طالبان کا امریکی صدر بائیڈن کو جواب ’چاہیں تو طالبان دو ہفتوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں
ماسکو کے دورے پر جانے والے طالبان کے وفد کے سربراہ شہاب الدین دلاور نے امریکی صدر جو بائیڈن کے حالیہ تبصرے کے جواب میں کہا ہے کہ اگر طالبان چاہیں تو دو ہفتوں میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔
جمعرات کو صحافیوں کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے امکانات پر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں تین لاکھ مضبوط افغان افواج پر اعتماد ہے۔
انھوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کی تھی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس قریب 75 ہزار جنگجو ہیں جن کا مقابلہ افغانستان سکیورٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں۔
طالبان نے اسے امریکی صدر جو بائیڈن کی ذاتی رائے قرار دیا ہے اور ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران گروپ کے رکن شہاب الدین دلاور کا کہنا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ دو ہفتوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔
شہاب الدین دلاور کا کہنا تھا کہ غیر ملکی افواج کو امن سے افغانستان چھوڑنے کا موقع ملا ہے۔
شہاب الدین دلاور کی سربراہی میں طالبان کا ایک وفد جمعرات کو روسی دارالحکومت ماسکو پہنچا تھا۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ دورہ روس کی سرکاری دعوت پر کیا ہے۔
چند روز قبل طالبان کا ایک وفد ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ایرانی حکومت کی دعوت پر تہران بھی گیا تھا۔
’طالبان جنگجوؤں کا افغانستان سکیورٹی فورسز سے مقابلہ ممکن نہیں‘
یاد رہے کہ جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی آپریشن 31 اگست کو اختتام پذیر ہوجائے گا۔ امریکی صدر نے واضح کیا کہ وہ ‘امریکیوں کی ایک اور نسل کو جنگ کے لیے افغانستان نہیں بھیجیں گے۔’
بائیڈن نے یہ خطاب ایک ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب افغانستان میں پُرتشدد واقعات بڑھ رہے ہیں اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ طالبان متعدد علاقے اپنے قبضے میں لے چکے ہیں۔
انھوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس قریب 75 ہزار جنگجو ہیں جن کا مقابلہ افغانستان سکیورٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ایک متحدہ حکومت پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرلے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ انھیں طالبان پر اعتماد نہیں مگر ان کے لیے افغان فوج کی صلاحیت قابل اعتماد ہے۔ ‘طالبان شمالی ویتنام کی فوج نہیں۔ صلاحیت کے اعتبار سے ان کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔’
بائیڈن نے مزید کہا کہ ‘ایسے حالات پیدا نہیں ہوں گے کہ ہم دیکھیں افغانستان میں امریکی سفارتخانے کی چھت سے لوگوں کو (ہیلی کاپٹر کے ذریعے) بچایا جائے۔’
واضح رہے کہ امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کے باوجود امریکہ کے 650 سے ایک ہزار فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے تاکہ امریکی سفارتخانے، کابل ایئر پورٹ اور اہم حکومتی عمارتوں کی حظاظت کی جاسکے۔
بائیڈن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے مترجموں اور دیگر افراد کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ‘انھیں امریکہ میں پناہ دینے کے لیے 2500 خصوصی ویزے جاری کیے گئے ہیں مگر اب تک صرف نصف امریکہ آسکے ہیں۔’
گذشتہ ماہ بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں افغان رہنماؤں کو بتایا تھا کہ افغانستان کے لیے امریکی امداد جاری رہے گی۔
’مشن اسامہ کی ہلاکت کے وقت کامیاب ہو گیا تھا‘
اس جنگ کی نگرانی کرنے والے چوتھے امریکی صدر نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی رفتار کا بھی دفاع کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے کئی زندگیاں بچ گئیں۔
11 ستمبر 2001 کے دہشتگرد حملوں کے بعد امریکی افواج نے قریب 20 سال تک عسکریت پسندوں کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑی۔
بائیڈن نے رواں سال کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر 2021 کو تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے وطن واپس بلا لیا جائے گا۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2021 تک امریکی افواج واپس بلانے کے لیے طالبان سے معاہدہ کیا تھا۔ لیکن بائیڈن نے جنوری میں اپنا عہدہ سنبھالنے پر اس میں تاخیر کی۔
بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اپنی تقریر میں کہا کہ ‘افغانستان میں ایک مزید سال لڑائی اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے ہم وہاں ہمیشہ کے لیے لڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔‘
جب رپورٹرز نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ امریکی فوجیوں کی واپسی پر یہ کہیں گے کہ ‘مشن کامیاب رہا؟’ تو ان کا جواب تھا کہ ‘نہیں، (اس پر) مشن کامیاب نہیں ہوا۔ مشن تب کامیاب ہوگیا تھا کہ جب ہم نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔ اور اب دنیا کے اس خطے سے دہشتگردی نہیں پھیل رہی۔’
بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت، القاعدہ کا خاتمہ اور امریکہ پر مزید حملوں کو روکنا تھے۔ ’ہم افغانستان ملک بنانے نہیں گئے تھے۔ یہ افغانستان کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تنہا اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں اور یہ کہ انھوں نے اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔’
امریکہ کی 11 ستمبر کی ڈیڈلائن سے قبل ہی غیر ملکی افواج کی اکثریت نے افغانستان چھوڑ دیا ہے۔ اب وہاں سکیورٹی کی تمام ذمہ داری افغان فوج کی ہے۔
صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کو روکنے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے جوان مکمل قابلیت رکھتے ہیں۔ لیکن ایسی اطلاعات سامنے آئے ہیں کہ ہزاروں افغان فوجیوں نے لڑائی سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں میں پناہ لے لی ہے۔
گذشتہ ہفتے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ملک میں حالیہ پُرتشدد واقعات کے ذمہ طالبان نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان فوجیوں سے مذاکرات کیے گئے جس میں انھوں نے لڑنے سے انکار کیا اور بعد ازاں طالبان نے کئی ضلعوں میں حکومت بنائی۔
بورس جانسن: برطانوی فوجیوں کی بڑی تعداد افغانستان سے نکل چکی ہے
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ افغانستان میں نیٹو کے مشن پر مامور تمام برطانوی فوجی وطن واپس پہنچ رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر وہاں سے نکل چکے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انخلا کے لیے کبھی بھی کوئی ’بہترین لمحہ نہیں ہو سکتا‘ لیکن برطانوی افواج کا کبھی بھی وہاں مستقل ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا‘۔
2001 سے لے کر اب تک 450 سے زیادہ برطانوی فوجی طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔
لیکن برطانیہ کے سب سے سینیئر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ غیر ملکی فوج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔
امریکہ کے زیرِ قیادت افغانستان پر بمباری اکتوبر 2001 میں امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔
جنگ کے عروج کے دنوں میں نیٹو کے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی افغانستان میں تعینات تھے جن کا تعلق 50 ممالک سے تھا۔ صرف صوبہ ہلمند میں برطانیہ کے نو ہزار 500 اہلکار اور 137 اڈے تھے۔
برطانوی دارالعوام میں ایک بیان دیتے ہوئے برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا کہ سنہ 2014 میں اکثر برطانوی فوجی وطن واپس آ گئے تھے اور تقریباً 750 سکیورٹی اہلکار نیٹو کے مشن کے تحت افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مدد کے لیے افغانستان میں تعینات رہے۔
انھوں نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’کسی کو بھی پچھلے 20 برسوں کے فوائد پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن نہ ہی ہم آج کی صورتحال کی سخت حقیقت کو فراموش کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال 20 سال پہلے کے مقابلے میں ’بہت مختلف‘ ہے، جب وہ ملک ’عالمی دہشت گردی کا مرکز‘ تھا۔