افغانستان میں طالبان انڈیا کے ساتھ فضائی رابطوں کی بندش

افغانستان میں طالبان انڈیا کے ساتھ فضائی رابطوں کی بندش

افغانستان میں طالبان انڈیا کے ساتھ فضائی رابطوں کی بندش، افغانستان سے پاکستان پھلوں کی درآمد سے قیمتوں پر کیا اثر پڑا؟

نجیب خان اتوار کی علی الصبح انگوروں سے لدا ہوا ٹرک افغانستان سے لے کر پاکستان پہنچے تھے۔

وہ طورخم سرحد پر واقع ایک ٹرک ہوٹل میں کچھ دیر کو سستانے اور ناشتہ کرنے کی غرض سے رکے تھے، یہاں اُن کے ٹرک کے علاوہ اور بہت سے مال بردار ٹرک بھی موجود تھے جن کے ڈرائیورز اور ان کے ہیلپرز کی ایک بڑی تعداد ارد گرد پھرتی نظر آ رہی تھی۔

نجیب کو افغانستان کے دارالحکومت کابل سے طورخم پہنچنے میں دو دن لگے اور ہوٹل پر بیٹھے ہوئے انھیں اپنے ٹرک پر لدے انگوروں کے خراب ہونے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔

انھوں نے بتایا تھا کہ پشاور کی فروٹ منڈی تک پہنچنے میں انھیں مزید ایک دن لگ جائے گا اور اس طرح کابل سے چلنے والا انگوروں کا یہ ٹرک تین دن اور تین راتوں کے سفر کے بعد اپنی منزل پر پہنچے گا۔

’پشاور پہنچنے میں ہی تین دن لگ جاتے ہیں۔۔۔ اسی لیے کابل سے براہ راست اسلام آباد یا لاہور پھل کم ہی آتے ہیں کیونکہ خراب ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ انگور بہت نازک پھل ہے جو موسم کی زیادہ سختی برداشت نہیں کر سکتا اور اسی لیے بعض اوقات پشاور کی منڈی تک پہنچتے پہنچتے بھی انگوروں کے کئی کریٹ خراب ہو جاتے ہیں۔‘

نجیب خان بتاتے ہیں ’افغانستان سے پاکستان داخل ہونے کے لیے انھوں نے دو راتیں افغانستان میں اس انتظار میں گزاریں کہ کب اُن کے ٹرک کا نمبر آئے گا اور سرحد پر چیکنگ کے بعد انھیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔‘

طورخم

انھوں نے بتایا کہ جب وہ افغانستان سے آ رہے تھے تو پاکستان کی سرحد کے قریب دس کلومیٹر طویل قطار میں پھلوں اور سامان سے لدے چار سے پانچ سو ٹرک کھڑے تھے اور یہ ٹرک اس لیے کھڑے تھے کیونکہ پاکستان میں ان ٹرکوں کی چیکنگ اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔

تورخم پر سامان سے لدے ٹرکوں کی بھرمار

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں افغانستان سے درآمد شدہ مال میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان کا دیگر ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات اور انڈیا سے فضائی تجارت کا راستہ بند ہونا ہے۔

طورخم پر موجود بارڈر حکام کے مطابق افغانستان سے آنے والے سامان سے لدے ٹرکوں کی تعداد اوسطً 450 ٹرک یومیہ ہے جبکہ پاکستان سے افغانستان جانے والے یومیہ ٹرکوں کی تعداد 350 تک ہے۔

پاکستان سے افغانستان جانے والے ٹرکوں میں وہ ٹرک شامل ہیں جو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان افغانستان لے جاتے ہیں جبکہ حکام کے مطابق بڑی تعداد میں خالی ٹرک بھی افغانستان جا رہے ہیں۔

پاک افغان سرحد پر تعینات سرکاری افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد شروع کے کچھ دن تو بے یقینی کی صورتحال رہی لیکن جوں جوں حالات واضح ہوتے گئے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے لیے ٹرکوں کی آمد و رفت کی اجازت دی گئی تو بڑی تعداد میں سامان سے لدے ٹرک پاکستان آنا شروع ہو گئے تھے۔

ایک اہلکار کے مطابق ’شروع کے دنوں میں روزانہ افغانستان سے پاکستان آنے والے مال بردار ٹرکوں کی تعداد 600 سے زیادہ تھی لیکن اب اس تعداد میں تھوڑی کمی آئی ہے۔‘

پھل

افغانستان سے کیا کچھ آ رہا ہے؟

افغانستان سے زیادہ تر تازہ پھلوں سے لدے ٹرک پاکستان آ رہے ہیں جن میں انار، انگور، سیب، تربوز اور خربوزہ شامل ہے۔ یہ پھل ماضی میں بھی پاکستان آتے تھے لیکن اس مرتبہ یہ بڑی مقدار میں پاکستان آ رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان سے بھی کچھ پھل افغانستان جا رہے ہیں جن میں کیلا اور امرود شامل ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔

پھل

پھل

پہلے یہ پھل کہاں جاتا تھا؟

افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے افغانستان سے پھل انڈیا اور دیگر ممالک کو بھی فضائی راستوں سے جاتا تھا، لیکن فی الحال افغانستان میں فضائی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر پھل پاکستان آ رہا ہے۔

پاکستان میں امپورٹ، ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ تاجر اور سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فیض محمد فیضی نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل انڈیا نے افغانستان سے سامان فضائی راستے سے لانے پر بھاری مراعات دی ہوئی تھیں اور ٹیکسز میں کمی کر دی تھی جس کی وجہ سے زیادہ تر پھل اور سامان انڈیا بھیجا جاتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس مرتبہ چونکہ انڈیا اور خلیجی ممالک کے ساتھ اب تک افغانستان کے فضائی رابطے بحال نہیں ہوئے تو اسی لیے اب پھل بڑی مقدار میں وہاں جا رہے ہیں جہاں سے افغانستان کا زمینی رابطہ اور تجارت بحال ہے۔

سعید خان پشاور کی فروٹ منڈی میں آڑھتی ہیں اور ان کا کاروبار زیادہ تر افغانستان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مرتبہ افغانستان میں پھلوں کی پیداور بھی اچھی ہوئی ہے اور چونکہ اس مرتبہ پھل باقی کسی ملک کو نہیں جا رہا اس لیے پاکستان میں پھل زیادہ آ رہا ہے۔

کیا اس سے پاکستان میں پھلوں کی قیمت پر فرق پڑا ہے؟

پھل

افغانستان سے بڑی مقدار میں پھل درآمد ہونے سے قیمتوں پر بھی فرق پڑا ہے اور گزشتہ سال کی نسبت اس سال بازار میں انار اور انگور کی قیمتیں قدرے کم رہی ہیں۔

اس کی مثال یوں لیجیے کہ انار کا موسم شروع ہوا تو پشاور کے بازاروں میں اعلیٰ درجے کے انار کی قیمت 170 روپے فی کلو تھی جبکہ افغانستان سے زیادہ انار آنے کے بعد اس کی قیمت گر کر 130 روپے فی کلو تک ہو گئی۔

اسی معیار کے انار کی سات سے آٹھ کلو کی پیٹی منڈی میں سات سے آٹھ سو روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ سعید خان نے رواں ماہ اعلیٰ درجے کے انار افغانستان سے درآمد کیے ہیں۔ پاکستان میں اس معیار کے افغانی انار کی قیمت دیگر قسموں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

اسی طرح سندرخوانی انگور جو کابل کا بہترین انگور سمجھا جاتا ہے اس کی قیمتیں بھی اس سال کم رہی ہیں۔ رواں برس اعلیٰ درجے کا سندرخوانی انگور پشاور میں 180 سے 200 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ گزشتہ سال اس کی قیمت 250 روپے فی کلو تک تھی۔

پشاور کی فروٹ منڈی کے ایک آڑھتی خالد زمان نے بتایا کہ پھلوں کی قیمتوں میں روزانہ کے اعتبار سے اتار چڑھاؤ آتا ہے لیکن گزشتہ سال کی نسبت اس سال مال زیادہ آیا ہے اور عام صارف کے لیے قیمتیں قدرے کم رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مال منڈی میں بہت سستا بھی ہو جائے صارف تک فائدہ کم ہی پہنچتا ہے کیونکہ دکاندار اور ریڑھی والے قیمتیں کم نہیں کرتے۔

دو طرفہ تجارت میں کیا مشکلات پیش آ رہی ہیں؟

خالد زمان نے بتایا کہ قیمتوں کے تعین کا انحصار مال کے معیار پر ہوتا ہے۔ مگر افغانستان سے پاکستان کے راستے میں موجود تجارتی رکاوٹوں اور چیکنگ کی وجہ سے یہ پھل بھی راستے میں بعض اوقات خراب ہو جاتا ہے۔

‘ان دنوں افغانستان سے مال یہاں پہنچنے میں تاخیر سے اکثر پھل خراب ہو جاتا ہے یا ان پر داغ لگ جاتا ہے اور یہ مال منڈی میں سستے داموں فروخت ہوتا ہے۔’

فروٹ منڈی میں تاجروں نے بتایا کہ جو پھل اچھی حالت میں پہنچتا ہے اس کی قیمت بھی بیوپاریوں کو صحیح ملتی ہے لیکن اس کے باوجود جو اچھا پھل آ رہا ہے اس کی قیمت پھر بھی گزشتہ سال کی نسبت قدرے کم ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ دونوں جانب موجود حکام کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *