عمران خان کی صحافیوں سے ملاقات وزیراعظم کا موڈ،

عمران خان کی صحافیوں سے ملاقات وزیراعظم کا موڈ،

عمران خان کی صحافیوں سے ملاقات وزیراعظم کا موڈ، تحریک عدم اعتماد اور شہباز شریف سے ملاقات کا مشورہ

’عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آرام سے بیٹھ جاؤں گا۔ دونوں صورتوں میں ان کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ میں آپ کو پیشن گوئی کر رہا ہوں، عدم اعتماد ہم جیتیں گے۔۔ ہم یہ میچ جیتیں گے۔‘

یہ الفاظ وزیراعظم عمران خان کے ہیں جنھوں نے بدھ کو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں چند صحافیوں سے ملاقات کی۔

وزیراعظم نے اس ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک، شہباز شریف سے ملاقات کے مشورے اور چوہدری نثار سے حالیہ ملاقات جیسے موضوعات پر بات کی۔ انھوں نے 23 مارچ کی پریڈ کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد ہونے والی میڈیا رپورٹنگ سے متعلق سوال کا جواب بھی دیا۔

وزیراعظم کی صحافیوں سے ملاقات کا دورانیہ 35 سے 40 منٹ تھا جس کا احوال جاننے کے لیے بی بی سی نے ملاقات میں شامل چند صحافیوں سے رابطہ کیا۔

نجی ٹی وی چینل 92 نیوز سے منسلک نامہ نگار عمران وسیم کہتے ہیں کہ ’اس نشست کی دعوت وزیر اطلاعات فواد چوہدری پیر کے روز ہی سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے سینئیر صحافیوں کو دے چکے تھے کہ وہ آئیں اور وزیراعظم سے ملیں۔ آج دوپہر ایک بجے میں نے اور چند اور صحافیوں نے بھی اس ملاقات کا حصہ بننے کے لیے رابطہ کیا اور ہمیں اجازت مل گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تحریک عدم اعتماد اور موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں یہ ملاقات بہت اہم دکھائی دے رہی تھی۔‘

صحافی محمد کامران خان بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ ان کے بقول وزیراعظم نے ’ہمیں بتایا کہ اٹارنی جنرل آپ کو لیگل پوزیشن کے حوالے سے بتائیں گے۔‘

ان کے مطابق ’اس ملاقات میں اٹارنی جنرل کے علاوہ بابر اعوان، فواد چوہدری، فیصل جاوید اور شہباز گِل بھی موجود تھے لیکن ملاقات میں وزیر قانون مِسنگ تھے اور اس بارے میں ہم نے پوچھا بھی لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘

ملاقات میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ سوالات کرنے کی کھلی اجازت تھی، سوالات زیادہ تھے اور وقت کم۔

وزیراعظم کا موڈ کیسا تھا؟

صحافی محمد کامران خان کہتے ہیں کہ ایک بات جو ’میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ وزیراعظم بہت پراعتماد تھے۔ اگر میں تین الفاظ میں اس ملاقات کا احوال لکھوں تو وہ یہ ہوگا کہ وزیراعظم بہت پراعتماد، کمپوزڈ اور پر امید تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم نے کہا کہ میں یہ پیشن گوئی کر رہا ہوں کہ یہ لکھ لیجیے، عدم اعتماد ہم جیتیں گے۔‘

صحافی عمران وسیم کہتے ہیں کہ ’وزیراعظم باڈی لینگوئج سے کچھ ظاہر نہیں کر رہے تھے، پراعتماد تھے لیکن منسٹرز کے چہرے اترے ہوئے تھے۔‘

  • وزیراعظم عمران خان: ’کسی صورت استعفیٰ نہیں دوں گا، اپوزیشن کو بہت بڑا سرپرائز دینے والے ہیں‘

اے آر وائی نیوز سے منسلک صحافی حسن ایوب نے کہا کہ ’میں وزیراعظم سے شاید دو سو سے زیادہ بار مل چکا ہوں۔ اگرچہ آج وہ پراعتماد دکھائی دینے کی ایکٹنگ تو کر رہے تھے لیکن ان کے چہرے پر پہلے جیسی چمک نہیں تھی، چہرہ پہلے جیسا نہیں تھا، بلکہ بجھا بجھا سا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے صدارتی ریفرنس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ کو روکنا ہے۔

حسن ایوب کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے پہلے سوال کے بعد ہی اپوزیشن کو ’چور ڈاکو‘ کہنا شروع کر دیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم نے یہ بھی بول دیا، حکومت سے جاؤں گا۔۔۔ گھر تو نہیں بیٹھوں گا روڈ پر آؤں گا۔ میرا گراف اوپر چلا گیا ہے مجھے تو عدم اعتماد کی تحریک سے فائدہ ہوا ہے۔ نواز شریف۔۔۔ آج وہ سروے کروا لیں۔‘

’میں اور استعفیٰ دوں؟‘

صحافی عمران وسیم کے مطابق وزیراعظم سے ایک صحافی نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کہتے ہیں کہ 27 مارچ کے جلسے میں سرپرائز دیں گے تو کہیں وہ استعفیٰ تو نہیں ہوگا؟

’اس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کیوں دوں استعفیٰ، مجھے سمجھ نہیں آرہی لوگ استعفے کی بات کیوں کرتے ہیں؟ ابھی تو لڑائی شروع نہیں ہوئی۔‘

صحافی محمد کامران خان کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے جواب میں سوالیہ انداز میں کہا ’میں اور استعفیٰ دوں؟‘

صحافی محمد کامران کے مطابق ملاقات میں موجود صحافی ناصر اقبال نے وزیراعظم سے پوچھا کہ ’ہارس ٹریڈنگ کی باتیں ہو رہی ہیں، تو کیا آپ رہ پائیں گے۔‘

صحافی محمد کامران کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے اس پر مثبت جواب دیتے ہوئے ورلڈ کپ کا حوالہ دیا اور کہا ’آپ لکھ لیجیے میں پیشن گوئی کر رہا ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ سمجھتے ہیں کہ میں آرام سے بیٹھ جاؤں گا۔ دونوں صورتوں میں ان کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ ‘

وزیراعظم نے کہا کہ ’پانچ ورلڈ کپ کھیلے ہیں کسی میں بھی جیتنے کی پیشن گوئی نہیں کی، بانوے کے ورلڈ کپ میں کمزور ٹیم تھی تب پیشن گوئی کی، کہا کہ کپ جیت کر آئیں گے اور پھر جیت کر آئے۔ اب بھی پیشن گوئی کرتا ہوں ہم عدم اعتماد میں جیت جائیں گے۔‘

چوہدری نثار سے ملاقات

اس ملاقات میں موجود صحافی حسن ایوب نے وزیراعظم سے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقات کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ان سے 50 سال پرانے تعلقات ہیں۔ میری ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے اور ان سے میری آخری ملاقات کچھ عرصہ پہلے ہی ہوئی ہے۔‘

شہباز شریف سے ملاقات کا مشورہ

ملاقات کے دوران صحافی صابر شاکر نے وزیراعظم کو اینکر پرسن کامران خان کی ٹویٹ کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے وزیراعظم کو تین مشورے دیے ہیں جن میں سے ایک شہباز شریف کے ساتھ بیٹھنے کے حوالے سے ہے۔

صحافی عمران وسیم بتاتے ہیں کہ اس کے جواب میں وزیراعظم نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’۔۔۔میں اس کے ساتھ کیوں بیٹھوں گا۔ یہی کرنا تھا تو میں ان کو این آر او دے دیتا۔‘

ملاقات میں موجود صحافی محمد کامران کہتے ہیں کہ عمران خان نے ہنستے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’کامران خان سے پوچھیں یہ خبر کس نے دی ہے ان کو۔‘

IMRAN KHAN

وزیراعظم نے شہباز شریف سے ملاقات یا کسی بھی قسم کی مفاہمت کے امکان کو مسترد کیا اور یہ بھی کہا کہ ’میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ میں بیٹھوں گا ہی نہیں تو بات کیا ہو گی نئے الیکشن پر۔‘

صحافی محمد کامران کہتے ہیں کہ وزیراعظم جب مختلف سوالات کے تفصیلی جواب دے رہے تھے تو انھوں نے کہا کہ ’لکھ لیں میری بات حکومت جاتی ہے تو جائے، میں مر جاؤں گا، ان کو این آر او نہیں دوں گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے کہا کہ انھوں نے اپنے ’ٹرمپ کارڈ تو ابھی شو نہیں کیے، ووٹنگ والے دن، اس سے ایک دن پہلے شو کریں گے۔ اپوزیشن نے تو پریشر میں آ کر سارے کارڈ شو کر دیے۔‘

وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے پاس بہت سے وسائل ہوتے ہیں ’ہم نے ہارس ٹریڈنگ کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ وسائل ہونے کے باوجود اور یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سیاست میں پیسے کا استعمال ہو رہا ہے۔ ہمارے اپنے بندوں کو، خواتین ایم این اے کو فون آئے ہیں کہ یہ ریٹ چل رہا ہے۔‘

آرمی چیف سے ملاقات

اس ملاقات میں شامل صحافی بتاتے ہیں کہ وزیراعظم نے لفظ نیوٹرل کی وضاحت بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے جو نیوٹرل لفظ کہا تھا وہ فوج کے لیے نہیں کہا تھا، اپوزیشن نے فوج کے ساتھ جوڑ دیا۔

وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرنے والے صحافیوں نے وزیراعظم سے بدھ کی صبح یوم پاکستان کی پریڈ میں آرمی چیف کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر بھی بات کی۔

ایک سوال ہوا کہ ’آپ کی باڈی لینگوئج میں وہ کمسٹری نظر نہیں آ رہی تھی‘۔

وزیراعظم کا جواب تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ’میرے اور ان کے درمیان یہ میڈیا کا اپنا امپریشن ہے‘۔

وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کو بارہواں کھلاڑی کہا اور کہا کہ ’یہ بارہواں ہی رہے گا‘۔

انھوں نے میڈیا کے حوالے سے کہا کہ ’میں جنرل ضیا الحق کے دور سے میڈیا کو جانتا ہوں۔ میں کرکٹر تھا تو یا تو جگہ صدر کو ملتی تھی یا مجھے ملتی تھی۔ نواز شریف نے لفافوں کا کلچر متعارف کرایا۔‘

صحافی عمران وسیم کہتے ہیں کہ خان صاحب نے کہا کہ تین سالوں میں ’میں نے صرف پانچ چھٹیاں کی ہیں۔ جبکہ دیکھا جائے تو عدم اعتماد کی تحریک کی وجہ سے حکومت کے چار اجلاس ملتوی ہو چکے ہیں، دوسرے الفاظ میں حکومتی امور تو رکے ہوئے ہیں۔ ساری توجہ عدم اعتماد اور سیاسی صورتحال پر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے کہا ’میں تو یہی کہوں گا کہ میں تو آخری بال تک کھیلنے والا بندہ ہوں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *