افغانستان: طالبان حکومت کے تابع ایک نئے دور کا آغاز کیسا ہے
’ہم افغانستان میں تمام لوگوں کی شراکت داری پر مبنی حکومت بنا رہے ہیں۔‘ یہ جملہ طالبان کی زبانوں پر کافی عرصے سے چڑھا ہوا ہے۔
یہ وعدہ حال ہی میں کابل پہنچنے والے ملا برادر نے بھی کیا تھا۔ وہ کابل اپنی تنظیم کو بندوقوں سے عہدوں تک لے جانے آئے تھے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’ہم پُرامن انداز میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہم کوئی داخلی یا بیرونی دشمن نہیں چاہتے۔‘
مگر طالبان پر نظر رکھنے والے ماہرین، غیر ملکی حکومتیں اور امدادی تنظیموں کے سربراہان سبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کو ان کے الفاظ نہیں، اقدامات پر جانچا جائے۔
مگر ان پر سب سے زیادہ نظر افغانوں نے رکھی ہوئی ہے۔ ان کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
جس دن کابل میں افغان خواتین بہادری کے ساتھ بینرز اٹھائے احتجاج کر رہی تھیں اور اپنے حقوق اور اپنی نمائندگی کا مطالبہ کر رہی تھیں، اسی دن طالبان کی نئی حکومت کا اعلان کر دیا گیا۔
کیا یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ طالبان اب میڈیا کو سمجھتے ہیں۔ ان کے اعلان سے یہ خبریں غائب ہوگئیں کہ مظاہرے ختم کرنے کے لیے طالبان نے ہوا میں فائرنگ کی، رائفل کے بٹوں اور ڈنڈوں سے مطاہرین کو مارا۔
مگر اتنے بڑے موقع پر انھوں نے ایک چھوٹی سی، سادہ سی تقریب کی۔ یہ سیٹ اپ پریس کانفرنس کا تھا۔ لیکن اس نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کر دیا اور جو طالبان کے وعدوں کو پکڑے بیٹھے تھے، ان کی امیدیں چکناچور ہوگئیں۔
شراکت داری کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس میں صرف طالبان تھے۔ طالبان تحریک کا پرانا ڈھانچہ، اس کے پرانے کمیشن، نائب اور امیر سب کو دنیا کی حکومتوں کے ڈھانچے میں ڈھال لیا گیا ہے۔
‘امر بالمعروف والنہی عن المنکر‘ کی معروف وزارت جس پر بہت تنقید کی جاتی تھی، واپس آ گئی ہے۔ خواتین کے امور کی وزارت ختم ہوگئی ہے۔
حکومت میں زیادہ تر پشتون ہیں، صرف ایک تاجک اور ایک ہزارہ جو کہ دونوں طالب ہیں۔ ایک بھی خاتون کابینہ میں نہیں ہے، نائب بھی نہیں ہے۔
نئی حکومت پرانے لوگوں کی ہے۔ اس میں نئی نسل کے ملا اور عسکری کمانڈرز ہیں۔
حکومت میں وہ لوگ لوٹے ہیں جو 1990 کی دہائی میں طالبان دور میں برسرِ اقتدار تھے، بس ان کی داڑھیاں سفید ہو گئی ہیں۔
گوتانامو بے کے سابق قیدی، امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشتگرد قرار پانے والے، کئی محاذوں پر لڑے ہوئے جنگجو، خود کو امن ساز کہنے والے جو کئی دارالحکومتوں میں میزوں پر بیٹھے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ یہ ہیں طالبان ٹو پوائنٹ او!
عبوری کابینہ کے سربراہ ملا حسن اخوند ہیں جو کہ طالبان کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ پر ہیں۔
عبوری کابینہ میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہیں۔ ان کا تو چہرہ ہی دنیا نے دیکھا۔ سوائے ایک تصویر میں جس میں انھوں نے بھورے رنگ کی ایک شال پہنی ہوئی ہے۔
ایف بی آئی نے ان کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر رکھی ہوئی ہے۔ حال ہی میں انھوں نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے امن کی اپیل کی۔
اس مضمون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی فیملی کے نام پر رکھا گیا حقانی نیٹ ورک افغان عام شہریوں کے خلاف بدترین حملوں میں ملوث رہا ہے۔
وزیر دفاع ملا یعقوب ہیں، جو کہ طالبان کے بانی اور پہلے امیر ملا عمر کے بڑے بیٹے ہیں۔
مگر یہ تو صرف عبوری کابینہ ہے۔
کابل میں پریس کانفرنس میں صحافیوں کے پے در پے سوالوں کے درمیان کہا گیا تھا کہ مزید عہدوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
کلچر کمیشن کے نائب سربراہ احمد اللہ واثق نے میرے ساتھی سکندر کرمانی کو بتایا تھا کہ ’ہم نے تمام وزارتوں اور نائبین کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ فہرست بڑھائی جائے۔‘
یہ وہ موقع ہو سکتا ہے جب اگلی صفوں میں لڑنے والوں کو نوازا جائے۔ ان میں سے بہت سارے کابل آئے ہیں ‘اصل اسلامی نظام‘ کو خوش آمدید کہنے کے لیے۔
اور یہ ڈھانچہ ایک انتہائی دھیان سے بنایا گیا سمجھوتہ بھی لگتا ہے۔ ملا اخوند کامیاب ابھرے ہیں۔ کئی لوگوں کی پیش گوئی تھی کہ ملا برادر سربراہ ہوں گے، مگر وہ ملا اخوند کے نائب ہیں۔
طالبان مذاکرات کار شیر محمد عباس ستانکزئی نائب وزیر خارجہ ہیں۔ 20 سال پہلے بھی ان کا یہی عہدہ تھا۔
ان کا ایک جملہ میرے کانوں میں آج بھی گونجتا ہے۔ فروری 2020 میں جب طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہو گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ’آپ ان افغانوں کو کیا کہیں گے جو کہ آپ کے اقتدار سنبھالنے سے خوفزدہ ہیں؟‘
انھوں نے پُرجوش انداز میں جواب دیا کہ ‘میں ان سے کہوں گا کہ ہم وہ حکومت بنائیں گے جو اکثریت کو منظور ہو۔‘ لفظ اکثریت پر زور تھا۔
یعنی روایتی اقدار کی حکومت۔ ان مغربی خیلات کی حکومت نہیں جن کا وہ مذاق اُڑاتے ہیں۔
یہ وہ دن تھے جب افغانوں کو امید تھی کہ جنگ کا بدترین حصہ ختم ہو چکا ہے۔ اسی سال جب بین الافغان مذاکرات قطر میں شروع ہوئے تو طالبان نے اس بات کی طرف اشارہ دیا کہ اب وہ اسلامی امارات بنانے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس معاملے کی نزاکت کا پتا تھا۔
خواتین مذاکرات کاروں سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ خواتین حکومت میں کوئی بھی عہدہ بشمول حکومتی وزیر لے سکتی تھیں، سوائے صدر کے۔
وہ تب تھا۔ یہ اب ہے۔ طالبان اقتدار میں ہیں۔
سابق رکنِ اسمبلی اور ایسے بہت سے دعوے سننے والی مذاکرات کار فوزیہ کوفی تنبیہ کرتی ہیں کہ ‘جو لوگ افغانستان کے سماجی تانے بانے پر توجہ نہیں دیتے، انھیں شدید مسائل کا سامنا ہوگا۔‘
اور یہ چیلنج دنیا بھر میں دارالحکومتوں میں احتجاج اور وہاں سے آنے والے بیانات کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
امریکی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ دنیا باریکی سے دیکھ رہی ہے۔ روسی اخبار نیزاویسیمایا کے اداریے کا کہنا ہے کہ ’طالبان کو بین الاقوامی برادری کے تسلیم کرنے کا امکان بہت کم ہے۔‘
اور یہ چیلنج طالبان کی نوجوان نسل سے بھی آ سکتا ہے۔
ایک نوجوان طالب نے مجھے کہا کہ ’ہمیں تاریخ کے اسباق سے سیکھنا چاہیے۔‘
اس کا اصرار تھا کہ اگر اب طالبان نے حاوی ہونے کی کوشش کی تو انھیں پھر سے گرایا جا سکتا ہے۔ ایک اور نے اس پر پریشانی کا اظہار کیا کہ صرف مذہبی امور میں تعلیم حاصل کیے ہوئے لوگوں کو اتنے سارے عہدے دیے جا رہے ہیں۔
عبوری کابینہ کے اعلان کے بعد جلد ہی امیر نے کہا کہ تمام ٹیلنٹ والے اور پیشہ وارانہ لوگوں کے ٹیلنٹ، ان کے کام اور ان کی رہنمائوں کے لیے ان کی اشد ضرورت ہے۔
مگر ان کے اعلانات میں ایک بات واضح تھی کہ بنیادی ہدف نظام کو مضبوط کرنا ہے، اسلامی امارات کے نظام کو۔ یہ اولین ترجیح ہے۔
گذشتہ دنوں میں نے کئی قسم کے طالبان سے پوچھا ہے کہ ان کے خیال میں قیادت نرم ہوگی یا سخت تر۔ طاقتور ہوائیں انھیں کئی مختلف سمتوں میں موڑ سکتی ہیں۔
دنیا کی بڑی امداری ایجنسیاں جو کہ اس حکومت کا تقریباً 80 فیصد بجٹ دیتی ہیں، باریکی سے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ میں امدادی کارروائیوں کے سربراہ مارٹن گرفتھس نے مجھے بتایا کہ ’وہ (افغانستان) انتہائی مشکلات ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ سینیئر حکام نے ان سے مشورے بھی مانگے ہیں۔
افغانستان کے نئے لیڈران دنیا بھر کی جہادی تنظیموں کی نظروں میں بھی ہیں۔ وہ اس نئی ریاست سے خوش ہیں جو شریعت کی پابند اسلامی حکومت کے طور پر بنائی گئی ہے۔
اب افغانستان کے ناکام ہونے کے خطرات بہت، بہت زیادہ ہیں۔ دہشتگردوں کے لیے محفوظ مقامات کی تنبیہ، انسانی حقوق کی پریشانی، بھوک اور غربت، یہ سب کچھ بہت سے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرے گا وہ انہی لوگوں کے ساتھ کام کر لیں جو کہ ماضی سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ نیا مستقبل تلاش کریں۔
مگر بات جو قائم رہے گی وہ ہے، اقدامات اہم ہیں، الفاظ نہیں۔