنے کیمرہ لگایا گیا۔ سب کے سامنے میرا تماشہ لگایا۔ مجھے برہنہ کرتے ہوئے میری ویڈیو بنائی گئی۔ میرے شوہر بھی گرفتار تھے، ان کا پچاس دن کا ریمانڈ لیا گیا اور اس دوران ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ انھیں شدید ذہنی اذیت پہنچائی گئی اور ہر روز میری برہنہ ویڈیو دکھائی جاتیں۔‘
طیبہ گل نے کہا کہ انھیں عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نےانھیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ ان کی درخواست پر میڈیکل ٹیسٹ کا حکم دیا تاکہ ان کے ساتھ گزشتہ شب ہونے والی زیادتی ثابت ہو سکے۔
’تاہم کاغذ پر میرا انگوٹھا لگوا کر ان لوگوں نے میری طرف سے یہ بیان لکھا کہ میں میڈیکل ٹیسٹ نہیں کروانا چاہتی۔ متعلقہ ادارے اس تحریر کا فرانزک کرائیں تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ میری تحریر نہیں تھی۔ یوں میرا ٹیسٹ نہ کروا کر شواہد مٹائے گئے۔ بعدازاں میری ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی۔‘
انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ انھوں نے 10 مئی 2019 کو سیٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرائی اور 21 مئی کو ان کے خلاف مختلف شہروں میں 40 ایف آئی آر درج ہو گئیں۔
’کہیں کوئلے کا ٹرک چوری کرنے کی ایف آئی آر ہے اور کہیں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ میں نے سوچا تھا کہ آج چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب میرے سامنے بیٹھے ہوں گے اور میں ان سے پوچھوں گی کہ کیا ان کے گھر بیٹی نہیں ہے؟ جب معاملہ اٹھا تو ان کی برہنہ تلاشی کی ویڈیو ڈیلیٹ کرا دی گئی، جس کا ریکارڈ میرے پاس آڈیو ٹیپ کی صورت میں موجود ہے۔‘
طیبہ گل نے کہا کہ آج تک ان کی کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ ہی کسی عدالت سے ان کی شنوائی ہوئی۔
’تمام افسران کو انکوائری مکمل ہونے تک معطل کریں‘
اجلاس کے دوران طیبہ گل کے پاس موجود ثبوتوں کی ویڈیوز اور آڈیوز چلوائی گئیں۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ کمیٹی قانونی تقاضا پورا کرنے کے لیے جسٹس ر جاوید اقبال کا موقف بھی سُنے گی۔
تاہم انھوں نے اجلاس میں موجود قائم مقام چیئرمین نیب کو ہدایت کی کہ نیب کے ان تمام افراد کو انکوائری مکمل ہونے تک معطل کر دیا جائے جن کے نام طیبہ گل نے لیے ہیں۔
واضح رہے کہ آج کے اجلاس میں سابق چیئرمین نیب جسٹس ر جاوید اقبال نے ایک خط کے ذریعے بتایا کہ وہ عید کی تعطیلات پر کوئٹہ میں موجود ہیں اور عید کے بعد اجلاس میں آئیں گے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ وہ جاوید اقبال کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا چاہتے تھے کیونکہ انھوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور خواتین کو ہراساں کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم کمیٹی میں شامل دیگر اراکین کی رائے پر کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں جسٹس ر جاوید اقبال کو طلب کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما برجیس طاہر نے اس موقع پر کہا کہ وہ پی اے سی کی ایک ذیلی کمیٹی کی سربراہی کر رہے تھے جب انھیں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق لغاری کو طلب کرنا پڑا اور وہ دونوں کمیٹی میں پیش ہوئے۔ ’اگر ملک کے سابق وزیراعظم اور سابق صدر کمیٹی میں آ سکتے ہیں تو سابق چیئرمین کو بھی طلب کرنے کا اختیار کمیٹی چیئرمین کے پاس موجود ہیں۔‘
خیال رہے کہ طیبہ گل نے جسٹس ر جاوید اقبال سے گفتگو کی کچھ ویڈیوز خفیہ طور پر ریکارڈ کی تھیں جن سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسا اپنی ہراسانی کے خلاف ثبوت جمع کرنے کے لیے کیا تاکہ انھیں انصاف مل سکے۔ تاہم ان کی یہ ویڈیوز اس وقت نیوز ون نامی چینل نے اس وقت نشر کیں جب طیبہ گل نے پرائم منسٹر سیٹیزن پورٹل میں چیئرمین نیب کے خلاف درخواست دائر کی۔
طیبہ گل نے گزشتہ ماہ 23 جون کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو خط لکھا تھا کہ سابق چیئرمین نیب نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، اور انھیں جنسی طور پہ ہراساں کیا۔ انھوں نے معاملے کی تحقیقات اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
انھوں نے خط میں کہا تھا کہ نیب افسران تاحال انھیں بلیک میل کر رہے ہیں اور جھوٹا ریفرنس دائر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
اس سے پہلے طیبہ گل نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ انھوں نے 2019 میں وزیراعظم سیٹزن پورٹل پر شکایت درج کرائی جس کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری نے اُن سے ویڈیوز بطور ثبوت حاصل کیں جو بعد ازاں وائرل ہو گئیں اور اُن کی شکایت کا ازالہ بھی نہیں ہوا تھا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جسٹس ر جاوید اقبال کو لاپتہ افراد کمیشن کے عہدے سے ہٹانے کی بھی سفارش کر دی۔ نیز یہ سفارش کی گئی کہ ’وزیراعظم سے درخواست ہے ایسے شخص کو لاپتہ افراد کے کمیشن کےعہدے سے فورا ہٹایا جائے، آئندہ اجلاس میں جاوید اقبال نہ آئے تو وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔‘
نیب افسران کے اثاثہ جات کی تفصیل اور خیبرپختونخوا میں کرپشن کے مقدمات
اس سے قبل کمیٹی اجلاس میں چیئرمین نورعالم خان نے نیب کے قائم مقام چیئرمین ظاہر شاہ سے استفسار کیا کہ ’بی آر ٹی کرپشن ریفرنس کہاں گیا؟ بینک آف خیبر، بلین ٹری سونامی اور مالم جبہ کا کیا ہوا؟‘
جس پر ظاہر شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ مالم جبہ کیس بند ہو چکا ہے جس پر چیئرمین پی اے سی نے کیس کو دوبارہ کھولنے اور تین ماہ میں کمیٹی کو رپورٹ کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔
سینیٹر ہلال الرحمان کی جانب سے خیبرپختونخوا میں ضم سابق فاٹا کے علاقوں میں سرکاری فنڈز میں خردبرد کی شکایت پر کمیٹی چیئرمین نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی اس معاملے کی تحقیق کرائی جائیں۔
اس موقع پر قائم مقام چیئرمین نیب ظاہر شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ انھیں درخواست موصول ہو چکی ہے اور اب تک کی ابتدائی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ فنڈز میں خردبرد ہوئی ہے تاہم ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
اجلاس میں کمیٹی چیئرمین نے نیب افسران کے اثاثہ جات کی تفصیل فراہم نہ کرنے پر قائم مقام چیئرمین نیب پر برہمی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے پاس اختیار ہے کہ وہ آپ سے تفصیلات طلب کرے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کے اہلکاروں کے اثاثہ جات کی تفصیل چیئرمین نیب کے پاس جمع ہوتی ہے نہ کہ دیگر اداروں کے پاس۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی لیگل ٹیم سے اس ضمن میں مشاورت کریں گے۔ تاہم کمیٹی نے نیب کے تمام سابق اور موجودہ ملازمین اور اہلخانہ کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب افسران، ان کے بچوں، بہن، بھائیوں اور والدین کے اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا حکم دیا تھا۔ پی اے سی نے نیب افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں جبکہ نیب افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔