روس، انڈیا تعلقات امریکی مخالفت کے باوجود روس اور انڈیا میں قربتیں کیوں بڑھ رہی ہیں؟
انڈیا کی خارجہ پالیسی میں پہلے سوویت یونین کی کافی اہمیت ہوا کرتی تھی اور جب اِس (سوویت یونین) کا شیرازہ بکھر گیا تو بھی انڈیا کی نظروں میں روس کی اہمیت لگ بھگ اُتنی ہی رہی۔
سرد جنگ کے دوران جب دنیا سوویت یونین اور امریکہ کی قیادت میں دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی تو انڈیا غیر جانبدار رہنے کے باوجود نظریاتی طور پر سوویت یونین کے قریب تھا۔
اسی دوران سنہ 1971 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان 13 روزہ جنگ ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں انسانی المیے کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مشرقی پاکستان سے انڈیا میں بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے آ رہے تھے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی تصفیے کی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی تھی۔
اس وقت سوویت یونین وہ واحد ملک تھا جو انڈیا کی بات سُن رہا تھا۔ اگست 1971 میں اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ’انڈیا، سوویت معاہدہ برائے امن، دوستی اور تعاون‘ پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کے تحت سوویت یونین نے انڈیا کو یقین دہانی کروائی کہ وہ جنگ کی صورت میں انڈیا کو عسکری اور سفارتی مدد فراہم کرے گا۔
ماسکو انڈیا کا ایک قابلِ اعتبار اتحادی رہا ہے، دوسری جانب اسی دور میں امریکہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو اہمیت دیتا رہا ہے۔
جب مشرقی پاکستان میں بحران پیدا ہوا تو انڈیا نے امریکہ کو نظرانداز کر دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور مشیرِ قومی سلامتی ہنری کسنجر پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کے لیے اہم شراکت دار کے طور پر دیکھتے تھے۔
مگر انڈیا اور روس کے درمیان دوستی کا آغاز سنہ 1971 میں نہیں ہوا تھا بلکہ نہرو کے دور میں بھی سوویت یونین کئی محاذوں پر انڈیا کی مدد کر رہا تھا۔
حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر روس اور انڈیا کے درمیان تعلقات میں اس حد تک گرم جوشی پیدا ہو گئی ہے کہ ماہرین کے مطابق مودی حکومت نے بھی امریکہ کو نظرانداز کر دیا ہے۔
رواں سال چھ دسمبر کو روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے انڈیا کا دورہ کیا۔ پوتن کی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے افراد نے اس دورے کو کافی اہمیت دی۔
انڈیا کو ترجیح
دمیتری تیرینین کارنیگی ماسکو سینٹر نامی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔
دمیتری نے چھ دسمبر کو ’ماسکو ٹائمز‘ میں پوتن کے دورہ انڈیا کے بارے میں لکھا کہ ’رواں سال پوتن نے صرف دو غیر ملکی دورے کیے۔ ایک انڈیا کا، اور دوسرا جنیوا کا جہاں اُن کی امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات ہوئی۔‘
پوتن نے جی 20 اور کوپ 26 کے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور کووڈ کے باعث اپنا دورہ چین بھی ملتوی کر دیا مگر اُنھوں نے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا۔
’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوتن روس اور انڈیا کے درمیان تعلقات میں عمومی گرم جوشی سے بھی آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘
دمیتری نے لکھا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور صدر پوتن کے درمیان ذاتی تعلقات بھی نہایت اچھے ہیں۔ انڈیا نے حال ہی میں امریکی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدا ہے۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فیصلے اپنی ضروریات کے تحت لیتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے روس کے ساتھ ایس 400 میزائل سسٹم کے معاہدے پر اعتراض کیا تھا۔ اکتوبر میں انڈیا کا دورہ کرنے والی امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے اس معاہدے کو ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔
سنہ 2017 میں امریکہ کے مخالفین پر پابندیاں عائد کرنے کا قانون پاس ہوا تھا تاکہ چند ممالک کو سنہ 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی سزا دی جا سکے۔
اس قانون میں کسی بھی ایسے ملک پر پابندی کی شق موجود ہے جو روس سے فوجی ساز و سامان خریدتا ہے، مگر میزائل سسٹم خریدتے ہوئے بظاہر انڈیا نے اِس کی پرواہ نہیں کی اور ایس 400 کا معاہدہ کر ہی لیا۔
انڈیا کے اس مؤقف کی روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے تعریف کی اور کہا کہ ’انڈیا نے خودمختار قوم‘ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
مودی دنیا کے اُن چار غیر ملکی رہنماؤں میں سے ہیں جنھیں روس نے اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز ’سینٹ اینڈریو‘ سے نوازا ہے۔
امریکہ پر عدم اعتماد
دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر فار رشیئن اینڈ سینٹرل ایشیئن سٹڈیز کے پروفیسر راجن کمار سے جب پوچھا گیا کہ کیا انڈیا روس کے مقابلے میں امریکہ کو نظرانداز کر رہا ہے تو اُنھوں نے کہا کہ ‘حالیہ عرصے میں انڈیا کا امریکہ پر اعتماد کم ہوا ہے۔ جس طرح امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلوائیں اور انڈیا کو اس پورے مرحلے میں اندھیرے میں رکھا، اس سے افغانستان میں انڈیا کی تمام تر سرمایہ کاری داؤ پر لگ گئی ہے۔‘
راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’امریکہ نے برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا۔ اس کے تحت آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں فراہم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس معاہدے کو انڈو پیسیفک خطے میں چین کے اثر و رسوخ کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ اپنا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ جواب میں فرانس نے امریکہ کو لتاڑا اور کہا کہ اس نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ پیغام بھی گیا کہ امریکہ اگر نیٹو ملک فرانس کے ساتھ یہ کر سکتا ہے تو پھر انڈیا کیا چیز ہے۔‘
راجن کمار کا خیال ہے کہ انڈیا امریکہ کے ساتھ روس کی قیمت پر تعلقات نہیں بنا سکتا۔
’انڈیا متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات کی پالیسی اپنا رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی ہے۔ اتحاد بنانے کی خارجہ پالیسی آج کی دنیا میں کام نہیں کرے گی بلکہ صرف مخصوص مسائل کے حل کے لیے بنائے گئے اتحاد ہی کام کریں گے۔ اگر انڈیا بریکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے تو وہ کواڈ کا رکن بھی ہے اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ انڈیا اپنی خارجہ پالیسی کسی کے کنٹرول میں نہیں دیتا۔‘
وسطی ایشیا میں انڈیا کا اثر و رسوخ
راجن کمار کہتے ہیں کہ انڈیا وسطی ایشیا میں صرف روس کے ذریعے ہی پہنچ سکتا ہے۔
’ایران بھی انڈیا کے لیے ایک اہم ملک ہے۔ اگر پاکستان کو بائی پاس کرنا ہے اور چاہ بہار کے ذریعے وسطی ایشیا تک پہنچنا ہے تو صرف ایران ہی کار آمد ہو گا۔ مگر امریکہ کے ساتھ تنازع کے باوجود ایران اور انڈیا کا تعاون نہیں ہو پائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’روس اس کے لیے ضروری ہے۔ اگر روس فیصلہ کر لے کہ انڈیا وسطی ایشیا میں پیر نہ جما پائے تو وہ ایسا کر بھی سکتا ہے۔ مگر روس نہ صرف اس وقت انڈیا کی فوجی ضروریات پوری کر رہا ہے بلکہ بین الاقوامی فورمز پر انڈیا کو مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں روس انڈیا کے لیے ایک آزمایا اور پرکھا ہوا ملک ہے۔‘
گذشتہ ماہ 25 نومبر کو روس انڈیا چائنہ فورم یعنی آر آئی سی کا 18 واں اجلاس ہوا۔ تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس اجلاس میں شرکت کی جس میں انڈیا نے بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی حمایت کی۔ چین مارچ 2022 میں سرمائی اولمپکس اور پیرالمپکس کی میزبانی کرے گا۔
امریکہ، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا نے سفارتی طور پر چین میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ یہ چاروں ممالک سرمائی اولمپکس میں کوئی وفود نہیں بھیجیں گے۔ انڈیا کواڈ اتحاد کا وہ واحد ملک ہے جو سرمائی اولمپکس میں چین کی حمایت کر رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا نے چین کو یہ حمایت روس کے باعث فراہم کی ہے۔
انڈیا کی اس حمایت پر چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان سمجھے جانے والے انگریزی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے نومبر 28 کو ایک مضمون میں لکھا کہ ’امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کے باوجود انڈیا نے چین، روس اور شنگھائی تعاون تنظیم کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بریکس رکن ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انڈیا اپنی خارجہ پالیسی لبرل رکھنا چاہتا ہے اور خود کو کسی کیمپ تک محدود نہیں کرنا چاہتا۔‘
انڈیا کا درست فیصلہ
جب انڈیا کا چین کے ساتھ سرحد پر تنازع چل رہا تھا تو انڈیا نے دیگر تین کواڈ ممالک کی طرح سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا؟ کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’یہ حمایت یا مخالفت کی ایک علامت ہے۔ بائیکاٹ کا اعلان کرنے والے ممالک کے کھلاڑی تو جا ہی رہے ہیں، صرف سفارتی وفود نہیں جائیں گے۔ اس سے پہلے کسی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایسے کوئی وفود جایا کرتے ہیں۔‘
اُن کے مطابق انڈیا کسی ملک کے داخلی معاملات کے بارے میں فیصلے نہیں کرتا۔ ’امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان نے انسانی حقوق کے معاملے پر چین کا بائیکاٹ کیا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق یہ سوالات انڈیا کے حوالے سے بھی ہیں۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کو بائیکاٹ کر کے کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔ میانمار میں فوجی بغاوت کی بھی انڈیا نے مخالفت نہیں کی تھی۔‘
جب روسی صدر چھ دسمبر کو انڈیا آئے تو اُنھوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ مل کر ایک فوجی معاہدے سمیت 28 معاہدوں پر دستخط کیے۔ صدر پوتن کے دورے کے چند ہفتوں بعد ہی دونوں ممالک نے وسطی ایشیا میں ایک دفاعی تعاون کے معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں دفاعی ساز و سامان تیار کریں گے۔ یہ پانچوں ممالک سوویت یونین کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اس معاہدے میں ساز و سامان کے علاوہ فوجی مشقیں بھی شامل ہیں۔ اکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کو انڈیا میں روسی سفارت خانے نے ٹوئٹر پر ری ٹویٹ بھی کیا ہے۔
منگل کو پوتن نے سینٹ پیٹرزبرگ میں تاجکستان کے صدر امام علی راہمون سے ملاقات کی۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا اور روس دونوں ہی طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان میں اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان پر نظر رکھی جا سکے۔
افغانستان کا معاملہ
اس کے علاوہ اس حوالے سے بھی حیرت کا اظہار کیا جا رہا کہ افغانستان سے منسلک وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روس اور انڈیا کے تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چند ماہ قبل ہی افغانستان میں انتقالِ اقتدار سے متعلق ایک مذاکرے میں روس نے چین، امریکہ، طالبان اور پاکستان کو مدعو کیا تھا۔ انڈیا کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ تجزیہ کاروں نے اس وقت کہا تھا کہ روس انڈیا کی امریکہ سے بڑھتی قربت سے پریشان ہے۔
روس نے کواڈ کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے، وسطی ایشیا میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ، اور اس خطے میں امریکہ کے بڑھتے کردار پر مشترکہ خدشات کے باعث قریب آ گئے ہیں۔
روس طالبان کی آمد کے بعد سے وسطی ایشیا میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کے مضبوط ہونے کے بارے میں تحفظات رکھتا ہے جبکہ افغانستان میں انڈیا کی تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انڈیا اپنے زیر انتظام کشمیر میں انتہاپسندی کے بارے میں فکرمند ہے۔
رواں سال نومبر میں قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، ایران اور روس افغانستان کے معاملے پر بات چیت کے لیے نئی دلی آئے تھے۔ ان میں سے کئی ممالک کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔
گذشتہ ہفتے وسطی ایشیا سے پانچ وزرائے خارجہ انڈیا وسطی ایشیا مذاکرے میں شرکت کے لیے نئی دلی آئے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا نے اپنے یومِ جمہوریہ کے موقع پر ان پانچوں ممالک کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا ہے۔ پروفیسر راجن کمار کا کہنا ہے کہ روس کے بغیر ان پانچوں ممالک کا انڈیا کے قریب آنا ممکن نہیں ہے۔
روس اور انڈیا کے درمیان افغانستان کے معاملے پر تعاون میں اچانک تیزی کیوں آئی ہے؟ پروفیسر ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’روس یہ محسوس کر رہا ہے کہ طالبان متنوع حکومت بنانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ دوبارہ افغانستان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کہہ رہا تھا کہ یہ طالبان مختلف ہیں مگر یہ بات سچ ثابت نہیں ہوئی۔ تاجک اور ہزارہ برادریوں کو طالبان حکومت میں جگہ نہیں دی گئی اور لڑکیاں اب بھی سکول نہیں جا پا رہیں۔ روس کو لگتا ہے کہ طالبان کے معاملے پر انڈیا کا مؤقف زیادہ حقیقت پسندانہ تھا۔ غیر متنوع طالبان حکومت کا مطلب ہے کہ افغانستان میں عدم استحکام رہے گا۔ ایسی صورتحال میں روس کا افغانستان کے معاملے پر انڈیا کے پاس آنا زیادہ حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی ہے۔‘
شراکت داری
ہرش پنت کہتے ہیں کہ ‘روس انڈیا کا آزمایا ہوا شراکت دار ہے۔ اگر امریکہ انڈیا کے سر پر بندوق بھی رکھ دے گا اور کہے گا کہ وہ روس کو چھوڑ دے تو ایسا نہیں ہو گا۔ گذشتہ برس جب چین کے ساتھ سرحدی تنازع ہوا تھا تو انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ روس گئے تھے۔ روس چاہتا تو اسلحے کی فراہمی روک سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔‘
ان کے مطابق ’روس ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے خلاف چین کے ساتھ ہو مگر انڈیا کے خلاف چین کے ساتھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں کون کس کے ساتھ ہے، یہ بات حتمی نہیں ہوتی۔ کون کس پر بھروسہ کرتا ہے، یہ مدعا نہیں ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ کس کا مفاد کس سے پورا ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب سرد جنگ کے دوران چین امریکہ کے قریب تھا مگر اب چین اور روس دونوں ساتھ ہیں۔‘
گذشتہ برس انڈیا اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر پُرتشدد تنازع ہوا تھا۔ دوسری جانب روس کا یوکرین کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ سنہ 2014 سے تنازع جاری ہے۔ یہاں وہ صورتحال ہے جس میں آپ کا قریبی دوست آپ کے سخت ترین دشمن سے بھی تعلقات کا حامل ہے۔
اس کے علاوہ انڈیا اور روس کے درمیان تعلقات بھی اونچ نیچ کے شکار ہیں۔ روس اور انڈیا کا جوہری توانائی سے لے کر خلائی شعبے تک میں تعاون ہے مگر کئی مسائل بھی ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات اس وقت ٹھیک نہیں ہیں مگر انڈیا کی دونوں ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت سو، سو ارب ڈالر تک پہنچی ہوئی ہے جبکہ روس کے ساتھ دو طرفہ تجارت صرف 10 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
دمیتری نے لکھا ہے کہ انڈیا کی معیشت کافی حد تک نجی شعبے کے ہاتھ میں ہے جبکہ انڈیا اور روس کے اقتصادی معاہدے حکومتی سطح پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق سوویت یونین اسی وجہ سے اپنے پرانے فارمیٹ سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔