دلیپ کمار ’سائرہ بانو جو صاحب کی محبوبہ، دوست اور جیون ساتھی سبھی کچھ ہی تو تھیں
صاحب (دلیپ کمار) کے جانے کا بہت دکھ ہے۔ ان کے ساتھ زندگی کے کئی ماہ و سال گزارے تھے۔ اب مجھے فکر ہے تو سائرہ باجی (سائرہ بانو) کی ہے۔ وہ اب تک یقین نہیں کر رہی ہیں کہ ان کا صاحب (دلیپ کمار) اب ان کے ساتھ نہیں رہے۔ ان کی 55 سالہ رفاقت ٹوٹ چکی ہے۔ صاحب کے جنازے کے پاس بیٹھ کر سائرہ باجی بار بار کہہ رہی تھیں کہ دیکھو فیصل، صاحب پلکیں جھپک رہے ہیں۔‘
یہ الفاظ تھے گذشتہ 21 سال سے دلیپ کمار کے خاندان کے ترجمان، 30 سال سے ذاتی اور کوئی 40 برس سے خاندانی رابطے رکھنے والے فیصل فاروقی کے۔
فیصل فاروقی کہتے ہیں کہ صاحب (دلیپ کمار) کی وفات سے 24 گھنٹے پہلے ان کی طبعیت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔ ‘ڈاکٹروں نے مجھے کہنا شروع کر دیا کہ ان کی طبعیت سنبھل نہیں رہی۔ بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ بات سائرہ باجی کو بتائی جائے۔‘
‘اب مسئلہ یہ تھا کہ ڈاکٹر دیکھ رہے تھے کہ سائرہ باجی ہسپتال میں بھی 24 گھنٹے صاحب کا خیال رکھ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کے پھیپھڑے کمزور ہو چکے ہیں اور ایک ممکنہ علاج اب ممکن نہیں رہا تو انھوں نے ڈاکٹروں سے بات کر کے مزید ماہر ڈاکٹروں کو چیک اپ کے لیے بلایا تھا۔‘
فیصل فاروقی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر سائرہ باجی کی صاحب (دلیپ کمار) کے ساتھ جذباتی وابستگی دیکھ کر کوئی بات نہیں کر پا رہے تھے اور مجھ سے کہتے کہ میں بات کروں۔
‘میں نے دو، تین مرتبہ کوشش کی مگر جب بھی کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا تو بات آگے بڑھا نہ پاتی۔‘
آمنے سامنے بات کرنا ممکن نہ ہوا تو سائرہ باجی کو فون کیا اور کہا کہ مجھے ضروری بات کرنی ہے تو انھوں نے کہا کہ ’دیکھو فیصل اس وقت کوئی بات نہیں ہو سکتی صاحب ہسپتال میں ہیں مجھے ان کو دیکھنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں چپ ہو گیا، میری ہمت ہی نہ ہوئی کہ مزید بات کر سکوں۔ مجھے لگا کہ سائرہ باجی صاحب (دلیپ کمار) کے بارے میں کوئی بات سننے کو ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ وہ ابھی بھی توقع کر رہی ہیں کہ وہ پھر صاحب کو لے کر جلد گھر چلی جائیں گئیں۔‘
یہ وہ بے لوث اور لازوال محبت تھی جو سائرہ باجی نے اپنے صاحب اور صاحب (دلیپ کمار) نے اپنی سائرہ سے کی تھی جس کی مثال ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
فیصل فاروقی کا کہنا تھا کہ ‘ان کی وفات ہوئی تو میں اس وقت کسی کام سے گھر آ گیا تھا۔ جب اطلاع ملی اور میں ہسپتال پہنچا تو مجھ سے پہلے سائرہ باجی کی ایک بچپن کی سہیلی اور ان کے بھانجے ریحان پہنچ چکے تھے۔‘
55 سالہ رفاقت، صاحب کی کئی سال کی شدید بیماری کے باوجود وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں جس نے ہم سب کو بھی رلا دیا تھا۔
صاحب اور سائرہ بانو
اس دنیا اور خاص طور پر فلمی دنیا میں جس طرح کی محبت سائرہ بانو اور دلیپ کمار نے کی تھی، اس کی بہت کم مثالیں موجود ہیں۔
سائرہ بانو دلیپ کمار سے کتنی محبت کرتی ہیں اور دلیپ کمار سائرہ بانو سے کتنی محبت کرتے تھے، اس کا ذکر سائرہ بانو نے پاکستانی لیجنڈ معین اختر سے اپنے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’دلیپ کمار نے 1967 میں میرے ساتھ فلم میں یہ کہہ کر کام کرنے سے انکار کر دیا کہ سائرہ ابھی بچی ہے۔ میں اس کے ساتھ کام نہیں کروں گا۔ میں نے آستینیں چڑھائی اور اسی برس ان کے ساتھ شادی کر کے دکھائی۔‘
دلیپ کمار کے پشاور میں آبائی گھر کو محفوظ کرنے کے حوالے سے فیصل فاروقی کے ذریعے کئی مرتبہ دلیپ کمار اور سائرہ بانو کے پیغامات ملے۔
ایک مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ سائرہ بانو اور دلیپ کمار سے انٹرویو کیا جائے۔ فیصل فاروقی سے اس بارے میں گزارش کی تو انھوں نے سائرہ بانو سے بات کرنے کی حامی بھرلی۔
چند دن بعد فیصل فاروقی سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ سائرہ باجی نے کہا ہے کہ ٹھیک ہے کسی وقت بات کروا دینا۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد دوبارہ فیصل فاروقی سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ سائرہ باجی کہتی ہیں کہ دیکھو فیصل صاحب بیمار رہتے ہیں۔ ‘میں انھیں کسی الجھن میں ڈالنا نہیں چاہتی۔ رہی میری بات تو اب جتنا وقت میں انٹرویو دینے میں دوں گی۔ اتنا وقت میں اپنے صاحب کو کیوں نہ دوں؟‘
‘اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ صاحب کی طویل العمری کا راز کیا ہے تو وہ ایک ہی ہے جو ساری دنیا جانتی ہے صاحب کی سائرہ بانو سے محبت، یہ محبت ان کو کئی مرتبہ موت کے منھ سے کھینچ کر لائی تھی۔ صاحب سائرہ بانو کی محبت میں ان کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے۔‘
ڈاکٹر، نرس، بیوی، محبوبہ اور دوست
فیصل فاروقی کہتے ہیں کہ گذشتہ 21 سال کے دوران تقریباً ہر روز ہی سائرہ باجی اور صاحب سے رابطہ ہوتا تھا۔ ان کے سوشل میڈیا اکاوئنٹ کے علاوہ دیگر معاملات پر بات ہوتی تھی۔ ‘صاحب میری رہنمائی کے علاوہ شفقت کرتے تھے۔ ایک ایسا تعلق پیدا ہوچکا تھا جس کو نام نہیں دیا جا سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ عرصہ تھا جب صاحب اکثر بیمار رہا کرتے تھے۔ ‘صاحب غصے والے تو تھے ہی مگر وہ سائرہ باجی سے غصہ نہیں کرتے تھے۔ کسی بات پر ناراض بھی ہو جائیں تو خود ہی سائرہ باجی کو منا لیا کرتے تھے۔ اس عرصے کے دوران صاحب کے تمام معاملات سائرہ باجی دیکھا کرتی تھیں۔‘
فیصل فاروقی کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ سائرہ باجی صاحب کے معاملات دیکھتی تھیں بلکہ صاحب کے خاندان کے تمام معاملات جن میں گزشتہ سال ہی فوت ہو جانے والے ان کے دو بھائیوں اور دیگر بھانجوں، بھتیجوں اور سب عزیزوں کے معاملات بھی سنبھالتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صاحب بڑی خاموشی سے کئی مستحق لوگوں کی زندگیاں تبدیل کر رہے تھے اور جب وہ بیمار رہنے لگے تو اس وقت سائرہ باجی نے یہ ذمہ داری لے لی تھی۔ ‘وہ کیسے کرتے تھے کیا کرتے تھے کون لوگ تھے یہ صرف صاحب جانتے تھے یا سائرہ باجی جانتی ہیں۔‘
فیصل فاروقی کا کہنا تھا کہ صاحب رومال جس پر ڈی کے کندہ ہوا استعمال کرتے تھے۔ ‘صاحب جب بھی باہر جاتے تھے وہ رومال ان کے لیے سائرہ باجی ہمیشہ تیار رکھتی تھیں۔ صاحب کو سفید شرٹ پسند تھی۔ ہمیشہ صاف ستھری سفید شرٹ پہنتے تھے۔‘
فیصل فاروقی کا کہنا تھا کہ اس دنیا میں دلیپ کمار کو بہت پیار ملا تھا، لوگ انھیں دیوتا کا درجہ دیتے ہیں۔ ‘مگر انھیں جو پیار سائرہ باجی سے ملا اور جو پیار انھوں نے سائرہ باجی سے کیا وہ الفاظ میں بتانا ممکن نہیں ہیں۔‘
‘صاحب کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مگر بیماری کے دوران سائرہ باجی خود صاحب کا خیال رکھتیں تھیں، ضرورتیں پوری کرتی تھیں۔ وہ بیک وقت صاحب کی ڈاکٹر،نرس، دوست، بیوی اور محبوبہ بھی تھیں۔‘
فیصل فاروقی کے مطابق ان بیماری کے عرصے میں وہ کبھی دلیپ کمار کو اکیلا چھوڑ کر باہر نہیں گئیں تھیں۔ ‘صاحب شاید آخری کسی فنکشن یا ایوارڈ شو وغیرہ میں 2015 میں گئے تھے۔ ان کے لیے انڈیا کے دوسرے بڑے ایوارڈ کا اعلان ہوا مگر وہ بیماری کے سبب نہ جا سکے تو بعد میں وہ ایوارڈ اصول و ضوابط میں تبدیلی لا کر ان کو گھر میں دیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سائرہ باجی ان سے کتنی محبت کرتی تھیں کہ بچپن میں وہ اکثر سرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھ کر بیٹھ جایا کرتی تھیں اور اپنی والدہ سے کہتی کہ دیکھو میں دلیپ کمار کی دلہن بنی ہوئی ہوں۔