شيخ جراح یروشلم میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 163 فلسطینی اور چھ اسرائیلی پولیس اہلکار زخمی
فلسطینی میڈیکل سروس اور اسرائیلی پولیس کے مطابق یروشلم میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 163 فلسطینی اور چھ اسرائیلی پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
زیادہ تر افراد مسجد اقصیٰ میں زخمی ہوئے جہاں فلسطینیوں کی جانب سے پتھراؤ اور بوتلیں پھینکنے جانے کے بعد اسرائیلی پولیس نے ربڑ کی گولیوں چلائیں اور دستی بم پھینکے۔
یہودی آبادکاروں اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ واقعات کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس میں خدشہ ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اس زمین سے نکال دیا جائے جس پر یہودی آبادکار اپنی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں۔
ہلال احمر نے تشدد میں زخمی ہونے والوں کے لیے ایک فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیا ہے۔
روشلم کے پرانے شہر میں واقع مسجد اقصیٰ نہ صرف مسلمانوں کے لیے سب سے قابل احترام مقامات میں سے ایک ہے، بلکہ یہودیوں کے لیے بھی یہاں مقدس مقام بھی ہے جسے ٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ مقام اکثر اوقات تشدد اور جھڑپوں کا مرکز رہا ہے اور اس سال بھی رمضان کے مہینے کے آخری جمعے کی رات یہاں عبادت کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے جس کے بعد ایک بار پھر تشدد شروع ہو گیا۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ شام کی نماز کے بعد ’ہزاروں نمازیوں کی ہنگامہ آرائی‘ کی وجہ سے انھوں نے ’نظم و ضبط‘ بحال کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رؤٹرز کے مطابق مسجد اقصیٰ کے ایک عہدیدار نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے پُر سکون رہنے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’پولیس کو نمازیوں پر فوراً دستی بم پھینکنے بند کرنے چاہییں اور نوجوانوں کو پرسکون ہو کر خاموش ہونا چاہیے۔‘
فلسطین کی ہلال احمر کی ایمرجنسی سروس نے بتایا کہ زخمی ہونے والے 88 فلسطینیوں کو ربڑ میں لپٹی دھاتی گولیاں لگنے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ زخمی ہونے والے چھ افسران میں سے چند کو طبی امداد کی ضرورت ہے۔
مشرقی یروشلم کے ضلع شیخ جرہ میں فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کیے جانے کا خطرہ ہے جس کے باعث عالمی برادری نے بھی جمعہ کے روز پُر امن رہنے کی اپیل کی تھی۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی قسم کی بے دخلی کے اقدامات کا ارادہ ملتوی کرنا چاہیے اور مظاہرین کے خلاف ’طاقت کے پر زیادہ سے زیادہ پابندی‘ لگانی چاہیے۔
مریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو ’بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے خصوصی کوآرڈینیٹر، ٹور وینس لینڈ نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے یروشلم میں موجود مقدس مقامات کا احترام کریں۔‘
اسرائیل کی سپریم کورٹ میں طویل عرصے سے چلنے والے اس قانونی مقدمے کی سماعت پیر کو ہو گی۔
اسرائیل نے سنہ 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ کے بعد سے ہی مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور وہ پورے شہر کو اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے، حالانکہ بین الاقوامی برادری کی اکثریت اسے تسلیم نہیں کرتی ہے۔
فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ مشرقی یروشلم مسقبل میں بننے والی ان کی آزاد ریاست کا دارالحکومت ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی روز سے اسی حوالے سے #SaveSheikhJarrah ٹرینڈ کر رہا ہے اور آج پاکستان کے صفِ اول کے ٹرینڈز میں #SaveSheikhJarrah اور #IsraeliAttackonAlAqsa شامل ہیں۔
کئی صارفین شیخ جراح کے علاقے اور گذشتہ روز یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی ویڈیوز شئیر کر رہے ہیں۔
بیشتر صارفین اسرائیلی پولیس کی جانب سے مسجدِ اقصیٰ میں دورانِ عبادت ربڑ کی گولیاں چلانے اور دستی بموں پھینکے جانے کی مذمت کر رہے ہیں۔
یسی ہی ایک ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لیکا نامی صارف نے لکھا ’مسجد وہ جگہ ہے جہاں ہم عبادت کرتے ہیں، ہم اسے ایک محفوظ جگہ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے اسے خدا کا گھر کہا جاتا ہے لیکن وہاں پر یہ سب ہوا؟‘
ایک اور وائرل ویڈیو میں ایک اسرائیلی پولیس اہلکار کو خواتین اور بچوں پر دستی بم پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کئی افراد بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی پولیس کی حالیہ کارروائیوں کا نوٹس لے۔