تحریکِ عدم اعتماد پی ٹی آئی نے 2018 الیکشن سے پہلے

تحریکِ عدم اعتماد پی ٹی آئی نے 2018 الیکشن سے پہلے

تحریکِ عدم اعتماد پی ٹی آئی نے 2018 الیکشن سے پہلے جن امیدواروں کی ’وکٹ گرائی‘ وہ اب کہاں کھڑے ہیں؟

28 جولائی 2017 کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نااہل قرار دیے گئے۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے ایک سال بعد 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔

یوں تو پانامہ سیکنڈل سے ہی پاکستان مسلم لیگ ن کی مشکلات کا آغاز ہو گیا تھا مگر جیسے جیسے میاں نواز شریف کی نااہلی کے دن قریب آتے گئے، ویسے ویسے مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

پھر میاں نواز شریف کی نااہلی سے عام انتخابات کے ایک برس کے عرصے میں مسلم لیگ ن کی کئی ’وکٹیں‘ گرتی چلی گئیں۔ یہ وہ عرصہ تھا جب ن لیگ سمیت دوسری سیاسی جماعتوں کے بعض اہم ارکان پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونے لگے۔

جیسے ہی کسی دوسری جماعت کا رکن پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرتا، تو تحریک انصاف کے چیئرمین اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ’ہم نے وکٹ گرا دی ہے۔‘

اب جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئی ہے تو عام انتخابات (2023) کے انعقاد میں لگ بھگ ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی ہے، ایسے میں پی ٹی آئی کو اپنی ’وکٹیں‘ سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔

یہاں ایسے اُمیدواروں کا جائزہ لیتے ہیں جنھوں نے الیکشن سنہ 2018 سے قبل اپنی اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کا انتخاب کیا تھا اور جن کی شمولیت پر ’وکٹ گرانا‘ کہا جاتا تھا۔

قومی اسمبلی کے یہ امیدوار موجودہ صورتِ حال میں کہاں کھڑے ہیں؟ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو پی ٹی آئی کی حکومت سے ناراض ہیں، کتنے خاموش یا پارٹی سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں؟

تحریک انصاف

الیکشن 2018 سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے امیدوار

عمر ایوب خان (حلقہ این اے 17، ہری پور)

سنہ 2018 میں 17 فروری کو عمر ایوب خان نے بنی گالہ میں پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کی موجودگی میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔

عمر ایوب سنہ 2002 کے الیکشن میں اُس وقت کے حلقہ این اے 19 سے مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ تاہم سنہ 2008 میں شکست کھا گئے تھے اور سنہ 2012 میں مسلم لیگ ق سے مسلم لیگ ن میں آ گئے تھے اور 2013 کا الیکشن مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر حلقہ این اے 19 سے لڑا تھا۔

اس وقت یہ وفاقی وزیر برائے معاشی امور ہیں۔ اور 27 مارچ کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے میں شمولیت کے لیے ہری پور کے عوام کو پیغامات دیتے پائے گئے ہیں۔

نور الحق قادری (حلقہ این اے 43، خیبر ایجنسی)

نور الحق قادری نے سنہ 2002 کا الیکشن آزاد حیثیت سے جیتا اور پرویز مشرف دور میں وزیر برائے مذہبی امور رہے۔

سنہ 2008 کا الیکشن بھی جیت گئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے زکوٰة و عشر رہے۔ سنہ 2013 کا الیکشن ہار گئے اور نومبر 2017 میں انھوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس وقت یہ وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی ہیں۔

میجر (ر)طاہر صادق (حلقہ این اے 55،اٹک)

یہ سنہ 1997 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر پی پی 12 اٹک سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ سنہ 2017 میں یہ اپنے گروپ کے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ میجر ریٹائرڈ طاہر صادق سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد متعدد بار حکومت پر تنقید کر چکے ہیں۔

سنہ 2021 میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں ان کا کہنا تھا کہ ’نچلی سطح پر جتنی کرپشن آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی، لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں، ہم تبدیلی کے لیے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔‘

میجر (ر) طاہر صادق مسلم لیگ ق کے سربراہ اور گجرات کے سیاسی چودھری خاندان کے رشتہ دار ہیں۔

سردار ذوالفقار خان دلہہ (حلقہ این اے 64، چکوال)

یہ سنہ 2013 کے الیکشن میں چکوال کے صوبائی حلقہ پی پی 22 سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں یہ مسلم لیگ ن کی طرف سے صوبائی سیٹ کے اُمیدوار تھے۔ تاہم انھوں نے آخری موقع پر ن لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی اور حلقہ این اے 64 سے امیدوار بن گئے۔

ان کے قریبی حلقوں کے مطابق یہ خاموش ہیں لیکن پی ٹی آئی کا دم بھرتے پائے جا رہے ہیں۔

اراکین

شوکت علی بھٹی (حلقہ این اے 87، حافظ آباد)

شوکت علی بھٹی نے سنہ 2002 کا الیکشن حافظ آباد کی صوبائی سیٹ پی پی 107 سے لڑا تھا۔ یہ اس وقت مسلم لیگ ق سے وابستہ تھے۔ پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے قبل یہ مسلم لیگ ن میں تھے۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علیم خان کے بھی کافی قریب ہیں۔

عامر سلطان چیمہ(حلقہ این اے 91،سرگودھا)

عامر سلطان چیمہ نے سنہ 2013 کا الیکشن سرگودھا کی صوبائی سیٹ پی پی 32 سے مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر لڑا تھا اور ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔

اپریل سنہ 2018 میں یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ یہ گجرات کے چودھریوں کے رشتہ دار ہیں۔ سرگودھا کے مقامی صحافی اور مقامی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ عامر سلطان چیمہ گجرات کے چودھریوں کے فیصلوں پر اپنا فیصلہ کریں گے۔

مہر غلام محمد لالی (حلقہ این اے 99 چنیوٹ)

چنیوٹ کے حلقہ این اے 87 سے سنہ 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ایم این اے بننے والے مہر غلام محمد لالی نے جون 2018 میں پی ٹی آئی کو جوائن کیا تھا۔

ان کے قریبی حلقوں کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں مہر غلام محمد لالی خاموشی کی پالیسی پر گامزن ہیں، حکومت کے حق اور مخالفت میں بیان سے گریز کر رہے ہیں۔

صاحبزادہ محمد محبوب سلطان (حلقہ این اے 114، جھنگ)

صاحبزادہ محمد محبوب سلطان سنہ 2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ ق میں تھے۔ سنہ 2008 کا الیکشن بھی ق لیگ کی ٹکٹ پر لڑا اور دونوں بار کامیاب رہے۔

سنہ 2013 میں انھوں نے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ مارچ 2018 میں وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔

حالیہ عرصے میں ان کے حکومت سے ناراض ہونے کی خبریں میڈیا پر آتی رہیں، مگر ٹوئٹر پر یہ ان خبروں کی تردید کر چکے ہیں۔ ان کی ٹویٹ کے مطابق ’میرے چچا اور خانوادہ کے سیاسی سربراہ صاحبزادہ نذیر سلطان کی بیمار پرسی کے لیے مختلف پارٹیز سے مہربان آ رہے ہیں، اس کو موجودہ سیاسی صورتحال سے منسلک نہ کیا جائے۔‘

اراکین

صاحبزادہ محمد امیر سلطان (حلقہ این اے 116، جھنگ)

یہ صاحبزادہ نذیر سلطان کے بیٹے ہیں۔ نذیر سلطان نے 18 مئی سنہ 2018 کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

صاحبزادہ نذیر سلطان نے سنہ 2013 کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کے بیٹے امیر سلطان نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔

سردار طالب حسین نکئی (حلقہ این اے 140، قصور)

طالب حسین نکئی نے سنہ 2013 کا الیکشن مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا۔ انھوں نے سنہ 2018 کا الیکشن پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑا۔

ان کے بھائی آصف نکئی صوبائی وزیر پنجاب ہیں، یہ زیادہ متحرک ہیں۔

مخدوم خسرو بختیار (حلقہ این اے 177، رحیم یار خان)

مخدودم خسرو بختیار مئی سنہ 2013 میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تھے۔ اپریل سنہ 2018 میں یہ ن لیگ کو چھوڑ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں سرگرم ہو گئے اور ٹھیک ایک ماہ بعد مئی میں صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم پر تشکیل پانے والا دھڑا پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا۔

اس وقت یہ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار ہیں۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ ن لیگ کو بڑا جھٹکا نو اپریل 2018 کو اس وقت لگا تھا، جب سات ارکان قومی اسمبلی مستعفی ہو کر پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر بیٹھے تھے۔ ان نمائندگان نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام پر الگ دھڑا بنا لیا تھا۔ ابتدائی طور پر خسرو بختیار، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری پارٹی سے الگ ہوئے تھے۔

جبکہ صوبائی سطح پر نصراللہ دریشک (جنھوں نے بعد ازاں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا) اور سمیرا خان نے پارٹی سے راہیں الگ کی تھیں۔

یہ دھڑا سابق نگران وزیرِ اعظم بلخ شیر مزاری کی زیرِ قیادت بنایا گیا۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں اِن کے بیٹے ریاض مزاری نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی۔ پھر یہ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔

اس دھڑے نے ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی نو مئی 2018 کو خود کو تحریکِ انصاف میں ضم کر دیا تھا۔ اس دھڑے کے زیادہ تر لوگ پی ٹی آئی حکومت سے ناراض ہو چکے ہیں۔

سردار محمد خان لغاری (حلقہ این اے 192،ڈی جی خان)

سردار محمد خان لغاری، سردار مقصود خان لغاری کے بیٹے ہیں، یہ پہلے مسلم لیگ ق میں تھے۔ ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مقامی حلقوں کا خیال ہے کہ سردار محمد خان لغاری پی ٹی آئی سے نالاں دکھائی نہیں دیتے۔

اراکین

جعفر خان لغاری (حلقہ این اے 193، راجن پور)

سنہ 2013 کا الیکشن مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر لڑ کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے جعفر لغاری نے 18 مئی 2018 کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ 2008 کے الیکشن میں ق لیگ میں تھے۔

ڈی جی خان کے باخبر صحافی اور ان کے قریبی حلقوں کے مطابق جعفر خان لغاری نے موجودہ سیاسی صورتحال میں چپ سادھ رکھی ہے۔ ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مطابق ضلع ڈیرہ غازی خان میں امجد فاروق کھوسہ، جعفر خان لغاری کی جانب سے موجودہ صورت حال میں پی ٹی آئی کے حوالے سے زیادہ سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔

نصراللہ خان دریشک (حلقہ این اے 194، راجن پور)

نصراللہ خان دریشک نے سنہ 2013 کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا تھا۔ حالیہ عرصہ میں اِن کے بارے کہا جاتا رہا کہ یہ ناراض ارکان ہیں۔ اِن کی ناراضی کا ایک جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ جہانگیر ترین کے قریبی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

مگر ان کی ناراضی کے حوالے سے قریبی حلقے تردید کرتے ہیں۔ راجن پور کے صحافیوں کے مطابق پی ٹی آئی کے 27مارچ کے اسلام آباد کے جلسہ میں نصراللہ خان دریشک کی جانب سے قافلے روانہ کیے گئے ہیں۔

عامر لیاقت حسین (حلقہ این اے 245، کراچی)

مارچ 2018 میں عامر لیاقت حسین نے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ عامر لیاقت نے سنہ 2002 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔

عامر لیاقت حسین بھی حکومت سے کھچے کھچے رہے ہیں۔ نومبر 2021 میں یہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو صحافیوں کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا ’ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں۔‘

اسی طرح 17 مارچ 2022 کو عامر لیاقت نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’وہ نیوٹرل ہیں، عمران خان کے ساتھ ہوں، یا نہیں؟ فیصلہ جلد آ جائے گا‘ ان کے اس رویے سے ناراضی جھلکتی تھی۔

حالیہ دنوں میں یہ اپنی اہلیہ سمیت وزیراعظم سے ملاقات کر چکے ہیں۔

سیٹ جیت کر پی ٹی آئی کا حصہ بننے والے ارکان

اراکین

صالح محمد خان(حلقہ این اے 13،مانسہرہ)

صالح محمد خان نے سنہ 2013 کا صوبائی الیکشن پی کے 55 مانسہرہ سے ن لیگ کی ٹکٹ پر لڑا تھا۔

28 فروری 2018 کو انھوں نے مانسہرہ میں ن لیگ کا سوشل میڈیا کنونشن کروایا تھا، جس میں مریم نواز نے خطاب کیا تھا۔ جبکہ قومی اسمبلی کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا، ان کو پاکستان تحریکِ انصاف کی سپورٹ حاصل رہی تھی۔

27 جولائی 2018 کو انھوں نے عمران خان سے ملاقات کی، ملاقات میں اعظم سواتی، جہانگیر خان ترین اور پرویز خٹک موجود تھے، اسی ملاقات میں یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔

خیال رہے کہ ن لیگ سے اچانک راہیں جد ا کر کے آزاد الیکشن لڑ کر پھر پی ٹی آئی کو جوائن کرنے پر کافی چہ میگوئیاں ہوئی تھیں۔

محمد ثنا اللہ خان مستی خیل (حلقہ این اے 97، بھکر)

ثنا اللہ خان مستی خیل ق لیگ اور ن لیگ سے وابستہ رہے۔ سنہ 2018 کا الیکشن آزاد حیثیت سے لڑ کر بعد میں پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ سرگرم ہیں۔

سید فخر امام (حلقہ این اے 150، خانیوال)

سید فخر امام نے یہ الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا تھا اور پھر 28 جولائی کو بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

اس وقت یہ وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق ہیں۔

محمد عاصم نذیر (حلقہ این اے 101، فیصل آباد)

سنہ 2002 سے 2018 تک مسلسل سیٹ حاصل کرنے والے محمد عاصم نذیر ابتدائی دو انتخابات ق لیگ اور سنہ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ سے وابستہ تھے۔

سنہ 2018 کا الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا، اگست 2018 میں یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ یہ ہمیشہ آزاد حیثیت میں جیت کر بعد میں پارٹی جوائن کرتے ہیں۔ یہ پارٹی ٹکٹ کے مرہونِ منت نہیں رہتے۔

محمد شبیر علی (حلقہ این اے 181، مظفرگڑھ)

اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار بزرگ سیاست دان مصطفی کھر تھے۔

جھنوں نے اپریل سنہ 2017 میں بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔

مگر یہ الیکشن میں آزاد امیدوار شبیر علی سے شکست کھا بیٹھے۔ محمد شبیر علی نے کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کو جوائن کر لیا۔

محمد امجد فاروق خان کھوسہ (حلقہ این اے 190، ڈی جی خان)

ڈی جی خان کے بزرگ سیاست دان امجد فاروق کھوسہ نے سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں اس وقت کے صوبائی حلقہ پی پی 187 سے الیکشن لڑا تھا اور ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔

سنہ 2013 کا الیکشن اِنھوں نے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں آزاد اُمیدوار کے طور پر کامیابی کو سمیٹا۔

بعدازاں یہ پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے۔ انھوں نے سردار ذوالفقار کھوسہ کو شکست دی تھی، جو پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔ موجودہ صورتِ حال میں یہ خاموشی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔

ختم نبوت کے معاملے پر پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے امیدوار

رضا نصراللہ گھمن (حلقہ این اے 105،فیصل آباد)

چودھری رضا نصراللہ نے دسمبر سنہ 2017 میں فیصل آباد کے مقام دھوبی گھاٹ میں پیر حمید الدین سیالوی کے جلسہ کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

یہ فیصل آباد کے صوبائی حلقہ پی پی 62 سے 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی سیٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔

موجودہ صورتِ حال میں حکومت کے حق میں اِن کے بیانات آتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے 27 مارچ کے اسلام آباد جلسہ میں ان کے پینافلیکس لگے پائے گئے ہیں۔

غلام بی بی بھروانہ (حلقہ این اے 115جھنگ)

اراکین

غلام بی بی بھروانہ نے 18 مئی 2018 کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 14 دسمبر 2017 کو غلام بی بی بھروانہ نے استعفیٰ دیا تھا۔

اِنھوں نے فیصل آباد کے مقام دھوبی گھاٹ میں ختم نبوت جلسہ میں مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

غلام بی بی بھروانہ سنہ 2002 اور 2008 کے انتخابات میں ق لیگ سے کامیابی سمیٹی تھی، جبکہ سنہ 2013 کا الیکشن ن لیگ کی ٹکٹ پر لڑ کر جیتی تھی۔

حالیہ عرصہ میں ان کے حوالے سے پارٹی چھوڑنے کی خبریں گردش میں رہیں، مگر انھوں نے خبروں کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیا۔ تاہم سیال شریف کی گدی کا ان کی سیاست پر گہرا اثر ہے۔

طاہر اقبال چودھری (حلقہ این اے 164، وہاڑی)

یہ 2002 کے الیکشن میں وہاڑی کے صوبائی حلقہ پی پی 236 سے ن لیگ کی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔

سنہ 2008 کے الیکشن میں ق لیگ کی ٹکٹ پر صوبائی سیٹ پر کامیاب ہوئے۔

سنہ 2013 کے الیکشن میں یہ آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 169 سے کامیاب ہو کر پی ایم ایل این میں شامل ہو گئے۔

27 نومبر 2017 میں انھوں نے ن لیگ سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔ مئی 2018 میں یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ ختم نبوت کے معاملے پر یہ ن لیگ سے الگ ہوئے تھے۔ مگر اس وقت سیٹ نہیں چھوڑی تھی۔

ڈاکٹر محمد زمان جو سیاسی و سماجی تجزیہ کار ہیں اور قائداعظم یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ان کے حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ ’طاہر اقبال چودھری کی تاریخ ہے کہ یہ سیاسی فضا دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔‘

نثار جٹ (فیصل آباد)

نثار جٹ نے دو مارچ 2018 کو بنی گالہ میں جہانگیر ترین کی موجودگی میں پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔

سنہ 2002کے الیکشن میں نثار احمد جٹ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے اس وقت کے حلقہ این اے 81 سے کامیابی سمیٹی تھی، سنہ2008 کے الیکشن میں یہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر ق لیگ کا حصہ بن گئے۔

مگر الیکشن ہار گئے تھے۔ جبکہ سنہ 2013 کے الیکشن میں پی ایم ایل این کی سیٹ پر کامیاب ہوئے۔ سنہ 2018 کا الیکشن ہار گئے۔

دسمبر 2017 میں فیصل آباد کے مقام دھوبی گھاٹ میں ختم نبوت کے نام پر پیر حمیدالدین سیالوی کے جلسہ میں اِنھوں نے استعفیٰ کا اعلان کیا تھا۔

ناراض ارکانِ اسمبلی جنھیں نوٹس بھیجا گیا

19 مارچ کو تحریکِ انصاف نے ناراض ارکانِ اسمبلی کو نوٹس جاری کیا۔ جنھیں نوٹس جاری کیا گیا ان میں نورعالم خان، نواب شیر وسیر، راجہ ریاض، احمد حسین ڈیہڑ، رانا قاسم نون، افضل ڈھانڈلہ، غفار وٹو، عامر طلال گوپانگ، باسط سلطان بخاری، خواجہ شیراز، سردار ریاض محمود مزاری، وجیہہ قمر، نزہٹ پٹھان اوررمیش کمار ہیں۔

عامر طلال گوپانگ

مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 186 سے سنہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ کامیاب ہونے والے عامر طلال گوپانگ نے بابنگِ دہل پی ٹی آئی پر تنقید کرکے اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔عامر طلال گوپانگ نے 2008کے الیکشن میں ق لیگ کی ٹکٹ پر صوبائی سیٹ پی پی 261 سے کامیابی حاصل کی تھی۔

سنہ 2013 کے الیکشن میں یہ آزاد حیثیت سے صوبائی سیٹ جیت کر ن لیگ میں شامل ہو گئے تھے اور مئی 2018 میں یہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور صوبائی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔

عامر طلال گوپانگ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار قریبی رشتہ دار ہیں۔

خواجہ شیراز محمود (حلقہ این اے 189،ڈی جی خان)

خواجہ شیراز محمود نے سنہ 2002 کا الیکشن ڈی جی خان کے حلقہ این اے 171 سے ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑا اور کامیاب رہے۔

سنہ 2008 کے الیکشن میں بھی ق لیگ کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ سنہ 2013 کے الیکشن میں یہ پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر میدان میں اترے مگر ناکام رہے۔

یہ پارٹی سے نالاں رہے ہیں۔ انھیں عثمان بزدار کے طرزِ حکومت پر بھی تحفظات رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ان کو بعض پارٹی وزرا کی جانب سے منانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔

ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ (حلقہ این اے 98، بھکر)

ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈلہ نے 23 مئی 2018 کو پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انھوں نے سنہ 2002 کے الیکشن میں اس وقت کے حلقہ این اے 74 سے ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔

سنہ 2008 کا الیکشن بھی ن لیگ کی سیٹ پر لڑا۔ 2013 کا الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا اور جیت گئے، پھر ن لیگ میں شامل ہو گئے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے ناراض ارکان

احمد حسین ڈیہڑ

احمد حسن ڈیہڑ نے 2008 میں ملتان کے حلقہ پی پی 200 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور ایم پی اے منتخب ہوئے۔

احمد حسن ڈیہڑ نے سنہ 2013 کے الیکشن میں پی ایم ایل این کو جوائن کر لیا تھا۔

سید باسط سلطان بخاری

سید باسط سلطان بخاری 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ایم این اے رہے۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم پر سرگرم ہوئے۔

رانا قاسم نون

رانا قاسم نون 2018 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا تھا۔

نواب شیر وسیر

نواب شیر وسیر نے اپریل 2018 میں بنی گالہ جا کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

نواب شیر وسیر سنہ 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور مسلم لیگ ن کے امیدوار طلال چودھری سے شکست کھا گئے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے ناراض ارکان

ڈاکٹر رمیش کمار

سات اپریل 2018 کو ڈاکٹر رمیش کمار نے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کو جوائن کر لیا تھا۔ ڈاکٹر رمیش کمار، ق لیگ میں رہے۔ پھر پاکستان مسلم لیگ ن سے وابستہ ہو گئے۔ جبکہ 2018 کے انتخابات سے قبل یہ پی ٹی آئی میں چلے گئے۔

راجہ ریاض

مئی 2016 میں راجہ ریاض نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں راجہ ریاض نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر حلقہ این اے 110 سے کامیابی سمیٹی۔

نور عالم خان

نور عالم خان سنہ 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے مئی 2017 میں پیپلزپارٹی کو چھوڑ دیا تھا۔

سردار ریاض محمود مزاری

ریاض مزاری 2018 کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے جیتے تھے۔ یہ الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

غفار وٹو

غفار وٹو 2018 کے الیکشن میں بہاول نگر کے حلقہ این اے 166 سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے، بعدازاں انھوں نے پی ٹی آئی کو جوائن کر لیا تھا۔

نزہت پٹھان

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی نزہٹ پٹھان کی سیاست کا آغاز پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا۔ سنہ 2018 کے انتخابات میں یہ سندھ سے خواتین کی سیٹ پر ایم این اے منتخب ہوئیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے ناراض ارکان

وجیہہ قمر

وجیہہ قمر 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہوئیں۔

سنہ 2013 کے انتخابات میں اِنھوں نے نارووال کے حلقہ این اے 116 سے آزاد اُمیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا۔

پی ٹی آئی کو چھوڑ کر اپنی پرانی پارٹیوں میں کون کون گیا؟

ندیم افضل چن

19 اپریل 2018 کو ندیم افضل چن نے بنی گالہ میں جہانگیر خان ترین، شاہ محمود و دیگر کی موجودگی میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔

اسی روز عمران خان نے چودھری نثار علی خان کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت بھی دی تھی۔

ندیم افضل چن کے پی ٹی آئی میں شمولیت پر ردِعمل دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ندیم افضل چن نظریاتی نظر آتے تھے، مگر نظریاتی نہیں تھے۔

ندیم افضل چن نے 2013 کا الیکشن سرگودھا کے حلقہ این اے 64 سے پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر لڑا تھا۔ اکتوبر 2017 میں اِنھوں نے پیپلزپارٹی پنجاب کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔

یہ الیکشن ہار گئے تھے، مگر جنوری 2019 میں یہ وزیرِ اعظم کے ترجمان مقرر ہوئے۔

جنوری 2021 میں انھوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے ترجمان اور معاونِ خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

مارچ 2022 میں بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ کے موقع پر لاہور میں ندیم افضل چن نے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔

امتیاز صفدر وڑائچ

امتیاز صفدر وڑائچ 10 جون 2016 کو پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے جبکہ 13 مارچ 2002 کو لاہور میں انھوں نے بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کر کے دوبارہ پیپلز پارٹی کو جوائن کر لیا۔

پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر سیٹ نہ نکال سکنے والے چند ارکان

فردوس عاشق اعوان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

فردوس عاشق اعوان

30 مئی 2017 کو پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والی فردوس عاشق اعوان نے سنہ 2013 کا الیکشن پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا۔

2018 کا الیکشن اِنھوں نے سیالکوٹ کے حلقہ این اے 72سے لڑا مگر ناکام رہیں۔ مگر فواد چودھری سے وزارت اطلاعات کی ذمہ داریاں لے کر اِن کو اطلاعات و نشریات کے لیے وزیرِ اعظم کی معاون خصوصی بنا دیا گیا۔

بعدازاں یہاں سے ہٹا کر اِنھیں وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی معاون خصوصی بنا دیا گیا۔

سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 38 میں اِن کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا، مگر یہاں سے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کی جیت کے بعد اِنھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اب یہ سیاسی منظر نامے سے دُور ہیں اور اپنی پارٹی سے بہ ظاہر خوش نہیں ہیں۔

سردار ذوالفقار خان کھوسہ

ذوالفقار خان کھوسہ نے یکم جون 2018 کو پی ٹی آئی کو جوائن کیا تھا۔ عمران خان لاہور میں اِن کے گھر گئے تھے اور وہاں پر ذوالفقار کھوسہ نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔

قبل ازیں یہ ن لیگ سے وابستہ رہے۔ امجد فاروق کھوسہ نے یہاں سے سیٹ نکالی اور پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تو ذوالفقار کھوسہ ایک لحاظ سے پارٹی کے لیے غیر متعلق ہو کر رہ گئے۔

13 مارچ کو اِن کا بیان اخبار میں پرنٹ ہوا، جس میں اِنھوں نے وزیرِ اعظم عمران خان پر تنقید کی اور کہا ’برطانوی یونیورسٹی میں پڑھے وزیرِ اعظم کو اچھی زبان تو دور اچھا طورطریقہ بھی نہیں سکھایا گیا۔‘

غلام رسول ساہی

غلام رسول ساہی نے سنہ 2002 اور 2008 کا الیکشن ق لیگ کی سیٹ پر حلقہ این اے 75 سے لڑا۔

ایک بار کامیاب اور ایک بار ناکام رہے۔ یہ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی ٹکٹ پر میدان میں اُترے اور کامیاب رہے۔ مئی 2018 میں اِنھوں نے ن لیگ کو خیرباد کہا اور ساتھ ہی قومی اسمبلی کی سیٹ سے مستعفی ہو گئے اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔

ان کے بیٹے ظفر ذوالقرنین نے الیکشن لڑا، مگر آزاد اُمیدوار عاصم نذیر جنھوں نے بعد میں پی ٹی آئی کو جوائن کیا تھا سے شکست کھا بیٹھے۔ اس حلقہ کے مقامی صحافیوں کا خیال ہے کہ بعض سوشل میڈیا پیجز پر یہاں کے پی ٹی آئی ایم این اے پر تنقید کی جاتی ہے۔

طاہر بشیر چیمہ

پیپلزپارٹی، ق لیگ اور ن لیگ میں رہنے والے طاہر بشیر چیمہ نے بہاولنگر کے حلقہ این اے 90 سے 2008 ق لیگ اور 2013 کا الیکشن ن لیگ کی ٹکٹ پر لڑا۔

سنہ 2013 میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ اپریل 2018 میں ن لیگ کو چھوڑ کر مئی میں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ سنہ 2018 کا الیکشن اِن کی بیٹی فاطمہ طاہر چیمہ نے لڑا تھا۔

طاہر بشیر چیمہ، طارق بشیر چیمہ کے بھائی ہیں۔ مقامی صحافیوں کا خیال ہے کہ یہ اس وقت ق لیگ کے زیادہ قریب ہیں۔

نذر محمد گوندل

پیپلزپارٹی کے رہنما نذرمحمد گوندل نے چھ جون 2017 کو نتھیا گلی کے مقام پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

سنہ 2013 کا الیکشن نذر محمد گوندل نے منڈی بہاوالدین کے حلقہ این اے 109 میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا۔ مگر ن لیگ کے ناصر اقبال بوسال کے ہاتھوں شکست کھا بیٹھے تھے۔

اب گوندل فیملی کے ندیم افضل چن پی ٹی آئی کو چھوڑ کر واپس پیپلز پارٹی میں جا چکے ہیں، جبکہ اِن کے بھائی گلریز چن منڈی بہاﺅالدین سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے ہیں۔

رضا حیات ہراج، خانیوال

رضا حیات ہراج نے سات مارچ 2018 کو جہانگیر ترین کی موجودگی میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

رضا حیات ہراج نے سنہ 2002 کا الیکشن پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑ کر جیتا تھا، بعدازاں یہ ق لیگ میں شامل ہو گئے اور 2008 کے الیکشن میں کامیاب رہے۔ یہ مسلسل تیسری بار 2013 کے الیکشن میں جیت گئے، مگر یہ الیکشن آزاد حیثیت میں لڑا تھا۔ بعدازاں یہ مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے۔

سنہ 2018 کا الیکشن یہ سید فخر امام سے ہار گئے۔ رضا حیات ہراج، پی ٹی آئی میں زیادہ متحرک نہیں ہیں۔ اِن کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ الیکشن ہارنے کے بعد سے یہ متزلزل چلے آ رہے ہیں۔

میاں محمد رشید (حلقہ این اے77، نارووال)

میاں محمد رشید نے 23 مئی 2018 کو بنی گالہ میں اپنے بعض ساتھیوں سمیت علیم خان کی موجودگی میں پاکستان تحریکِ انصاف کو جوائن کیا تھا۔

یہ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی ٹکٹ پر نارووال کے حلقہ این اے 115 سے کامیاب ہوئے تھے۔ سنہ 2018 میں یہ اپنے حلقے سے کامیاب نہ ہو سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *