سینٹرل وسٹا پروجیکٹ انڈیا کے دارالحکومت دلی

سینٹرل وسٹا پروجیکٹ انڈیا کے دارالحکومت دلی

سینٹرل وسٹا پروجیکٹ انڈیا کے دارالحکومت دلی میں نئے پارلیمان، پی ایم ہاؤس اور ایوان نائب صدر کے منصوبے کی مخالفت

کہا جاتا ہے کہ دلی میں جس نے بھی نیا شہر بسایا انھیں دہلی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب یہ رزمیہ داستان مہا بھارت کے پانڈو بردارن کی بات ہو یا راجہ پرتھوی راج چوہان کی، یا پھر بادشاہ فیروز شاہ تغلق کی یا پھر مغل حکمراں شاہجہاں اور تاج برطانیہ کی۔

ایک بار پھر دہلی اور بطور خاص نئی دہلی کے نقشے میں تبدیلی لائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تاریخی راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) سے لے کر انڈیا گیٹ تک کھدائی کا کام جاری ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے سینٹرل وسٹا نامی پروجیکٹ کے ذریعے نئی تعمیرات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے جسے سنہ 2026 تک مکمل ہونا ہے۔

اس کے تحت ایک نئے ایوان پارلیمان کے علاوہ، پی ایم ہاؤس، ایوان نائب صدر، اور سرکاری وزارتی دفاتر تیار کیے جائيں گے۔

تاہم اس منصوبے کو شروع سے ہی شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ حالیہ کووڈ وبا کے پیش نظر سوشل میڈیا پر اس کی پرزور مخالفت نظر آ رہی ہے کیونکہ انڈیا میں یومیہ مثبت کیسز کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے اعتبار سے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اس وبا سے تقریباً ہر روز چار ہزار سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔

کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر آنے والے اخراجات کو ‘مجرمانہ ضیا‏ع’ کہا ہے اور ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لوگوں کی زندگی بچانے کو توجہ کا مرکز بنائیں نہ کہ ایک نئے گھر کے لیے اپنے اندھے غرور کو۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ‘سینٹرل وسٹا کے لیے مختص 13 ہزار 450 کروڑ روپے میں انڈیا کے 45 کروڑ لوگوں کی مکمل ویکسینیشن ہو جائے گی، یا ایک کروڑ آکسیجن سیلنڈر آ جائیں گے، یا دو کروڑ خاندان کو نیائے سکیم کے تحت 6000 روپے ماہانہ مل جائيں گے۔ لیکن وزیر اعظم کی انا تو لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر ہے۔’

پارلیمان
انڈیا کی نئی پارلیمنٹ کا مجوزہ نقشہ

اس سے قبل 10 دسمبر سنہ 2020 کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان کی نئی عمارت کی سنگ بنیاد رکھی تو کانگریس رہنما اور سابق وزیر خزانہ پی چدامبرم نے کہا تھا کہ ‘ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی بنیاد لبرل ڈیموکریسی کے ملبے پر رکھی گئی ہے۔’

حزب اختلاف نے اس منصوبے پر عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا لیکن ان کی اپیل مسترد کر دی گئی اور منظوری ملنے کے بعد اب اس پر کام شروع ہو چکا ہے۔ لیکن کووڈ وبا کی دوسری لہر کے بعد اس کی تعمیر کو روکنے کے لیے لوگ پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری سے بی بی سی نے اس منصوبے کے متعلق رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہنوز ان کا جواب نہیں آیا ہے۔ بہر حال انھوں نے اس کے متعلق اپنے سوشل میڈیا کے فیس بک اکاؤنٹ پر کانگریس کے موقف کو ‘بے تکا’ قرار دیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ‘سینٹرل وسٹا 20 ہزار کروڑ روپے کا کئی سالوں پر محیط پروجیکٹ ہے۔ حکومت ہند نے اس کی دگنی رقم ویکسینیشن کے لیے مختص کی ہے۔ رواں سال کا انڈیا کا ہیلتھ کيئر بجٹ تین لاکھ کروڑ کا ہے۔ ہم اپنی ترجیحات جانتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ سینٹرل وسٹا حکومت ہند کے ملک بھر میں جاری کئی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ صرف کانگریس کو ہی اس کا بھوت سوار ہے۔’

شہری امور کے وزیر کے بیان کے بعد مہاراشٹر میں برسر اقتدار پارٹی شیو سینا نے سنیچر کو کہا ہے کہ کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے جہاں پڑوس کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے انڈیا کو امداد کی پیشکش کی ہے وہیں مودی حکومت کئی کروڑ روپے کے اپنے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کے کام کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سینٹرل وسٹا
حکومت کا بڑا منصوبہ سینٹرل وسٹا جب مکمل ہو گا تو کیسا نظر آئے گا

سینٹرل وسٹا کیا ہے؟

یہ حکومت ہند کا ایک نیا تعمیراتی منصوبہ ہے جو دہلی کے قلب میں راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) سے انڈیا گیٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کو رائے سنا ہلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس خطے کو برطانوی راج میں ایڈون لوٹینز اور بربرٹ بیکر نے ڈیزائن کیا تھا۔

اس کے تحت تین کلومیٹر کے علاقے میں نئی تعمیرات ہوں گی اور بعض پرانی تعمیرات کی تزئین آرائی ہوگی۔

اس کے تحت مثلث نما ایک نئی پارلیمنٹ کی عمارت بنائی جائے گی جس میں 12 سو سے زیادہ اراکین پارلیمان کی گنجائش ہوگی۔

پرانی پارلیمان کا کچھ اور مصرف تلاش کیا جائے گا اور نارتھ اور ساؤتھ بلاک کے ساتھ صدر کے باغ کا بھی دوسرا استعمال کیا جائے گا۔

راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ اور مودی کے دور حکومت میں تیار کیا جانے والا نیشنل وار میموریل جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا جبکہ وگیان بھون کو مسمار کر دیا جائے گا۔

ئنی تعمیرات میں سینٹرل وسٹا ایوینیو، کامن سینٹرل سیکریٹریٹ، سینٹرل کانفرنس سینٹر، نائب صدر کا نیا گھر اور دفتر، وزیر اعظم کے لیے نیا گھر اور نیا دفتر اور آئی این جی سی میں نئی سہولیات کی تعمیرات ہوں گی۔

وزیر اعظم ہاؤس میں بھوٹان کے حکمراں استقبال
وزیر اعظم ہاؤس میں بھوٹان کے حکمراں کا استقبال

نئے پی ایم ہاؤس کی ضرورت

انڈیا میں ابھی تک کوئی باضابطہ نیا پی ایم ہاؤس نہیں تھا جو کہ انڈیا کے پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ ابھی تک انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نہرو سے لے کر نریندر مودی تک اپنے رہائشی بنگلے سے ہی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

جواہر لعل نہرو تین مورتی بھون میں رہتے تھے اور تقریبا 17 سال تک جب تک وہ انڈیا کے وزیر اعظم رہے وہی مرکز اقتدار تھا۔

سنہ 1964 میں ان کی موت کے بعد اسے میوزیم اور میموریل بنا دیا گیا۔ ان کے بعد کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری 10 جن پتھ میں رہتے تھے سو ان کی موت تک وہی پی ایم ہاؤس رہا۔

اس کے بعد وزیر اعظم اندرا گاندھی کے 17 سال سے زیادہ دور اقتدار میں ان کی رہائش ایک صفدر جنگ روڈ کا بنگلہ ہی پی ایم ہاؤس تھا لیکن اس بنگلے پر 31 اکتوبر سنہ 1984 کو ان کے قتل کے بعد راجیو گاندھی کے دور میں 7 ریس کورس اقتدار کا مرکز بن گیا۔

اس کے بعد سے اگرچہ ریس کورس کا نام بدل کر لوک کلیان مارگ رکھ دیا گیا ہے تاہم یہ مختلف وزرائے اعظم کی رہائش اور دفتر کے طور پر جانا جاتا ہے اور اب تک وہیں سے انڈیا پر حکومت کی جا رہی ہے۔

اس بارے میں بی بی سی نے نئے پی ایم ہاؤس کے متعلق جب ایک سوال سوشل ایکٹوسٹ اور تاریخ کے استاد ابھے کمار سے کیا کہ اس کی کیا ضرورت تھی تو انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کہیں نہ کہیں اپنی یادگار چھوڑنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا نام تاریخ میں درج ہو سکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘وہ امریکہ میں اقتدار کی علامت وائٹ ہاؤس اور اسرائیل کے بیت روش کی طرز پر انڈیا میں علامتی عنان اقتدار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔’

انھوں نے کہا اب تک کسی وزیر اعظم نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن ‘وزیر اعظم مودی اپنے لیے سپیشل طیارہ خرید سکتے ہیں اور سردار پٹیل کا لاکھوں ڈالر کا مجسمہ بنوا سکتے ہیں تو یہ ان کی انا کی تسکین کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔’

پارلیمنٹ
انڈین پارلیمنٹ کی تعمیر کو 90 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے

پارلیمان کی نئی عمارت کی ضرورت کیا ہے؟

پارلیمان کی نئی عمارت کا خیال وزیر اعظم مودی سے پہلے بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ کانگریس کی سربراہی والی حکومت کے دور میں کانگریس رہنما اور لوک سبھا سپیکر میرا کمار کے علاوہ سپیکر سمیترا مہاجن نے بھی پارلیمان کی عمارت کی خستہ حالی کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

13 جولائی سنہ 2012 کو میرا کمار نے ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کو ایک خط لکھ کر توجہ دلائی تھی کہ ‘یہ عمارت پرانی ہو چکی ہے۔ اور اسے آثار قدیمہ کی گریڈ ایک کی عمارت قرار دیا گیا ہے۔ یہ زیادہ استعمال سے خستہ ہو گئی اور اس کے اثرات اس پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔’

انگریزوں نے جب سنہ 1911 میں اپنے دارالحکومت کو دہلی منتقل کیا تو انھیں بہت سی عمارتوں کی ضرورت پیش آئی جس میں پارلیمان کی عمارت بھی شامل ہے۔

اسے سنہ 1920 کی دہائی میں شروع کیا گیا اور یہ 1927 میں بن کر تیار ہوئی۔ اس عمارت کو 94 سال گزر چکے ہیں اور اس دوران جو ترقیات ہوئیں اس کی وجہ سے اس کے اندرونی حصے میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئیں۔

چنانچہ سنہ 2019 میں جب ایک نئی پارلیمان کے بارے میں تجویز آئی تو اس کی کہیں سے مخالفت نظر نہیں آئی لیکن جب سینٹرل وسٹا کا بڑا پروجیکٹ سامنے آیا تو اس کی مخالفت کی گئی اور عدالت میں اسے چیلنج کیا گیا لیکن عدالت نے حکومت کے منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے منظوری دے دی ہے اور اس پر کام جاری ہے۔

انڈیا گیٹ کے پاس

اب اس پر اس قدر شور کیوں؟

حالیہ دنوں دلی میں وبا کے باعث سخت لاک ڈاؤن جاری ہے لیکن حکومت کی جانب سے وسٹا پروجیکٹ کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے خلاف انیا ملہوترہ اور سہیل ہاشمی نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس کی سماعت انڈیا میڈیا کے مطابق 17 مئی رکھی گئی تھی لیکن درخواست گزاروں نے اس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی جہاں سے ہائی کورٹ کو کہا گيا کہ وہ اس کیس کی جلد سماعت کرے۔

بی بی سی نے سہیل ہاشمی سے فون پر اس کے متعلق بات کی تو انھوں نے کہا کہ ابھی چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے وہ اس بابت بات نہیں کر سکتے البتہ اتنا بتایا کہ سماعت پیر نو مئی کو ہوگی۔

انڈین میڈیا کے مطابق عرضی گزاروں کے وکیل ایڈوکیٹ سدھارتھ لوتھرا نے کہا ہے کہ کووڈ کے موجودہ حالات کے پیش نظر اگر وسٹا کے پروجیکٹ کو چھ ہفتوں کے لیے ٹال دیا جاتا ہے تو کچھ نہیں بگڑے کا۔ انھوں نے کہا کہ جب انڈین پریمئیر لیگ کو ملتوی کیا جاسکتا ہے تو اسے کیوں نہیں۔

انھوں نے کہا ‘مجھے سمجھ نہیں آتی کہ صحت کی ایسی ناگہانی صورت حال میں کوئی تعمیر کسی طرح ضروری سرگرمی ہو سکتی ہے۔ اس سے کام کرنے والوں کو خطرہ لاحق ہے اور اس سے ہیلتھ سسٹم پر مزید اثرات پڑیں گے۔’

دہلی کے شہریوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ وہ اس کی مخالفت کئی وجوہات کی بنا پر کر رہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ جس جگہ نئی تعمیرات ہو رہی ہیں وہ عوام کی جگہ ہے۔ ان تعمیرات سے دہلی میں عوام کی جگہ کم ہو جائے گی۔

انڈیا گیٹ کی سنہ 1998 کی ایک تصویر
انڈیا گیٹ کی سنہ 1998 کی ایک تصویر

واضح رہے کہ انڈیا گیٹ دہلی میں بڑے بڑے عوامی جلسوں اور دھرنوں کا مرکز رہا ہے لیکن سینٹرل وسٹا کے بعد یہ انتہائی سکیورٹی والا زون ہو جائے گا۔

عام شہری گروپ کی رکن ڈاکٹر بابی لتھرا سنہا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بہت سے نکات اٹھائے۔ انھوں نے کہا شہریوں کی موجودہ ضرورت کے پیش نظر یہ لگژری ہے۔ اس کی وجہ سے اس علاقے کی ہریالی متاثر ہوگی کیونکہ وہاں موجود دہائیوں پرانے پیڑ کاٹے جائيں گے۔

بہر حال حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں بہت کم درخت کاٹے جائیں جبکہ اس کی مکمل تعمیر کے بعد وہاں تقریبا پانچ ہزار پیڑ ہوں گے اور ان کی مناسب دیکھ بھال ہوگی۔

ڈاکٹر بابی لتھرا سماجیات، سیاسیات اور علم بشریات کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پروجیکٹ اس قسم کے غریب ملک کے لیے لگژری ہیں جہاں ہیلتھ انفراسٹرکچر کی کمی کے سبب روزانہ ہزاروں اموات ہو رہی ہیں۔

ان کی شکایت ہے کہ بغیر مباحثے اور رائے عامہ کے اس کو اوپر سے لادا گیا ہے۔ انھوں نے دہلی کی ائیر کوالٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ میٹرو شہر میں سے ایک ہے اور تعمیرات کی وجہ سے اس کی ہوا مزید خراب ہوگی۔

کارٹو
معروف کارٹونسٹ ستیش کا اپنے انداز میں تبصرہ

انھوں نے بتایا کہ آلودگی کے سبب دہلی کے لوگوں کے پھیپھڑے کمزور ہیں اور اس کی وجہ اس میں ابتری ہی آئے گی۔

انھوں نے ویسٹ مینجمنٹ (کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے) کی بات بھی اٹھائی کہ آخر دہلی کی تعمیر کے دوران ملبے کو کہاں ٹھکانے لگایا جائے گا۔ ڈاکٹر بابی نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر اسے دریائے جمنا میں ٹھکانے لگایا گیا تو یہ مزید ایک ماحولیاتی تباہکاری ہوگی کیونکہ جمنا پہلے سے ہی تباہی کا شکار ہے۔

بی بی سی نے جب سوال کیا کہ حکومت کو بھی اس کا احساس ہوگا تو پھر حکومت اس کے لیے اتنی بے تاب کیوں ہے، تو انھوں نے کہا کہ انھیں ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں یاد رکھے جانے کی زیادہ فکر ہے۔

ڈاکٹر بابی لتھرا کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ بی جے پی مرکز میں حکومت کرتے ہوئے بھی دہلی نہیں جیت پائی اس لیے وہ اپنی یادگار وہاں قائم کرنا چاہتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *