پاک ایران سرحدی علاقے چاغی میں لوگ اپنے کھجوروں کے

پاک ایران سرحدی علاقے چاغی میں لوگ اپنے کھجوروں کے

پاک ایران سرحدی علاقے چاغی میں لوگ اپنے کھجوروں کے درخت کیوں جلا رہے ہیں؟

’ہم بلوچوں میں ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ مچ (کھجور کا درخت) یا بچ (بیٹا) ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی کا بیٹا نہیں اور اس کی ملکیت میں کجھور کے درخت ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ان سے اچھی آمدن کما کر سکون سے زندگی جی سکتا ہے۔‘

عبدالستار یوں تو سرکاری ملازم ہیں لیکن انھیں ورثے میں کھجور کے اتنے درخت ملے جن کی درست تعداد بھی انھیں معلوم نہیں تاہم وہ اپنی حدود سے ضرور واقف ہیں۔

عبدالستار یارمحمدزئی گوالشتاپ کے رہائشی ہیں۔ یہ علاقہ نوکنڈی سے قریباً 60 کلومیٹر جنوب میں ایرانی سرحد سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔۔ یہاں سے رات کے وقت ایرانی سرحدی چیک پوسٹوں کی سرچ لائٹس مدہم مدہم روشنی میں نظر آتی ہیں۔

بلوچستان کے ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین سے آر سی ڈی شاہراہ پر 165 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد آپ نوکنڈی پہنچتے ہیں۔ یہاں سے گوالشتاپ تک جانے والا راستہ کچا اور ویران ہے۔ تیز ہواؤں والے دھول اڑاتے اس راستے پر اب شاذ و نادر ہی ایرانی تیل سمگل کرنے والی نیلی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالستار نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کھجور کے درخت 15 سے 16 کلومیٹر تک پاک ایران سرحد کے دونوں جانب پھیلے ہوئے ہیں جہاں ہر خاندان کی ملکیت میں ہزاروں درخت آتے ہیں اور کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جن کے ملکیتی درخت سرحد کے دونوں جانب واقع ہیں۔

ایسا علاقہ جہاں کجھور کے درختوں کو پانی نہیں دینا پڑتا

کھجور کے درخت

موبائل نیٹ ورک سمیت زندگی کی بیشتر بنیادی سہولیات سے محروم اس علاقے کی مکینوں کی گزر بسر ایرانی سرحد پر پیٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، ایل پی جی گیس اور خوردنی اشیا کی سمگلنگ سے ہوتی تھی لیکن باڑ لگنے کے بعد ایرانی سرحد پر انحصار انتہائی محدود ہوکر رہ گیا ہے لہٰذا اب کھجور کی محدود ہوتی فصل ہی ان کا سہارا ہے۔

عبدالستار کے مطابق ان کا علاقہ ہامون ماشکیل کے قریب واقع ہے جہاں زیر زمین پانی پانچ سے آٹھ فٹ کی گہرائی پر ہے جس کی وجہ سے کھجور کے درختوں کو زیادہ سے زیادہ ایک سال تک کنویں سے پانی دینے کے بعد پانی کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس عرصے میں ان کی جڑیں زیر زمین پانی تک پہنچ کر ہمیشہ کے لیے نشوونما پاتی ہیں۔

تاہم ان درختوں کی مناسب صفائی اور دیکھ بھال کے لیے مطلوبہ بندوبست نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا وسیع رقبے پر پھیلاؤ بھی ہے۔

گوالشتاپ صحرا اور کھلے میدان میں واقع ایک بڑا نخلستان ہے جہاں پہنچنے کے بعد کئی مقامات پر کھجور کے جلے ہوئے درخت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں پر یہ درخت خشک ہونے کے بعد زمین بوس ہوچکے تھے جبکہ کچھ جگہوں پر ان کی بکھری شاخیں ریت کی ٹیلوں کے نیچے دب چکی تھیں۔

اس علاقے میں اکثر و بیشتر ریت اڑاتی ہوا اس قدر تیز ہوا چلتی ہے کہ ریت میں پنہاں انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرے اتنی تیزی سے اڑ اڑ کر چہرے سے ٹکراتے ہیں کہ آپ ہوا کے رخ کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے۔

کھجور کے درختوں کا دشمن چوہا

کھجور کے درخت

کھجور کے درختوں کی حالت زار ایسی کیوں ہو گئی؟ عبدالستار یارمحمدزئی کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں گذشتہ کچھ برسوں سے تیز دانتوں والے ایک ریگستانی چوہے نے کھجور کے درختوں پر حملے کر کے انھیں اپنی خوراک بنانا شروع کر دیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘تقریباً 2005 سے ایک طرح کے چوہے کہیں سے آئے ہیں جو کبھی ان درختوں کی جڑوں اور کبھی بالائی حصے میں سوراخ کرکے نرم حصے کو کھا جاتے ہیں، جس کی وجہ سے درخت پہلے خشک ہوتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔

اس علاقے کی زمین نرم ہے، چنانچہ ان چوہوں نے زیر زمین جگہ بنا لی ہے اور زیادہ تر وہ باہر نظر نہیں آتے کہ کوئی اُنھیں دیکھ کر مار سکے۔

عبدالستار کے مطابق ‘ہمیں تب معلوم ہوتا ہے جب کھجور کے درخت کی شاخیں خشک ہو کر گرچکی ہوتی ہیں۔ پھر ہمیں اس درخت کو جلانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے مرجاتا ہے، پھر بھی ان (جلے ہوئے درختوں) میں سو میں سے بمشکل چند ایک بچ جاتے ہیں اور ان چھوٹے (کھجور کے) درختوں کو یہ چوہا جڑ سمیت کھا جاتا ہے.‘

ایک درخت کو اپنی خوراک بنانے کے بعد چوہے کو دوسرے درخت تک زمین کے اوپر سے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ نرم زمین کے اندر سوراخ کرکے دوسرے درخت تک پہنچ جاتا ہے اور پھر دوسرے درخت کی بھی شاخیں گرجانے کے بعد درخت کے مالک کو معلوم ہوتا ہے کہ درخت مر چکا ہے۔

عبدالستار بتاتے ہیں کہ یہاں کے لوگ غریب ہیں جن کا ذریعہ معاش کھجور کی فصل ہے اس کے علاوہ یہاں کچھ بھی نہیں۔

’پہلے ایرانی تیل اور گیس آتا تھا اب (باڑ لگنے کے بعد) وہ بھی بند ہوچکا ہے۔ کھجور کے درخت ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور لوگ اس حوالے سے بہت پریشان ہیں۔‘

انھوں نے حکومت سے اس معاملے پر توجہ دینے اور مدد کی درخواست کی ہے تاکہ ’اس بلا اور مصیبت سے جان چھوٹ سکے۔‘

چوہوں کا شکار بننے والے ہزاروں درخت خشک ہو کر زمین بوس ہو چکے ہیں

کھجور کے درخت

گوالشتاپ کے ایک اور رہائشی حاجی نذر محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ راجے اور وادیان سمیت گرد و نواح میں بھی چوہوں نے کھجور کے درختوں کو نشانہ بنایا۔

ان کے مطابق چوہوں کا شکار بننے والے ہزاروں درخت خشک ہو کر زمین بوس ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے آباؤ و اجداد نے یہاں کھجور کے دو تین لاکھ درخت لگائے جو مختلف بیماریوں سمیت چوہوں کے حملے کے سبب کم ہوتے گئے۔

اُنھوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں زندگی کی بنیادی ضروریات بشمول بجلی اور پانی تک نہیں وہ دوسرے علاقے سے میٹھا پانی لاتے ہیں کیونکہ گوالشتاپ کا زیر زمین پانی کھارا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں دوسری کوئی فصل نہیں ہوتی اسی لیے حکومت کھجور کے درختوں کو ریگستانی چوہے سے بچانے کے لیے اقدامات کرے تاکہ باقی ماندہ درخت محفوظ رہ سکیں۔

درخت جلانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سب وہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ متاثرہ درخت میں موجود چوہے جل کر ختم ہوں اور باقی درخت بچ جائیں لیکن درجنوں درخت جلانے کے باوجود چوہے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

اُنھوں نے شکایت کی کہ وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے حکومت اور عوامی نمائندوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرتے آ رہے ہیں لیکن حکومتی اہلکار صرف سروے کر کے چلے جاتے ہیں، اس کے بعد کوئی بھی ان کی مدد کرنے نہیں آتا۔

ان کے مطابق ایرانی حکومت نے اپنے علاقے میں چوہوں کے حملے کافی حد تک کم کر دیے ہیں، اور اس کے علاوہ وہاں کے باغبانوں کو حکومت بیشتر سہولیات فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے وہاں پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے.

محکمہ زراعت توسیعی چاغی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ظہور احمد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ گوالشتاپ، راجے اور وادیان کے علاقے میں 30 ہزار ہیکٹرز پر کھجور کے درخت پھیلے ہوئے ہیں جہاں تقریباً 20 فیصد چوہوں کی حملے کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ان کے مطابق محکمہ زراعت کے دو افسران سمیت چار رکنی ٹیم نے رواں سال پانچ جولائی کو گوالشتاپ، راجے اور وادیان کا دورہ کر کے کھجور کے درختوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جس کی رپورٹ اُنھوں نے ڈائریکٹر زراعت توسیعی اور ڈائریکٹر پلانٹ پروٹیکشن بلوچستان کو ارسال کردی جو بعد ازاں وفاقی پلانٹ پروٹیکشن کو بھیج دی گئی۔

کھجور کے درخت

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ایرانی سرحد سے منسلک علاقوں میں چوہوں کا مسئلہ کئی سالوں سے درپیش ہے تاہم 2005 سے اس کی شدت انتہائی زیادہ ہو گئی۔ اُنھوں نے بتایا کہ جب بھی خشک سالی کی شدت زیادہ ہوتی ہے تو ان چوہوں کا حملہ بھی شدید ہوتا ہے۔

ان کے مطابق دیگر وجوہات میں سب سے اہم وجہ خود علاقے کے لوگ بھی ہیں جنھوں نے چوہوں کی تعداد کو متوازن رکھنے والے نظام قدرت کو بگاڑ دیا ہے۔ ان کے مطابق الو ایک ایسا پرندہ ہے جس کی خوراک چوہا ہے لیکن اس علاقے کے لوگ اس پرندے کو منحوس سمجھ کر مار دیتے ہیں اور اب یہ پرندہ آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔

اُنھوں نے بتایا کہ گیدڑ، لومڑی اور سانپ چوہے کا شکار کرتے ہیں اور ان تمام جانداروں کو مقامی لوگوں نے مار کر قدرتی نظام میں خرابی پیدا کی ہے۔

ان کے مطابق 2009 میں شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے ایک تحقیقاتی ٹیم نے اس علاقے دورہ کیا تھا جنھوں نے زنک سلفایڈ کی گولیاں چوہوں کے بلوں کے پاس رکھیں، جنھیں کھا کر چوہے مر جاتے تھے لیکن ساتھ ہی بکریوں نے بھی یہ کھانی شروع کر دیں جس کی وجہ سے کئی بکریاں بھی مر گئیں۔

ان کے مطابق چوہوں کے بلوں کے اندر ایلومینیم فاسفائیڈ کی گولیاں بھی رکھی گئی جو چوہوں کے بنائے ہوئے سوراخوں میں زہریلا دھواں چھوڑتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ بھی چوہوں کو مارنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے لیکن مقامی لوگ یہ خرید نہیں سکتے لہٰذا ان کو نہ صرف تربیت دینے کی ضرورت ہے بلکہ علاقے میں بجلی فراہمی کے لیے سولر سسٹم بمعہ قطراتی نظام آبپاشی متعارف کرنا چاہیے۔

اُنھوں نے کھجور کے درخت بھی مناسب فاصلے پر لگائے جا سکتے ہیں جس کے لیے علاقے کے لوگوں کو جدید کاشتکاری کی طرف لانا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ جدید طریقہ کاشت کو اپنائیں گے تو کھجور کی پیداوار بھی دو سے تین گنا بڑھ جائے گی اور اس کے علاوہ ہامون ماشکیل کی وجہ سے مزید ہزاروں ایکڑ زمین آباد کر کے مزید ہزاروں ٹن کھجور پیدا کی جاسکتی ہے۔

ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن عارف شاہ کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ کھجور کے درخت پاک ایران سرحد کے دونوں جانب پھیلے ہوئے ہیں اس لیے صرف ایک ملک چوہوں پر مکمل طور پر قابو نہیں پا سکتا، اور اس کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔

کھجور کے درخت

اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اعلیٰ حکام کو اس کے متعلق مراسلہ بھیج دیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چاغی میں واقع گوالشتاپ، راجے اور وادیان کے علاوہ کہیں سے بھی ریگستانی چوہوں کی موجودگی رپورٹ نہیں ہوئی اس لیے اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ حکام بالا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جاسکے۔

واضح رہے کہ پاکستان دنیا بھر میں کجھور برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں کجھور کی 60 فیصد پیداوار بلوچستان میں مکران ڈویژن اور گرد و نواح کے علاقوں سے ہوتی ہے۔

یہاں مختلف اقسام کی کھجوروں کی کاشت ہوتی ہے جن کی بین الاقوامی سطح پر کافی شہرت بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *