افغانستان کا بحران: جو بائیڈن کے ساتھ یورپ کے تعلقات کیسے خراب ہوئے؟
امریکہ اور یورپ میں اختلافات کا سلسلہ جاری ہے اور افغانستان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے کچھ یورپی رہنماؤں کو صدر جو بائیڈن سے منسلک اپنی توقعات پر نظر ثانی کرنی پڑ رہی ہے۔ اب انھیں ایک ایسے مستقبل کے بارے میں سوچنا پڑ رہا ہے جس میں ان کا امریکہ پر انحصار نہ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سخت گرفت والے مصافحے سے لے کر صدر بائیڈن کے کندھے پر ہاتھ رکھنے تک، ایمینوئل میکخواں کے مبارکباد دینے کے طریقہ میں ایک کہانی پنہاں ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یورپی یونین کے رہنما امریکی انتظامیہ میں تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں۔
مئی 2017 میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں فرانسیسی صدر نے اپنی انگلیوں سے صدر ٹرمپ کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا ‘یہ معصومانہ فعل نہیں تھا’ صدر میکخواں نے بعد میں کہا کہ ‘میں اپنے دو طرفہ مکالموں میں کوئی بات جانے نہیں دوں گا۔‘
چار سال گزرنے کے بعد حالیہ جی 7 کے سربراہ اجلاس میں، جہاں جو بائیڈن بطور امریکی صدر پہلی بار شامل ہوئے، ایک بار پھر صدر میکخواں توجہ کا مرکز بن گئے۔ جیسے ہی کیمروں نے موقع کی تصاویر لینا شروع کیں وہ صدر بائیڈن کے کندھوں پر اپنا بازو ڈالے ساحل سمندر پر چلتے دکھائی دیے۔ اُن کی حرکات و سکنات میں تبدیلی واضح تھی، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بازو سے بازو ملائے نظر آئے۔
لیکن یورپ بھر کے دارالحکومتوں میں، لندن سے برلن تک، افغانستان کے معاملے نے جو بائیڈن کے دور کی خوش کُن شروعات کو تلخ بنا دیا ہے۔
یہ صرف انخلا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ امریکہ کی جانب سے اتحادیوں کے ساتھ کو آرڈینیشن کے فقدان کی وجہ سے ہے جس نے انھیں نالاں کر رکھا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب نیٹو مشن 36 ممالک کے فوجیوں پر مشتمل تھا اور جن میں سے تین چوتھائی غیر امریکی تھے۔
اس صورتحال ہی کی وجہ سے انخلا کے لیے بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورتحال پیش آئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد افغانستان میں جرمن افواج کی تعیناتی ملک کا پہلا بڑا جنگی مشن تھا، لہٰذا جن حالات میں اس کا اختتام ہوا اس بارے میں گہری مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس مہینے کے آخر میں ہونے والے انتخابات سے قبل جرمنی کے چانسلر کے لیے قدامت پسند امیدوار ارمین لاشیٹ نے امریکی انخلا کو ‘نیٹو کی بنیاد کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی شکست’ قرار دیا۔
چیک صدر میلوس زیمان نے اسے ‘بزدلی’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘امریکیوں نے ایک عالمی رہنما ہونے کا وقار کھو دیا ہے۔‘
سویڈن کے سابق وزیر اعظم کارل بلڈٹ نے بی بی سی کو بتایا ‘جب جو بائیڈن آئے تو توقعات بہت زیادہ تھیں، شاید بہت ہی زیادہ، وہ غیر حقیقی تھیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ان کا یہ کہنا کہ امریکہ واپس آ گیا ہے، نے ہمارے تعلقات میں سنہری دور کی طرف اشارہ کیا۔‘
پچھلے سال پیو ریسرچ سینٹر کے ایک جائزے سے پتا چلا کہ ایسے جرمن شہری جو امریکی صدر پر عالمی معاملات میں صحیح اقدامات کرنے پر اعتماد رکھتے ہیں اُن میں صدر ٹرمپ کے دور میں 10 فیصد سے بڑھ کر جو بائیڈن کے دور میں اعتماد 79 فیصد ہو گیا۔ فرانس میں بھی اعتماد کی شرح تقریباً اتنی ہی تھی۔
سنہ 2019 تک فرانس کی یورپ کے امور کے لیے وزیر نیٹلی لوئیسو کا کہنا ہے کہ ‘یورپی یونین کے کئی ممالک صورتحال کو قبول کرنے سے انکار کی حالت میں تھے۔
’انھوں نے سوچا کہ انھیں ٹرمپ کے دور ختم ہونے تک انتظار کرنا چاہیے اور پھر ہم واپس پرانے معمول پر چلے جائیں گے۔ لیکن صورتحال اب پہلی جیسی نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے لیے وہ لمحہ ثابت ہو گا جب ہمیں اس بات کا احساس ہوجائے گا۔‘
یورپ کے رہنماؤں کے لیے امریکی انخلا کا طریقہ اور جو بائیڈن کا بیان کہ امریکہ اب ‘دوسرے ممالک کی تعمیر نو’ کے لیے فوج نہیں بھیجے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی ‘امریکہ فرسٹ’ پالیسی کی یاد دلاتا ہے۔
لیکن جہاں ایک طرف یورپی یونین کے دارالحکومتوں کے ساتھ واشنگٹن کے رابطوں میں کمی پر مایوسی ہے، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ اس سے امریکی انتظامیہ میں تبدیلی پر وسیع پیمانے پر خوشی کی لہر کو کتنی ٹھیس پہنچے گی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کی مشیر اور ہارورڈ میں وزٹنگ پروفیسر نتھالی توکی کا کہنا ہے کہ ‘ٹرمپ کے دور میں بنیادی اختلافات کا خارجہ پالیسی کے مخصوص فیصلوں سے کم تعلق تھا اور یہ زیادہ اہم تھا کہ اچانک ہمارے اقدار مشترکہ نہیں رہے تھے۔‘
ٹرمپ ازم کا اصل دھچکہ صرف ‘امریکہ فرسٹ’ ہی نہیں تھا بلکہ ایسا لگتا تھا کہ وہ پوتن اور شی جیسے رہنماؤں سے بہتر تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ افغانستان میں ہم ایک ہی سوچ رکھتے ہیں اس بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھا تھا۔
جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یورپ میں احساس پیدا ہو رہا ہے کہ جیسے جیسے امریکہ دنیا سے پیچھے ہٹ رہا ہے وہ امریکی اقدار کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ پرعزم ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری جگہوں کا کیا ہو گا؟
درحقیقت کچھ لوگ افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اس دیرینہ رجحان کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ اکیلے ہی کرے گا۔ نتھالی توکی سوال کرتی ہیں کہ ‘کیا یہ نیا ہے؟’۔ یہ ہمیشہ سے امریکہ کے بارے میں یورپ کی شکایت رہی ہے اور اب امریکہ نے بغیر کوآرڈینیشن کے انخلا کیا ہے۔
یہ احساس کہ یورپ پہلے بھی کئی بار اس موڑ پر آیا ہے اور اس احساس نے ‘سٹریٹجک خودمختاری’ کے بارے میں بحث کی طرف دوبارہ توجہ پھیر دی ہے۔
یہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کا ایک طویل عرصے سے مقصد رہا ہے، خاص طور پر فرانس کا، جو اکثر امریکہ کے ساتھ زیادہ مساوی جغرافیائی سیاسی توازن کی خواہش رکھتا ہے۔
سابق فرانسیسی وزیر نیٹلی لوئیسو کا کہنا ہے کہ ‘کچھ دوسرے ممالک، جیسے برطانیہ اور جرمنی نے ہمیشہ سوچا کہ وہ زیادہ تر امریکہ پر انحصار کر سکتے ہیں۔ تو یقیناً وہ ڈر رہے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے۔ لیکن ہم نے اکثر کہا ہے کہ ہمیں نیٹو کے کام کرنے کے طریقے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
افغانستان کی صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دیگر معاملات میں بھی ٹرانس ایٹلانٹک تعلقات میں کشیدگی آ رہی ہے جو اس احساس کو گہرا کر رہی ہے کہ یورپ میں جو بائیڈن کے لیے نرم گوشہ ختم ہو رہا ہے۔
یورپین مصنوعات پر ٹرمپ دور کی تجارتی محصولات کو مکمل طور پر اٹھانے میں ان کی انتظامیہ کی ناکامی اور کووڈ ویکسین کے لیے پیٹنٹ لانے کا ان کا مطالبہ بظاہر یورپی یونین سے مشاورت کے بغیر لیا گیا۔ اور یورپی یونین کے ممالک پر وبا کی وجہ سے لگنے والی سفری پابندیاں اٹھانے سے ان کے انکار نے مزید اعتراضات کو جنم دیا ہے۔
یورپی کمیشن کے نائب صدر مارجرائٹس شیناس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اگلے ہفتے اپنا امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا ہے اور کہا کہ ‘مجھے سفری پابندیوں میں دوسری جانب سے کمی نہ لانا منصفانہ نہیں لگتا۔‘ یورپی یونین نے اب امریکہ کو بھی اپنی سفری پابندیوں میں ‘محفوظ فہرست’ سے ہٹا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی طرف اشارے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کے خدشات کے دو پہلو ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ افغانستان میں افراتفری مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے رہی ہے، جو 2015 کی یاد دوبارہ تازہ کر رہی ہے، جب شام اور دیگر جگہوں سے بھاگ کر دس لاکھ سے زائد افراد یورپ پہنچے تھے۔
اور دوسرا یہ کہ کیا امریکہ خود پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے، ایک طرف جرمنی ہے جو اینگلا مرکل کے بغیر ہوگا اور دوسری جانب فرانس جس کے صدر کو دوبارہ انتخابات کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال ایک طاقت کا خلا پیدا کرتی ہے جسے روس اور چین پہلے ہی پُر کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ مغرب کے غیظ و غضب کی پروا کیے بغیر بیجنگ ایسے اقدامات کو تیز کرے گا جن سے تائیوان کو خطرات لاحق ہیں۔
کارل بلڈٹ کا کہنا ہے کہ ‘ایک وقت تھا جب امریکہ عالمی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی بات کرتا تھا۔‘
لیکن یہ وہ الفاظ نہیں ہیں جو اب وائٹ ہاؤس سے سنائی دیتے ہیں۔ ٹرانس ایٹلانٹک تعلقات کی بحالی کی توقعات ختم ہو رہی ہیں۔ اور اب اس بات کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نھیں رہا کہ امریکہ اپنی راہ پر الگ چلے گا۔