اسرائیل غزہ تنازع اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم کیا ہے؟
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس نے 1500 راکٹ اسرائیل کی جانب داغے ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر اسرائیلی دفاعی نظام آئرن ڈوم نے فضا میں ہی تباہ کر دیے ہیں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کی کامیابی کی شرح تقریباً 90 فیصد ہے۔
آئرن ڈوم کیسے کام کرتا ہے؟
آئرن ڈوم ان متعدد میزائل شکن نظاموں میں سے ایک ہے جو اسرائیل میں اربوں ڈالر لگا کر نصب کیے گیے ہیں۔
یہ نظام ریڈار کی مدد سے اس کی جانب داغے گئے راکٹس کو ٹریک کرتا ہے اور ان کو روکنے کے لیے ’انٹرسیپٹ‘ کرنے والے میزائل داغتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ان راکٹوں میں تفریق کرتی ہے جو کہ زیادہ آبادی والے علاقے کو ہدف بنا رہے یا پھر جو اپنے ہدف پر نہیں پہنچیں گے۔
صرف ان راکٹوں کو روکا جاتا ہے جو کہ زیادہ آبادی والے علاقوں کی جانب آ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نظام سستا پڑتا ہے۔
اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ہر انٹرسیپٹر میزائل ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر کا ہوتا ہے۔
یہ بنایا کیسے گیا؟
آئرن ڈوم کی بنیاد سنہ 2006 میں اسرائیل اور جنوبی لبنان میں موجود حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کے وقت رکھی گئی تھی۔
حزب اللہ نے ہزاروں راکٹ داغے تھے جس سے اسرائیل میں کافی مالی نقصان ہوا اور درجنوں اسرائیلی بھی مارے گئے۔
ایک سال بعد اسرائیل کی ریاستی دفاعی کمپنی رفائل ایڈوانس سسٹمز نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک نیا میزائل شکن دفاعی ڈھال کا نظام تیار کریں گے۔
اس پروجیکٹ کے لیے امریکہ نے 20 کروز ڈالر بھی دیے تھے۔
کچھ برسوں کی تحقیق کے بعد یہ نظام سنہ 2011 میں پہلی مرتبہ جنگی حالات میں ٹیسٹ کیا گیا جب اس نے جنوبی شہر بیرشیبہ پر داغا گیا ایک راکٹ مار گرایا تھا۔
کیا اس کی کمزوریاں ہیں؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئرن ڈوم نے اسرائیلیوں کو کئی حملوں سے بچایا مگر یہ مکمل طور پر 100 فیصد کامیاب نہیں۔
بی بی سی کے خارجہ امور کے تجزیہ کار جوناتھن مارکس نے بتایا ہے کہ آئرن ڈوم کا ایک حصہ جو کہ ایشکیلون شہر کا دفاع کر رہا تھا تکنیکی خرابی کی وجہ سے حالیہ کشیدگی میں آف لائن تھا۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ 90 فیصد کامیابی کی شرح غزہ سے داغے گئے راکٹوں کے لیے تو سہی مگر مستقبل میں کسی اور دشمن کے خلاف حاصل کرنا مشکل ہو گی۔
یروشلم پوسٹ کے انٹیلیجنس ایڈیٹر یونا جرمی باب کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے پاس کم وقت میں زیادہ راکٹ داغنے کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے آئرن ڈوم کے لیے ان سب کو روکنا زیادہ مشکل ہو گا۔
مگر اس وقت اسرائیلی آئرن ڈوم کے لیے شکر گزار ہیں۔
تاہم پولیٹیکل سائنٹسٹ ڈاکٹر یوآو فرومر کہتے ہیں کہ آئرن ڈوم پر انحصار کرنے کی وجہ سے اسرائیلی حکام اس مسئلہ کا طویل المدتی حل تلاش کرنے میں سستی کرتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘آئرن ڈوم کی کامیابی خارجہ امور میں ناکام پالیسیوں کو جنم دیتی ہے جو کہ کشیدگی کو بڑھاوا دیتی ہیں اور کئی برسوں بعد بھی ہم اس نہ ختم ہونے والے پرتشدد سائیکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔