پنڈت دینا ناتھ لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مینا، اوشا اور ردے ناتھ کے والد جو خود ایک سپر سٹار تھے
آج کی دنیا میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ برصغیر کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، مینا، اوشا اور ردے ناتھ کے والد پنڈت دینا ناتھ اپنے زمانے کے سپر سٹار تھے۔
اُس وقت چونکہ متحدہ ہندوستان میں سینما متعارف نہیں ہوا تھا تو دینا ناتھ کا میدان تھیٹر اور منڈلی تھا۔
دینا ناتھ سنہ 1900 میں گوا کے ایک گاؤں منگیشی میں پیدا ہوئے۔ وہ صرف 42 برس جیے لیکن اپنی مختصر زندگی میں اُنھوں نے عروج کے ساتھ ساتھ زوال کا سامنا بھی کیا۔
جب وہ دنیا سے گئے تو اُن کے اہل خانہ کو شدید معاشی پریشانی کا سامنا تھا۔ اُن کے کریا کرم (آخری رسومات) میں 75 روپے خرچ ہوگئے تو ترکے میں جو بچا تھا اس سے صرف چھ روز تک گھر کا چولہا جل سکتا تھا۔
اسی لیے باپ کے مرنے کے صرف ایک گھنٹے بعد بڑی بیٹی لتا نے ماں سے پوچھا تھا کہ ’ماں اب گھر بار چلانے کے لیے مجھے نوکری ڈھونڈنی ہوگی۔‘
چوبیس اپریل کو پنڈت دینا ناتھ کی 79 ویں برسی منائی گئی اس موقعے پر اُن کے اہل خانہ جن میں اُن کی بڑی بیٹی لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، اوشا، مینا اور ہری دینا ناتھ شامل ہیں، اُنھوں نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو کی۔
پنڈت دینا ناتھ کی 42 سالہ زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ہزار داستان رہی لیکن ان کے بعد ان کی اولاد خاص طور پر لتا منگیشکر نے اپنے خاندان، ماں، بہنوں اور بھائی کے خوشحال مستقبل کے لیے جہدِ مسلسل کی ایک نئی ’مہابھارت‘ لکھ دی۔
’منگیشکروں کا پس منظر گائیکی سے زیادہ بہادری ہے‘
پنڈت دینا ناتھ منگیشکر کے بزرگوں نے پرتگیزی نو آبادکاروں کے اور ڈاکوؤں کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے اور بہادری سے اپنی عبادت گاہوں کو بچاتے ہوئے جانوں کا نذرانہ دیا تھا۔
یہ بہادر لوگ جنھوں نے اپنی دیوی دیوتاؤں کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کر دیں وہ خاندان ’ابھیشکی‘ کہلاتے ہیں۔ مندروں میں جب بتوں کو غسل دیا جاتا ہے تو اس عبادت کو ابھیشک کہتے ہیں اور چونکہ منگیشکر خاندان نے اپنے بتوں کی حرمت کو بچانے کے لیے اپنا خون بہایا تھا اور اپنے دیوتاؤں کو خون سے غسل دیا تھا، اس لیے اس خاندان کے افراد ابھیشکی کہلاتے ہیں۔
پنڈت دینا ناتھ منگیشکر کا تعلق کارہدی برہمنوں کی ذات سے تھا۔ ان کے خاندان کے مردوں کے نام کے بعد بھٹ کا لاحقہ لگایا جاتا تھا۔ بھٹ کا مطلب کٹر برہمن ہے۔ جنگجو اور کٹر برہمن گھرانے میں ایک فنکار کا پیدا ہونا اچنبھے کی بات نہیں تھا لیکن ناچ، گانے، بہروپ بھرنے اور ناٹک نوٹنکی سے وابستہ ہونا کھلی بغاوت سمجھا گیا۔
پنڈت دینا ناتھ نے اپنے خاندانی پس منظر کی پروا کیے بغیر ان ساری صلاحیتیوں کا مظاہرہ کیا جو قدرت نے اُنھیں عطا کی تھیں۔ وہ مندر اور بھجن سے آگے بڑھ کر ناٹک اور سنگیت کی طرف آئے۔
’دینا ناتھ نوٹوں پر چل کر میرے پاس آؤ‘
دادا صاحب پھالکے نے سنہ 1913 میں پہلی فلم ’راجہ ہریش چند‘ سے برصغیر میں سنیما کی بنیاد رکھی تو دینا ناتھ اس وقت 13 سال کے تھے۔
اس وقت تھیٹر اور نوٹنکی زیادہ معروف اور مؤثر میڈیم سمجھے جاتے تھے۔ پنڈت دینا ناتھ کے بیٹے اور لتا منگیشکر کے چھوٹے بھائی موسیقار ردے ناتھ نے بتایا کہ ’پتا جی انتہائی جاذب نظر، خوش لباس اور سریلے تھے۔ وہ عین جوانی میں ہی مراٹھی تھیٹر کے بہت بڑے سٹار بن گئے تھے۔
’ان کی مقبولیت کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ ایک دوسرے بہت مشہور مراٹھی تھیٹر ’بال گندھاروا‘ نے اعلان کیا کہ اگریہ نوجوان فنکار میری کمپنی جوائن کرنے کی حامی بھر ے تو اس کے گاوں منگیشی سے لے کر بمبئی تک تمام راستوں کو کرنسی نوٹوں سے بھر دوں گا اور عطر چھڑک کر دینا ناتھ سے کہوں گا کہ ان راستوں پر چل کرمیرے پاس آ جاؤ۔
’بال گندھاروا کے مالک کا کہنا تھا کہ اس لڑکے کی آواز میں ایسا جادو ہے جو سیدھا دل چیرتا ہے۔‘
ردے ناتھ نے کہا کہ ’اگرچہ ہمارے والد فنکار تھے لیکن وہ اپنی بیٹیوں کے فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کے مخالف تھے۔ لتا دیدی نے مراٹھی فلم کے لیے پہلا گیت اس وقت گایا تھا جب وہ 13 سال کی تھیں۔ والد نے دیدی کو سچے دل سے اجازت نہیں دی تھی اور بعدازاں یہ گیت فلم سے ڈراپ بھی ہوگیا تھا۔ اوپر والے کے بھید پانا مشکل ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے والد زندہ رہتے تو لتا دیدی کا ایک گھر بار ہوتا، بچے ہوتے لیکن دوسری طرف دنیا دیدی جیسی فنکارہ کے عظیم سنگیت سے محظوظ نہ ہو پاتی۔‘
دینا ناتھ 50 سال زندہ رہتے تو پورا گوا خرید لیتے
’ہمارے پتا جی نے اپنی زندگی میں بلونت سنگیت منڈلی کے نام سے ایک تھیٹر کمپنی قائم کی جو اپنے زمانے کی سب سے مشہور منڈلی ثابت ہوئی۔ سنہ 1929 میں جب دیدی لتا پیدا ہوئیں تھیں تب دینا ناتھ اپنے عروج پر تھے اور سرسوتی دیوی ان پر دھن دولت کی بارش کر رہی تھی۔ دینا ناتھ کے دھن دولت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ناگپور سے لے کر خاندیش تک ہر شہر میں ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹ تھے۔
’ان کے ایک ڈرامے کی لاگت اس وقت 70ہزار روپے تھی۔ والد صاحب نے گوا میں آموں اور کاجو کے کئی باغات خرید رکھے تھے اور گوا میں ہی اُنھوں نے ایک پہاڑی خرید رکھی تھی جس کی مالیت دو لاکھ روپے تھی۔ ماسٹر دینا ناتھ کا خواب تھا کہ اگر لکشمی دیوی یونہی مہربان رہی تو 50 سال کی عمر میں وہ ’غاصب اور لٹیرے پرتگیزیوں‘ سے پورے کا پورا گوا خرید لیں گے لیکن قدرت کو یہ منظور نہ ہوا اور ہمارے والد صرف 42 سال میں ہی ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے سدھار گئے۔‘
’گرو نے شراب کی بوتل لانے کو کہا تو گرو چھوڑ دیا‘
پنڈت دینا ناتھ کی تیسری اولاد اور عظیم گلوکارہ آشا بھوسلے بتاتی ہیں کہ ابا جب بہت چھوٹے تھے تو گاؤں کے جوہڑ اور گلی محلے میں کھیلتے کودتے جو گاتے تھے وہ اچھا خاصا کاری کرم (پروگرام) ہوتا تھا۔
’لوگ ہماری دادی یسوبائی کو کہتے آپ اپنے بیٹے کو منڈلی میں بھیج دو، خوب پیسہ کمائے گا۔ یہ وہ دن تھے جب مہاراشٹر خاص طور پر ممبئی میں جو ناٹک اور منڈلی ہو رہی تھی ان میں کام کرنے والے پیسہ کما رہے تھے لیکن دادی اپنے بیٹے کو مکمل آرٹسٹ بنانا چاہتی تھی۔
’اس زمانے میں کلاسیکی موسیقی پاپ میوزک کی طرح سنی جا رہی تھی، چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ دینا ناتھ سارنگی سیکھیں گے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ابا کو دانتوں سے ناخن چھیلنے کی عادت تھی اور سارنگی تو ناخن کے بغیر بجائی نہیں جاسکتی لیکن سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو رہا تھا۔ ایک دن استاد جی نے دینا ناتھ سے کہا کہ دیکھو فلاں دوکان پر جاؤ، وہاں سے ایک عدد دیسی شراب کی بوتل لے آؤ۔ ننھے دینا ناتھ نے شراب کے برے اثرات سے متعلق اتنی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ وہ دوبارہ استاد کی گلی میں نہ گیا۔‘
زندگی عجیب رنگ دکھاتی ہے وہی دینا ناتھ جو شراب سے اس قدر دور تھا کہ وہ اپنے گرو میں بھی یہ عیب دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ زندگی آگے بڑھی تو یوں اس علت کا شکار ہوا کہ دینا ناتھ شراب کے ساگر میں ڈوب کر اپنی زندگی ہار بیٹھا۔
آشا بھوسلے نے کہا کہ ’میں تو بہت چھوٹی تھی جب ابا دنیا چھوڑ گئے تھے۔ اس کے بعد دیدی (لتا) نے گھر سنبھالا اور ہماری باپ بنیں۔ تیرہ سال کی عمر میں گھر کا بوجھ ان کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ ہم تو بچے تھے ہمیں اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن ہماری ماں، لتا دیدی اور بھائی ردھے ناتھ نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔ ذہن میں ابا کی دھندلی دھندلی یادیں ہیں وہ گھر کے صحن میں ریاض کرتے تھے ان کے ساتھ دیدی گاتی تھیں وہ آوازیں ساری زندگی کانوں میں راس رچاتی رہی ہیں۔ کبھی کبھی ان کی یاد اداس کر دیتی ہے پھر سوچتی ہوں تقدیر میں یہی لکھا تھا۔
’دینا ناتھ فوراً اندر آؤ اور صاحب کو گانا سناؤ‘
لتا اور آشا کی چھوٹی بہنیں اوشا اور مینا خود بھی بہت عمدہ گلوکارائیں رہی ہیں لیکن اُنھوں نے گلوکاری کی لمبی اننگز نہ کھیلی۔ اوشا منگیشکر نے اپنے کریئر میں کئی ایک گیت گائے جو سدابہار ثابت ہوئے۔ سنہ 1955 میں فلم آزاد کے لیے موسیقار سی رام چندر نے اوشا کو لتا کے ساتھ جب یہ گیت ‘اپلم چپلم‘ گوایا تو عام لوگ اوشا اور لتا میں فرق بھی نہ کر سکے۔
قدرت نے منگیشکروں کو سُر اور تال میں پیدا کیا ہے۔ مینا اور اوشا بتاتی ہیں کہ ’ابا جب شراب پینے والے گرو سے فارغ ہوئے تو سارنگی کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ اس کے بعد ایک غیر شرابی گرو سے طبلہ اور گانا سیکھنے لگے۔ ایک دن ابا محلے میں گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ اس محلے میں ایک تھیٹر کمپنی کا ذمہ دار شخص آیا جسے نئے ٹیلنٹ کی تلاش تھی۔ استاد کی بیٹی نے آواز دی ’دینا ناتھ فوراً اندر آؤ اور صاحب کو گانا سناؤ۔‘
اس پر دینا ناتھ جو گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے، اُنھوں نے وہیں سے آواز لگائی ’صاحب کو جانے دو ابھی دینا ناتھ کا ’ٹل‘ لگانے کا وقت ہے۔ اسی طرح ایک تھیٹر کمپنی کا مالک بابا کا آڈیشن لے رہا تھا تو اس شخص نے اپنی کرسی کی پشت ابا کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ ’چلو بچو سناؤ ذرا دو تین تانیں کہ کیا تیر چلاتے ہو تم۔ اس پر دینا ناتھ نے گانا گانے کے بجائے اس سے کہا ’نہیں حضور والا پہلے آپ گائیں‘، اس پر وہ شخص 14 سالہ جواں سال کی شکل دیکھنے لگا۔
مینا اور اوشا بتاتی ہیں کہ ہماری ساری زندگی بابا کو یاد کرتے اُنھیں محسوس کرتے گذری ہے۔ ہم بہت چھوٹی تھیں جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ ہم نے جو تصور ان کا اپنے دل و دماغ میں بسایا ہے وہ بڑا حسین مگر اداس کر دینے والا ہے۔
لتا اپنے والد کی یادیں تازہ کرتی ہیں
پنڈت دینا ناتھ کی سب سے بڑی بیٹی اور بڑی گلوکارہ لتا منگیشکر نے اپنے والد کی برسی پر بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ گذشتہ 78 سالوں میں پنڈت دینا ناتھ کی برسی پر کلاسیکی موسیقی کا عظیم جلسہ منعقد ہوتا رہا جس میں انڈیا سمیت برصغیر کے نامور گائیک اور سازندے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں لیکن اس بار ہم اپنی روایت پر عمل نہیں کر سکیں گے۔
’پچھلے سال بھی کورونا کے باعث ابا کی برسی اس طرح نہیں منائی جا سکی تھی جیسے ہم 70 برسوں سے بھی زیادہ وقت سے مناتے آئے ہیں۔پنڈت دینا ناتھ کی برسی کا آغاز بڑے مشکل حالات میں ہوا تھا۔ اپنے اور بیگانے سبھی منھ موڑ گئے تھے، لیکن میں نے اپنی ماں سے کہا کہ پتا جی کی روح کی شانتی اور ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے ہم ان کا دن منایا کریں گے۔
’سنہ 1943 سے لے کر آج تک والد کی برسی منا رہے ہیں اور اس جلسے میں برصغیر کے سبھی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اس بار کورونا کی وجہ سے جلسہ نہیں ہوپائے گا لیکن ہم اُنھیں یاد کریں گے اور ان کی روح کی شانتی کے لیے پرارتھنا کریں گے۔‘
لتا نے بتایا کہ اُن کے والد کے قریبی دوست وینائک راؤ کرناٹکی پنڈت دینا ناتھ کا دن منانے کے لیے ہماری مدد کرتے رہے۔ وینائک راؤ انڈیا کی مشہور اداکارہ نندا کے والد تھے۔ ’اُنھوں نے مجھے اپنی کمپنی میں نوکری بھی دی جہاں میں بطور ایکٹریس اور سنگر کام کر رہی تھی اور اس طرح ہمارا گھر بار چل رہا تھا۔‘
’ریاض کا زیادہ وقت نہیں ملا ورنہ اور بھی بہتر گاتی‘
آپ کی عمر صرف 13 سال تھی جب آپ کے والد پنڈت دینا ناتھ اس دنیا سے سدھار گئے۔ آپ کے دل و دماغ میں ان کی کیسی یادیں ہیں؟
اس سوال کے جواب میں لتا جی نے کہا کہ یہ جنم تو ان کو یاد کرتے ہی گزر گیا ہے۔ ’مجھے یاد ہے کہ میں پانچ سال کی تھی جب اُنھوں نے مجھے کلاسیکی موسیقی کا درس دینا شروع کیا اور اس سے پہلے اُنھوں نے مجھے گنڈا باندھا اور دعا دی تھی۔
’میرے والد نے اپنے بچپن میں جب وہ 14 برس کے تھے تو ’کرلوسکار سنگیت منڈلی‘ جوائن کر لی تھی۔ اس وجہ سے وہ پورا انڈیا گھومتے رہتے تھے۔ دینا ناتھ کی شادی جب ماں سے ہوئی اور ان کے بچے پیدا ہوئے تو اب ایک خاندان ان کے ہمراہ تھا۔ بچپن کا زمانہ ہم نے بنجاروں کی طرح گذارا لیکن بدقسمتی سے یہ بہت مختصر عرصہ رہا کیونکہ پنڈت دینا ناتھ دنیا چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ہماری زندگیاں یکسر بدل گئی تھیں۔‘
لتا جی نے بتایا کہ اپنے والد کے بعد اُنھوں نے امان اللہ خاں بھینڈی بازار والوں سے سیکھنا شروع کیا۔ ’سیکھنے کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ میرے استاد جی نے کہا کہ اُنھیں اپنے گاؤں جانا ہوگا جہاں سے وہ دو ماہ بعدواپس لوٹیں گے، لیکن وہ واپس نہ لوٹے کیونکہ ان کا قتل کر دیا گیا تھا۔
’اس کے بعد میں نے امانت علی خاں ویواس والوں سے سیکھنا شروع کیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا کیونکہ ان کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔‘
لتا جی نے کہا کہ اپنے والد پنڈت دینا ناتھ کی موت کے بعد اُنھیں ریاض کرنے کا زیادہ وقت نہیں ملا کیونکہ اب اُنھیں اپنے گھر کا باپ بھی بننا تھا۔ ’وہ دن جو میرے کھیلنے کودنے اور سیکھنے کے تھے، میں نے وہ وقت محنت کر کے پیسے کمانے میں صرف کیے۔ اوپر والے کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے جس امتحان میں ڈالا، میں اسے نبھا سکی۔
’میری ماں، ماسی، بھائی اور بہنیں یہ پورا کنبہ تھا جن کی میں نے دیکھ بھال کرنی تھی۔ مجھے اور زیادہ سیکھنا چاہیے تھا لیکن میں بوجوہ سیکھ نہ سکی۔‘
’لتا جی یہ تو آپ کی عاجزی ہے کہ آپ اپنے بارے میں یوں کہہ رہی ہیں، وگرنہ آپ جیسا کس نے گایا ہے؟‘
اس پر لتا جی نے صرف اتنا کہا کہ یہ سب اوپر والے کا کرم ہے۔
’ماسٹر غلام حیدر نے تلفظ کی ادائیگی سکھائی‘
لتا جی سے پوچھا گیا کہ اُنھوں نے پسِ پردہ موسیقی کی تربیت کن موسیقاروں سے حاصل کی ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ راگ اور راگنیوں اور شاستریہ سنگیت سکھانے والے استادوں سے سیکھا۔
’میں ذکر کرنا چاہوں گی ماسٹر غلام حیدر صاحب کا جنھوں نے مجھے سکھایا کہ گاتے ہوئے اپنے تلفظ کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ اسی طرح میوزک ڈائریکٹر انیل بسواس نے مجھے سکھایا کہ مائیک کے سامنے گاتے ہوئے کہاں سانس لینا ہے اور کہاں چھوڑنا ہے۔ سننے میں یہ بہت آسان لگتاہے لیکن اس تکنیک کو گاتے ہوئے بروئے کار لانا ایک مشکل عمل ہے۔
ماسٹر غلام حیدر اور انیل بسواس کے علاوہ سی رام چندر، کھیم چندپرکاش، ایس ڈی برمن، نوشاد، سلیل چوہدری، غلام محمد اور مدن موہن سمیت سب سے سیکھا ہے۔ میں وہ خوش نصیب ہوں جس نے آر سی بورال، شیام سندر اور ہنس لال بھگت سے لے کر ندیم شیرون، انو ملک اور دلیپ سین سمیر سین کے ساتھ گایا ہے۔ اس طرح میں نے موسیقاروں کی چھ نسلوں کے لیے گایا ہے۔
لتا کا لکشمی کانت پیارے لالکے لیے 696 گیتوں کا ریکارڈ
’لتا جی، آپ نے سب سے زیادہ تو لکشمی کانت پیارے لال کے لیے گایا ہے، کیا ان کے ساتھ آپ نے 696 گیت گائے ہیں؟‘
اس پر لتا جی نے کہا کہ جی ہاں یہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس جوڑی نے میرے لیے بہت اچھے اچھے گیت کمپوز کیے جنھیں سننے والوں نے بے حد پذیرائی بخشی۔ اسی طرح شنکر جے کشن، راہول دیو برمن، سی رام چندر، کلیان جی آنند جی، مدن موہن، سچن دیو برمن، نوشاد، روشن اور انیل بسواس سمیت دیگر موسیقاروں نے میرے لیے اعلیٰ سنگیت تخلیق کیا۔
’لتا اور نورجہاں میں وہی فرق ہے جو لندن اور شیخوپورہ میں‘
’لتا جی آپ ملکہ ترنم نور جہاں کو اپنی دیدی کہتی ہیں اور یہ بھی اقرار کرتی ہیں کہ آپ نے ان سے سیکھا، لیکن آپ کے مداح آپ کے فن کا موازنہ نورجہاں سے کرواتے ہیں۔
لاہور میں ایک گلوکارہ نے اپنے استاد سے پوچھا کہ لتا اور نور جہاں میں کیا فرق ہے تو اس استاد نے کہا کہ وہی جو شیخوپورہ اور لندن میں ہے۔ استاد نے لندن آپ کو قرار دیا اور شیخوپورہ نورجہاں کو کہا۔ اس پر آپ کیا کہیں گی؟‘
یہ سنتے ہوئے لتا جی نے قہقہ لگایا اور پھر قدرے سنجیدگی سے کہا کہ ’میں تو ہمیشہ کہتی ہوں کہ دیدی نور جہاں میری استاد رہی ہیں۔نورجہاں میری انسپائریشن رہی ہیں۔ میں نے ان سے سیکھا ہے۔ کئی مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ گاتے ہوئے مختلف الفاظ کو کیسے ادا کرنا ہے میں نے دیدی نور جہاں سے سیکھا ہے۔
’گانا گاتے ہوئے ’محبت‘ کا لفظ بھاری لگتا ہے، اس لفظ کو مائیک میں کس طرح کہنا ہے یہ میں نے دیدی سے سیکھا۔ اسی طرح گاتے ہوئے الفاظ اور شاعری کو کس طرح سُروں اور تال کے ساتھ بیان کرنا ہے، یہ بھی دیدی سے سیکھا۔
’میں نہیں سمجھتی کہ میرا موازنہ نور جہاں سے کرنا چاہیے کیونکہ وہ میری گرو ہیں اور میں نے اپنی زندگی میں جو بھی کیا ہے وہ نور جہاں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح لوگ میری فیورٹ ام کلثوم کو ’مصر کی لتا منگیشکر‘ کہتے ہیں جبکہ میری تو یہ خواہش رہی ہے کہ لوگ مجھے ’انڈیا کی ام کلثوم‘ کہیں۔ پرستاروں اور سننے والوں کا اپنا مزاج ہوتا ہے لیکن یہ فنکار کو سمجھنا چاہیے کہ اصل میں وہ کیا ہے؟
پنڈت دینا ناتھ نے اپنی زندگی میں لتا کو گانے کی اجازت کیوں نہ دی، اس پر لتاجی نے کہا کہ اگرچہ اُن کے والد فنکار تھے اور موسیقی،اداکاری اور دیگر فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے لیکن اپنی اولاد خاص طور پر بیٹیوں کے لیے خیال کرتے تھے کہ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے کیونکہ اُنھیں کامیاب فنکار بننے کے لیے شبانہ روز جدوجہد کرنی پڑی تھی۔
’وہ شراب اور شراب پینے والوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے لیکن نوٹنکی اورمنڈلی کے لیے کام کرتے ہوئے اُنھیں شراب کی عادت لگ گئی تھی۔پرانے وقتوں میں اداکار ہی صداکار ہوتے تھے اور اچھا فنکار اسے مانا جاتا تھا جو بیک وقت مرد اور عورت کی آواز میں گا سکتا تھا۔
’دینا ناتھ مرد اور عورت دونوں آوازوں میں گاتے تھے۔ اُنھوں نے ریاض ہی ایسا کیا تھا جس سے ان کی آواز باریک ہوگئی تھی پھر کسی نے اُنھیں مشورہ دیا کہ آپ مرد کی آواز میں گاتے ہوئے تھوڑی شراب پی لیا کریں جس سے آپ کی آواز میں مردانہ وجاہت بڑھ جائے گی۔
’آغاز میں پتا جی آواز میں مردانہ وجاہت کے لیے شراب پیتے رہے بعد ازاں وہ اس کے عادی ہوگئے۔ ان کی اس منحوس عادت نے ہم سے ہمارا باپ چھین لیا۔ میں 13 برس کی تھی جب میں نے اپنے والد کو کھویا تھا، آج میں 91 برس کی ہوں۔ یہ ساری زندگی تو انھیں یاد کرتے گزر گئی ہے، بھگوان سے دعا ہے کہ اگلے جنم میں پنڈت دینا ناتھ لمبی عمر پائیں اور ان کا سایہ شفقت تادیر ہم پر قائم رہے۔