خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی زبردست کامیابی
مرکز میں جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو عدم اعتماد کا سامنا ہے وہیں خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ جبکہ مذہبی جماعتیں دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کوئی خاطر خواہ کارکردی کا مظاہرہ نہیں کر پائیں۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 18 اضلاع میں ووٹ ڈالے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوات اور ایبٹ آباد کے سٹی میئر کے انتخابات بھی ہوئے ہیں۔ صوبے کی 65 تحصیلوں میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں مد مقابل تھیں۔
اب تک کی پارٹی پوزیشن
اب تک موصول ہونے والے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف دیگر جماعتوں سے کہیں آگے ہے۔ پینسٹھ میں سے 46 تحصیلوں میں ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے جن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار 22 تحصیلوں میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ 7 آزاد امیدوار جیتے ہیں۔
دوسری جانب اب تک جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار صرف 6 تحصیلوں میں کامیاب ہوئے۔ یہ جماعت پہلے مرحلے میں سب سے آگے تھی۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ چار اور پاکستان پیپلز پارٹی کو صرف ایک تحصیل میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیدوار 3، پاکستان راہ حق پارٹی اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی ایک ایک تحصیل میں کامیاب ہوئی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ قومی وطن پارٹی کا گڑھ چارسدہ ہے، مگر اب تک وہ ایک بھی تحصیل میں کامیاب نہیں ہو سکی، تاہم کوہستان کی ایک تحصیل میں اس جماعت کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا پر جو مکمل نتائج اضلاع سے پیش کیے گئے ہیں ان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف 65 میں سے 30 سے زیادہ تحصیلوں میں کامیاب ہوئی ہے لیکن ان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے انتہائی اہم بڑے سیاستدانوں کے رشتہ دار بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ ان میں جماعت کے صوبائی صدر امیر مقام کے بیٹے کو شانگلہ کی تحصیل الپوری میں شکست ہو گئی ہے۔ اس حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔
شانگلہ سے مقامی صحافی عمر باچا نے بتایا کہ امیر مقام کے بیٹے سابق ڈٹسرکٹ کونسل چیئر مین رہ چکے ہیں لیکن جس حد تک پاکستان تحریک انصاف نے اس علاقے میں کام کیے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور لوگ اب کام دیکھتے ہیں اس لیے ضلع کی بیشتر تحصیلوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ۔
پہلے اور دوسرے مرحلے میں فرق
صوبے میں پہلے مرحلے میں جمعیت علمائے اسلام زیادہ تحصیلوں میں کامیاب ہوئی تھی جبکہ پی ٹی آئی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ پی ٹی آئی راہنماؤں کا کہنا تھا کہ بیشتر حلقوں میں پی ٹی آئی کا مقابلہ اپنے ہی امیدواروں سے تھا جو آزاد حیثیت میں کھڑے تھے اور جماعت کے ووٹ امیدواروں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے مخالف جماعتوں کو فائدہ ہوا۔
مولانا فضل الرحمان نے پہلے مرحلے کے انتخابات کے بعد اداروں کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ دراصل جب پی ٹی آئی کے پاس ان کی حمایت نہیں رہی تو اس وجہ سے پی ٹی آئی کا یہ حال ہوا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ دوسرے مرحلے میں اس سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی کی کامیابی کی وجوہات
تجزیہ کار حکمران جماعت کی اس کارکردگی کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں، لیکن ایک عنصر اس وقت غالب آیا جب عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں عوامی جلسے میں بیرونی مداخلت کا ذکر کیا۔ خیبر پختونخوا میں سینیر صحافی اور تجزیہ کار فرزانہ علی نے بی بی سی کو بتایا کہ دوسرے مرحلے کے نتائج حیران کن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں سوات، ایبٹ آباد اور شانگلہ کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے زبردست کم بیک کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تو وزیر اعظم عمران خان بیشتر علاقوں میں خود گئے اور ان کا میسج اینٹی امریکہ یا اینٹی یورپ تھا۔ پھر ان علاقوں میں مذہبی رحجان بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا مسئلہ لوگوں کے سامنے نہیں آیا بلکہ انتخابات سے پہلے عمران خان نے جو بیانیہ اختیار کیا اس کا لوگوں پر زیادہ اثر ہوا ہے۔ اس میں پاکستان میں ایک ملک کی مداخلت اور دھمکی آمیز خط سے جو بیانیہ سامنے آیا اس کا بھی اثر ہوا ہے۔
فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ جب سڑکوں اور گلیوں میں عام لوگوں سے ان کی بات ہوئی تو اکثر کا کہنا تھا کہ اس وقت مسئلہ ملک کی غیرت کا ہے اور غیرت سے آگے کچھ نہیں ہے۔
اکثر لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنے زیادہ فنڈ خیبر پختونخوا میں استعمال نہیں ہوئے جتنے پی ٹی آئی کے دور میں ہوئے اور یہ ہی سبب ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کو نو سال ہونے کو ہیں اور قیادت کو یہ معلوم تھا کہ اگر بلدیاتی انتخاب کےاس مرحلے میں کامیاب نہ ہوئے تو آئندہ صوبائی اور قومی سطح کے انتخابات میں جماعت کی کامیابی مشکل ہوگی۔
ان کے مطابق پی ٹی آئی غیر محسوس طریقے سے کام کرتی رہی اور الیکشن کمیشن کے قواعد کی کچھ خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ ان کے مطابق ان انتخابات میں الیکشن کمیشن کے احکامات کے باوجود فنڈ جاری کیے گئے، اعلانات کیے گئے اور بہت سے ترقیاتی کام کیے گئے، جس پر جماعت کے قائدین کو نوٹس بھجوائے گئے اور جرمانے بھی کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی اس وقت سب سے بڑی جماعت ہے اور مرکز میں جو حالات ہیں اس وجہ سے جماعت کے لوگ اور کارکن بھی متحرک ہوگئے اور پہلے مرحلے میں ہونے والی ناکامی کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان سے ناراض بھی عمران خان کے حامی
مرکز میں ساڑھے تین سال سے برسر اقتدار پی ٹی آئی حکومت سے ان کے اپنے لوگ بھی ناراض تھے۔ ان میں سے کچھ کو اس مرحلے کے انتخابات سے پہلے راضی کر لیا گیا۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزیر دفاع اور صوبے کے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک نے مختلف علاقوں کے دورے کیے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔
عمران خان نے بھی جلسے کیے اور عوامی اجتماعات میں اپنے مخصوص انداز سے انھیں راضی کرنے کی کوشش کی۔ محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ لوگ پی ٹی آئی یا عمران خان کے مقابلے میں دوسری جماعتوں، جیسے پی ایم ایل این، پی پی پی، اے این پی یا جے یو آئی کے بارے میں سوچتے ہیں تو انھیں عمران خان زیادہ موزوں نظر آتے ہیں۔
جب میں نے صوبائی دارالحکومت پشاور میں کچھ لوگوں سے بات کی تو بیشتر لوگوں نے حکومت کے تمام کاموں کو اچھا قرار دیا۔ اس دوران بعض افراد ایک دوسرے سے الجھ بھی پڑے، مثلاً ایک موقع پر پشاور کے ایک نجی ہسپتال کے قریب جب ایک نوجوان پی ٹی آئی کے حق میں بول رہے تھے تو ایک باریش ڈاکٹر گاڑی سے اترے اور غصے میں بولے کہ ’جھوٹ بول رہے ہو۔‘
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی کارکردگی
لوگوں کی رائے اپنی جگہ تاہم پی ٹی آئی حکومت کے صحت انصاف کارڈ کی وجہ سے بڑی تعداد میں غریب لوگوں کو اعلی اور مہنگے نجی ہسپتالوں میں علاج کی وہ سہولت میسر آئی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، جیسا کہ ٹرانسپلانٹ یا دل کے آپریشن وغیرہ۔ اسی طرح پشاور میں بی آر ٹی سروس سے لوگ بہت خوش ہیں اور یہ سروس شہر کے بیشتر علاقوں میں پھیلا دی گئی ہے۔ اسی طرح موٹر ویز اور سڑکوں کی تعمیر اور ہسپتالوں کی مرمت جیسے کاموں کو لوگ سراہتے ہیں۔