جہانگیر ترین کے حامی اراکین کی وزیراعظم سے ملاقات، نتیجہ کیا نکلا؟
وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے حامی ارکانِ پارلیمنٹ کے خدشات دور کرنے کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خدشات کب تک دور کیے جائیں گے۔
جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ نے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض کی سربراہی میں منگل کو وزیر اعظم عمران خان سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی اور انھیں جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف حالیہ درج ہونے والے مقدمات اور مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 33 ہے، جن میں قومی اسمبلی کے 11 اور پنجاب اسمبلی کے 22 ارکان شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان میں چھ صوبائی وزیر اور ایک مشیر بھی شامل ہیں۔
’وزیر اعظم عمران خان کی یقین دہانی‘
وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو میں راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے یہ یقین دلایا ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ تفتیش کی نگرانی خود کریں گے تا کہ کسی کے ساتھ ذیادتی نہ ہو۔
میڈیا کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ انھوں نے جہانگیر ترین کے خلاف درج مقدمے میں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے کردار کے بارے میں بھی بتایا۔ تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ وزیرِ اعظم نے شہزاد اکبر کے خلاف کیا کوئی کارروائی کرنے کے بارے میں کچھ کہا جس کا راجہ ریاض نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مختصر گفتگو کے بعد جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ واپس چلے گئے۔
کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی: وزیر اعظم نے ایک رکنی کمیٹی بھی بنا دی
ملاقات میں موجود ایک حکومتی شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ جہانگیر ترین کے حامیوں نے وزیر اعظم سے استدعا کی کہ چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان جن میں جسٹس ناصر الملک اور جسٹس تصدق حسین جیلانی شامل ہیں کریں۔
اگر وہ نہیں مانتے تو سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج سائر علی کو اس کمیشن کی سربراہی دے دی جائے تاہم وزیر اعظم نے ان کی یہ استدعا مسترد کر دی۔
حکومتی شخصیت کے مطابق ارکان پارلیمنٹ نے شہزاد اکبر کی جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ کی تفتیش میں مبینہ مداخلت کے بارے میں شکایات کے انبار لگا دیے۔ تاہم وزیر اعظم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور صرف یہی کہا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقات پر کوئی اثر انداز نہیں ہو گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران جہانگیر ترین کے حامی ارکان کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے سینیٹر علی ظفر کو اس معاملے کو دیکھنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد وہ مزکورہ ارکان پارلیمنٹ کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔
وزیر اعظم سے ملاقات سے پہلے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم کو جہانگیر ترین کے خلاف مقدمات میں شہزاد اکبر کے علاوہ چند بیوروکریٹس کے مبینہ کردار کے بارے میں بھی آگاہ کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ حکمران جماعت میں کوئی دراڑ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ وہ اس جماعت کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم کچھ مفاد پرست وزیر اعظم کو حالات سے صحیح طریقے سے آگاہ نہیں کر رہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کے لیے جہانگیر ترین کے کردار کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد جہانگیر ترین نے متعدد ارکان پارلیمنٹ کو جو آزاد حیثیت میں انتخابات جیت کر آئے تھے پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروایا تھا۔ اسی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آئی تھی۔
سپریم کورٹ جہانگیر ترین کو اثاثے چھپانے کے الزام میں عمر بھر کے لیے نا اہل قرار دے چکی ہے۔
ملک میں چینی بحران سے متعلق تشکیل پانے والے کمیشن نے جو رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی اس میں جہانگیر ترین کی شوگر ملز کا نام بھی شامل تھا جنھوں نے پنجاب حکومت سے سبسڈی لینے کے باوجود مہنگے داموں چینی فروخت کی۔
جہانگر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہے اور اس مقدمے میں ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔
جہانگیر ترین ماضی میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے میں ان کا ہاتھ تھا۔
وزیر اعظم چینی کے بحران کے بعد چینی کے کاروبار سے وابسطہ افراد کو مافیا کا نام دیتے رہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی طور پر بھی مافیا کے دباو میں نہیں آئیں گے۔
واضح رہے کہ مرکز اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہوئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر مرکز سے پاکستان تحریک انصاف کے ہم خیال گروپ کے 11 ارکان اور پنجاب سے 22 ارکان الگ ہو گئے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کے لیے ایک اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ اسد عمر بھی شامل تھے تاہم جہانگیر ترین نے اس اعلی سطح کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے حمایتی ارکانِ پارلیمنٹ صرف وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔
کئی سیاسی مبصرین پرویز خٹک اور اسد عمر کو جہانگیر ترین کے مخالف کیمپ میں شمار کرتے ہیں۔ اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹانے میں جہانگیر ترین کا اہم کردار تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی جہانگیر ترین کی کھل کر مخالفت کی تھی اور گزشتہ روز جب وزیر اعظم ملتان کے دورے پر تھے تو انھوں نے جہانگیر ترین کے حامی کسی رکن کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ ’ایک طرف ہو جائیں یا اِدھر یا پھر اُدھر ہو جائیں۔‘ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وزیر اعظم احتساب کے معاملے پر کسی کے دباو میں نہیں آئیں گے۔
وزیر اعظم ہاوس کے ذرائع کے مطابق عمران خان جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھے۔ تاہم گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اس ضمن میں وزیر اعظم سے ملاقات کی اور انھیں اس ملاقات کے لیے آمادہ کیا۔