برطانیہ لاک ڈاؤن کے دوران پارٹیاں منعقد کرنے پر ڈاؤنِنگ سٹریٹ کی ملکہ سے معذرت
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے دفتر نے ملکہ کے شوہر پرنس فلپ کی آخری رسومات سے ایک رات پہلے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر منعقد کی جانے والی دو تقریبات پر ملکہ سے معذرت کر لی ہے۔
گزشتہ عرصے میں اس حوالے سے وزیر اعظم بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ ان پارٹیوں کے انعقاد کو خفیہ رکھا گیا تھا اور وزیر اعظم نے کھلے بندوں یہ اعتراف نہیں کیا تھا کہ جب باقی ملک میں کووڈ کی وجہ سے تقریبات پر پابندیاں عائد تھیں تو ان کی اپنی رہائش گاہ پر عملے کے لیے پارٹیاں منعقد ہوتی رہی ہیں۔
16 اپریل 2021 کی شام 10 ڈاؤنِنگ سٹریٹ پر منعقد ہونے والے ان دو تقریبات کی خبر پہلی مرتبہ روزنامہ ٹیلیگراف نے افشا کی تھی۔ اخبار کے مطابق یہ تقریبات رات گئے تک جاری رہیں۔
جمعہ کے روز وزیر اعظم کے ترجمان نے کہا کہ یہ بات ’انتہائی قابل افسوس ہے کہ یہ تقریب ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قومی سطح پر (پرنس فلپ کی موت کا) سوگ منایا جا رہا تھا۔
بورس جانسن خود ان تقریبات میں موجود نہیں تھے، لیکن انھیں تنقید کا سامنا ہے کہ انھوں نے حکومتی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔
حکمران کنزرویٹو پارٹی کے اپنے ذرائع کی جانب سے ان تقریبات کے تازہ ترین اعتراف کے بعد اسے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان جماعتوں نے ان تقریبات کا موازنہ ملکہ کی تصویر سے کیا جو کووِڈ کی پابندیوں کی وجہ سے اپنے شوہر کی میت کے سامنے اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔
16 اپریل کو منعقد ہونے والی ان دو پارٹیوں کے تازہ ترین انکشاف کے بعد ان تقریبات کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جن کا اہتمام حکمران جماعت نے کووڈ کی پابندیوں کے دوران کیا اور اسے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ سینیئر سرکاری افسر، سُو گرے اس تمام معاملے کی تفتیش کر رہی ہیں۔
16 اپریل کی پارٹیوں کے تازہ ترین انکشاف سے پہلے وزیر اعظم نے ڈاؤننگ سٹریٹ کے باغیچے میں مئی 2020 میں ہونے والی پارٹی کے معاملے پر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عوام کے غصے کو سمجھ سکتے ہیں۔
برطانوی کابینہ کے کئی ارکان جن میں معاون وزیر اعظم ڈومینیک راب بھی شامل ہیں، نے وزیر اعظم کے حق میں بیانات بھی دیے، تاہم کنزرویٹیو پارٹی کے سکاٹش لیڈر ڈگلس راس اور ایم پی ولیم وراگ، کیرولین نوکس اور راجر بورس جانسن کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ڈگلس راس کا کہنا ہے کہ ان کی بورس جانسن سے سنجیدہ گفتگو ہوئی ہے۔ یہ ملاقات بدھ کو ہاؤس آف کامنز میں وزیر اعظم کے معافی مانگنے کے بعد ہوئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ پارٹی کی ایگزیکیٹو کمیٹی کو وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے لیے خط لکھیں گے۔
انھوں نے کہا ’وہ وزیر اعظم ہیں، انھی کی حکومت نے یہ قوانین بنائے اور اب انھیں اپنے کیے کا جواب دینا ہوگا۔‘
کامنز کے لیڈر جیکب ریس ماگ کا کہنا تھا کہ جو لوگ مسٹر جانسن کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ’ہمیشہ سے ناخوش رہے ہیں۔‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’سکاٹش کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر ڈگلس راس سیاسی اعتبار سے ایک کمزور شخصیت ہیں۔‘
کنزرویٹیو رکنِ پارلیمان اینڈریو پرسی نے جیکب ریس ماگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک ایسے شخص ہونے کے ناتے جو کہ متحد برطانیہ سے محبت کرتے ہیں، ان کا ڈگلس پر ذاتی حملہ ان کم ظرف قوم پرستوں کے لیے ایک تحفہ ہے جو اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں‘۔
پارٹی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کو نیا سربراہ منتخب کرنے کے لیے 54 ارکانِ پارلیمان کی ضرورت ہے۔ یہ 54 ایم پی جب کمیٹی سے وزیر اعظم پر خط کے ذریعے عدم اعتماد کا اظہار کریں گے تو اس سے نیا سربراہ چننے کے مرحلے کا آغاز ہو جائے گا۔
پارٹی اگر اقتدار میں ہے تو اس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جیسا کہ اس وقت پارٹی کے سربراہ اور وزیر اعظم بورس جانسن ہیں۔
بیس مئی 2020 کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں ہونے والی پارٹی کے دعوت نامے میں سماجی دوری کا ذکر تھا۔ اس پارٹی میں 30 لوگوں نے شرکت کی تھی اور انھیں اپنی شراب لانے کے لیے کہا گیا تھا۔
کھانا پہلے ہی مہمانوں کی میزوں پر لگا دیا گیا تھا۔
بورس جانسن نے بدھ کے روز سوالات کے سیشن کے دوران اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس دن انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 25 منٹ کا وقت گزارا۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد کووڈ کی ’وبا کے دوران محنت سے کام کرنے پر شکریہ ادا کرنا تھا‘ اور ان کے نزدیک یہ ’صرف کام کے سلسلے میں ایک تقریب تھی۔‘
انھوں نے کہا ’مجھے اس بات کا پچھتاوا ہے کہ میں نے سب کو واپس اندر کیوں نہیں بھیجا۔ مجھے ان کا شکریہ ادا کرنے کا کوئی اور طریقہ نکالنا چاہیے تھا، حالانکہ یہ تقریب (کووڈ) ہدایات کے خلاف نہیں تھی لیکن مجھے اس بات کو سمجھنا چاہیے تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسے اس نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔‘
وزرا نے پارلیمانی ممبران پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر جاری تحقیقات کے نتائج کا انتظار کریں جو کہ سینئیر سول افسر سُو گرے کر رہی ہیں۔ وہ اس تقریب کے ساتھ دیگر تقریبات کی بھی چھان بین کر رہی ہیں جو کہ لاک ڈاؤن کے دوران وزیر اعظم کی رہائش اور کام کی جگہ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہوئیں۔ اس رپورٹ کے نتائج اگلے ہفتے کے دوران آئیں گے۔
شمالی آئرلینڈ کے سیکریٹری برینڈین لوئس نے بی بی سی بریک فاسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کو انتظار کرنا چاہیے جب تک ان تحقیقات سے مکمل معلومات اور حقیقت کا پتہ نہیں چل جاتا۔‘
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم لوگوں کے ڈاؤننگ سٹریٹ کے حوالے سے منفی رویے اور غصے، مایوسی اور ناراضگی کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ وزیر اعظم کی لیڈر شپ کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔
لیکن کنزرویٹیو ایم پی اور طاقتور سیلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین مسٹر ریگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی پوزیشین غیر مستحکم ہو گئی ہے۔
’میرا نہیں خیال کہ ایسی نوبت آنی چاہیے کہ وزیر اعظم کے مستقبل کا فیصلہ ایک سرکاری نوکر کی رپورٹ پر منحصر ہو۔‘
جبکہ ایک اور پارٹی ممبر کیرولین نوکس جو کہ ایک دوسری کامنز کمیٹی کی چیئرمین ہیں کہتی ہیں کہ وزیر اعظم کو فوراً استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ وہ پوری کنزرویٹیو پارٹی کے برینڈ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
نوکس ماضی میں وزیر رہ چکی ہیں اور انھوں نے پہلے بھی جانسن کی قیادت پر تنقید کی تھی۔ آئی ٹی وی کے رابرٹ پیسٹن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا ’بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ اب ذمہ داری بن گئے ہیں۔ اور یا تو وہ ابھی جائیں گے یا پھر تین سال بعد عام انتخابات کے موقع پر۔‘
بورس جانسن کے لیے اب آگے کیا راستہ ہے؟
تجزیہ: لورا کونزبرگ، بی بی سی پولیٹیکل ایڈیٹر
وزیر اعظم کو غلطی کے اعتراف اور معافی سے تھوڑا وقت مل گیا ہے۔ ایک ہفتے کی مہلت یعنی کہ تحقیقات جب تک اپنے نتائج تک نہیں پہنچتیں۔
لیکن بورس جانسن کے بہت سے ساتھیوں کا ان پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ پارلیمانی ممبران کی بڑھتی ہوئی تعداد یہی چاہتی ہے کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور ساتھ ہی ان کے جانے کے وقت اور طریقہ کار کے بارے میں بحث جاری ہے۔
لیبر پارٹی کے سربراہ سر سٹارمر نے کہا کہ وزیِر اعظم جانسن کی اس پارٹی کے بارے میں دی گئی وجوہات اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ یہ ایک طرح سے برطانوی عوام کی توہین ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بورس جانسن سے کہیں گے کہ وہ مہذب طریقے سے استعفیٰ دے دیں۔
قوم پرست سکاٹش جماعت سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) کے لیڈر این بلیکفرڈ نے کنزرویٹیو پارٹی کے ارکانِ پارلیمان پر زور دیا کہ وہ وزیر اعظم کو زبردستی عہدے سے ہٹائیں۔
جبکہ سر ایڈ ڈیوی نے کہا کہ اب انھیں جانا ہوگا۔
سر ایڈ ڈیوی حال ہی میں میٹروپولیٹن پولیس سے کہہ چکے ہیں کہ وہ وزیر اعظم کی اس پارٹی میں شرکت کے معاملے پر تحقیقات کریں۔ کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی ڈین پولٹر نے وزیر اعظم کے بیان پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کے لیے ’کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔‘
وزیر خارجہ لز ٹروس اور وزیر خزانہ رشی سونک نے بدھ کی شام وزیر اعظم کے حق میں ٹویٹ کی تھی۔ لز ٹروس نے کہا کہ وہ 100 فیصد وزیر اعظم کے پیچھے کھڑی ہیں جبکہ رشی سونک نے ان کی طرف داری کرتے ہوئے کہا کہ سب کو صبر سے کام لیتے ہوئے تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔
ٹروس اور سونک دونوں ہی کنزرویٹو پارٹی کے اگلے سربراہ کے لیے اہم امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد برطانوی اخبار دی ٹائمز کے لیے پولنگ ادارے ’یو گو‘ کی طرف سے کیے گئے ایک سروے سے یہ پتہ چلا ہے کہ دسمبر 2013 کے بعد پہلی مرتبہ لیبر پارٹی کنزرویٹیو پارٹی سے دس پوائنٹ آگے ہے۔