افغانستان میں طالبان پاکستان، چین اور روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ’اگر انھوں (طالبان) نے شمولیتی حکومت قائم نہ کی تو آنے والے دنوں میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ ایک غیر مستحکم اور انتشار کا شکار افغانستان کی صورت میں نکلے گا۔‘
چینی وزارت خارجہ کے مطابق چین امید کرتا ہے کہ افغانستان میں تمام دھڑے مل کر اپنی عوام اور بین الاقوامی برادری کی امنگوں کے مطابق فیصلے کریں گے اور ایک شمولیتی سیاسی ڈھانچہ کھڑا کریں گے۔
روس کے وزیر خارجہ سرجی لیوروو کا کہنا ہے کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں (طالبان) نے جو وعدے عوامی طور پر کیے گئے ہیں انھیں پورا کیا جائے۔ ہماری پہلی ترجیح یہی ہے۔‘
یہ بیانات تین ایسے ممالک کے ہیں جنھوں نے دوحہ امن مذاکرات اور طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور افغانستان میں طالبان کی موجودہ حکومت کی بظاہر حمایت کی ہے۔
تاہم طالبان کی کھلم کھلا حمایت اور دنیا کو یہ باور کروانے کے باوجود کہ طالبان اب بدل چکے ہیں، اِن تینوں ممالک نے تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
پاکستان، چین اور روس سے جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کر رہے تو وہ ایک جامع حکومت کی تشکیل، عالمی برادری کی امنگوں کی پاسداری، دہشت گرد تنظیموں سے فاصلہ رکھنے اور طرزِ حکمرانی میں ترقی پسند سوچ جیسی شرائط گنواتے دکھائی دیتے ہیں۔
تینوں ممالک کے افغانستان میں اپنے اپنے مفادات ہیں۔
پاکستان اس موقع کو انڈیا کے ساتھ دشمنی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ افغانستان میں سابقہ حکومت کا جھکاؤ انڈیا کی طرف تھا لیکن موجودہ طالبان حکومت کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
چین اور روس دونوں ہی افغانستان میں امریکی تسلط سے خوش نہیں تھے۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ جب امریکہ یہاں سے چلا جائے گا تو اس کے بعد پیدا ہونا والا خلا پُر کیا جائے گا۔ چین افغانستان کے وسائل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔
روس چاہتا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک میں کسی قسم کا اسلامی تعصب نہ پھیلے اور اس خطے میں امریکی اثرورسوخ کم ہو جائے، اور اگر یہ سب ہو جاتا ہے تو اس سے روس کے لیے مواقع پیدا ہوں گے۔
مگر اس سب کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تینوں ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
اور دوسرا سوال یہ کہ یہ ممالک طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس نہج پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں؟
’تسلیم کرنے سے دباؤ میں کمی آتی ہے‘
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ایک ایسا کارڈ ہے جس کے ذریعے طالبان حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔ چین، روس اور پاکستان اس کارڈ کو فی الحال ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں مگر ساتھ ساتھ وہ کوئی خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتے۔
کنگز کالج لندن کے شعبہ برائے خارجہ اُمور کے سربراہ پروفیسر ہرش وی پنت کہتے ہیں کہ ’اگر یہ تینوں ممالک اس موقع پر طالبان حکومت کو تسلیم کر لیتے ہیں تو اُن کے پاس اس حکومت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہو گی۔ اس وقت وہ اُن کی ضرورت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
’لیکن ایک مرتبہ اگر طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا گیا تو یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکے گا۔ یہ فیصلہ کر لینے کے بعد ان ممالک کو اپنے فیصلے کا دفاع کرنا ہو گا۔ ان ممالک کے لیے فی الحال انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح یہ ممالک بین الاقوامی برادری کے خلاف بھی نہیں جا رہے۔‘
اس کے ساتھ ساتھ طالبان قیادت کا تعصب بھی ان ممالک کی حکومتوں کے ہاتھ باندھ دیتا ہے۔ جس طرح موجود طالبان کو سنہ 1996 کے طالبان سے علیحدہ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی، اور افغانستان میں ایک نئی لبرل حکومت کی تشکیل کی بات کی گئی، ویسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
طالبان حکومت کے قیام کو ایک ماہ ہونے کو ہے لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی مثبت اشارے نہیں مل رہے۔ اب بھی خواتین کے حقوق سے متعلق شکوک و شبہات موجود ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔
شریعت کے نفاذ کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔ لوگوں کی لاشیں چوراہے پر کھلے عام لٹکانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اور مختلف علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی اب بھی جاری ہے۔
اس صورتحال میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان حکومت میں بنیاد پرستی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں افغانستان میں دیگر انتہا پسند تنظیموں کی حوصلہ افزائی بھی ہو سکتی ہے۔
پروفیسر پنت کہتے ہیں کہ ’طالبان کے بارے میں منفی اطلاعات آ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں انھیں تسلیم کرنے میں جلدی نہیں کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر چین، روس اور پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کے درمیان اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی سطح پر موجود رضامندی کے خلاف ہے۔‘
’دراصل یہ ممالک بین الاقوامی سطح پر طالبان حکومت کی حمایت کے لیے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان نے جو تقریر کی تھی اس کا بنیادی ایجنڈا دنیا کو طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ جتنے ممالک اس سمت میں جائیں گے، پاکستان طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی میں اتنا ہی مضبوط ہو گا۔‘
بڑھتی ہوئی اسلامی شدت پسندی کا خدشہ
شروع سے ہی روس، چین اور پاکستان نے اس بات زور دیا ہے کہ طالبان کی حکومت میں افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان تحریک طالبان کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں آگاہ کرتا رہا ہے جبکہ چین کو ڈر ہے کہ اس کے سنکیانگ صوبے میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ مضبوط نہ ہو جائے اور روس چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن برقرار رکھے۔
وادی پنجشیر میں طالبان نے سیاسی مخالفین کو جس طرح قتل کیا ہے اس پر تاجک اور ازبک ناراض ہیں۔ قازقستان، تاجکستان اور ازبکستان روس کے قریب ہیں۔ یہاں روس کے لیے اس بڑھتی ہوئی ناراضگی سے بچنا مشکل ہو گا۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے کے بھردواج کہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت میں موجود بنیاد پرستی صرف افغانستان تک محدود نہیں رہے گی۔ یہی بات روس، چین اور پاکستان کو پریشان کر رہی ہے۔
’جو بات انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ طالبان حکومت میں حقانی گروپ کا غلبہ ہے اور اس گروہ کے متعصبانہ رویے کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں ممالک ایک جامع حکومت کی بات کر رہے ہیں تاکہ ایک لبرل طالبان حکومت کو ان کے خلاف استعمال نہ کیا جا سکے۔‘
پاکستان کے مختلف مسائل
پاکستان کے مسائل چین اور روس کے مسائل سے کچھ مختلف ہیں۔
پاکستان نہ صرف دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہے بلکہ اس کی معاشی حالت بھی اتنی مستحکم نہیں ہے۔
پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں ہے اور اس پر مالی پابندیاں بھی عائد ہیں۔ ایسی صورتحال میں سخت گیر طالبان حکومت کی حمایت پاکستان کا بین الاقوامی برادری میں تشخص مزید خراب کر سکتی ہے۔
پروفیسر سنجے بھردواج کا کہنا ہے کہ ’1996 کے بعد سے حالات بہت بدل چکے ہیں۔ پہلے دنیا اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ اب پوری دنیا انسانی حقوق کی بات کر رہی ہے۔‘
’پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ پہلے ممالک تھے جنھوں نے پہلی طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا، اب وہ دونوں اس معاملے پر خاموش ہیں۔ اس لیے پاکستان فی الحال اتنا بڑا قدم اٹھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے پہلے بھی جب طالبان کو تسلیم کیا تھا تو اس کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے تھے، اسی لیے اس مرتبہ پاکستان اس معاملے پر محتاط اور عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تسلیم نہ کرنے کے باوجود پاکستان کی حمایت طالبان کے لیے ہے۔ اس دوران امداد بھی کی جا رہی ہے اور تجارت کے مسائل پر بھی بات چیت کی جا رہی ہے۔ جو چیزیں دو طرفہ تعلقات میں ہوتی ہیں وہ یہاں بھی فعال ہیں لیکن قانونی اور سفارتی وجوہات کی وجہ سے پاکستان ہچکچا رہا ہے۔‘
عامر رانا نے اس حوالے سے پاکستان کو درپیش سکیورٹی خدشات کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’دہشتگردی کا مسئلہ بہرحال پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے اور پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ وہ طالبان پر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔‘
’پاکستان کو اس مسئلے کا حل خود ہی نکالنا ہو گا، اور جس قسم کی حمایت کی پاکستان کو توقع تھی، وہ ممکن نہیں نظر آ رہی۔ لیکن وسیع تر تناظر میں ٹی ٹی پی سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ افغانستان میں استحکام اور خطے میں پاکستان کو اس حوالے سے اپنی برتری کو قائم رکھنا ہے۔‘
کیا افغانستان میں شمولیتی حکومت کی تشکیل ممکن ہے؟
طالبان اس شمولیتی حکومت کے لیے کس قدر تیار ہیں جس پر پوری دنیا کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے۔
امریکہ، انڈیا، روس، چین اور پاکستان سب اپنے اپنے مفاد کے مطابق ایک شمولیتی حکومت چاہتے ہیں۔ کیا طالبان ان تمام ممالک کو اعتماد میں لے پائیں گے۔
ہرش پنت کا خیال ہے کہ ’اس وقت طالبان حکومت میں ایک جامع حکومت بنانا بہت مشکل ہے۔ اگر وہ چاہتے تو وہ پنجشیر میں تشدد کا استعمال کرنے کی بجائے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ یہ جھگڑا ابھی ختم نہیں ہوا۔‘
تاہم بین الاقوامی برادری شمولیتی حکومت کے قیام پر اس لیے زور دے رہی ہے کیونکہ طالبان خود بھی ایک جامع حکومت کے بغیر افغانستان کا کنٹرول نہیں سنبھال سکیں گے۔
اس کی وجہ سے خانہ جنگی کی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے اور معاشی ترقی اور غیر ملکی امداد ملنے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ اور اس صورتحال سے افغانستان میں چین کے معاشی مفادات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
طالبان کو کس قسم کے چیلنجز درپیش ہیں؟
یہ طالبان حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ حال ہی میں طالبان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان کی جانب سے طالبان کے نمائندے کے خطاب کی درخواست کی تھی۔
طالبان نے ابتدائی دنوں میں خواتین کے حقوق اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی تھی لیکن موجودہ صورتحال سے ایسے اشارے نہیں ملتے۔
طالبان کی اندرونی لڑائی اب منظرعام پر آ چکی ہے۔ کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے چند دنوں کے اندر، حکومت بنانے پر ملا برادر اور حقانی دھڑے کے درمیان اختلافات کی خبریں گرم تھیں۔
امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ملا برادر اچانک غائب ہو گئے۔ طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ بھی طویل عرصے سے غیر حاضر ہیں۔ اس سے گروپ کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
یہ سوال بھی اٹھتا رہا ہے کہ وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔
اس کے علاوہ روایتی نسلی اور قبائلی تنازعات بھی جاری ہیں۔ مشرق میں رہنے والے پشتون مضبوط ہو کر ابھرے ہیں اور جنوبی قبائل کے خلاف مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی وادی پنجشیر میں تشدد کے بعد ہزارہ برادری میں ایک مختلف ناراضی پائی جاتی ہے۔
اس حکومت کے 33 وزرا میں سے صرف تین وزرا اقلیتی گروہوں میں سے ہیں۔ ان میں سے دو تاجک نژاد اور ایک ازبک نژاد ہیں۔ حکومت میں شیعہ ہزارہ برادری کا کوئی وزیر نہیں ہے، جو سب سے بڑے نسلی گروہوں میں سے ایک ہے، اور عبوری کابینہ میں کوئی خاتون وزیر بھی نہیں ہے۔
پروفیسر سنجے بھردواج کا کہنا ہے کہ اندرونی تنازع کو پرسکون کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت کو بھی اپنے سخت گیر موقف کو ترک کرنا پڑے گا جو اتنا آسان نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘ان گروہوں کی تشکیل کی بنیاد تعصب ہے، اگر وہ اسے چھوڑ دیں گے تو ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر وہ لبرل موقف اپنائیں گے تو ان کے اندر سے دوسرا گروہ ابھر کر سامنے آئے گا۔‘
ماہرین کا خیال ہے کہ پہلے ان شدت پسند تنظیموں کا صرف ایک دشمن تھا یعنی امریکہ اور افغان حکومت کا اتحاد۔ تاہم اب چونکہ صورتحال بدل چکی ہے اس لیے اب ان کے درمیان اقتدار کی لڑائی ہو گی جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں، جب تک استحکام نہیں آتا، کسی بھی ملک کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔