آفتاب آفریدی انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج اور اہلخانہ کے قتل میں سپریم کورٹ ہار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نامزد
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج آفتاب آفریدی کے قتل کے واقعے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی اور ان کے بیٹے دانش آفریدی سمیت پانچ افراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
جج آفتاب آفریدی، ان کی اہلیہ، حاملہ بہو اور کم سن پوتے کو نامعلوم افراد نے اتوار کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ شام چھ سے سات بجے کے درمیان موٹروے پر ضلع صوابی کی حدود میں پیش آیا تھا۔ پولیس نے آفتاب آفریدی کے بیٹے عبد الماجد آفریدی کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ جج آفتاب آفریدی کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور یہ کہ اُن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ پولیس اس حوالے سے جس طرح کی انکوائری کرنا چاہے وہ اُس کے لیے تیار ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ پولیس اگر کہے گی تو وہ تفتیش میں شامل ہونے کے لیے بھی تیار ہیں اور انھیں یقین ہے کہ سچ ضرور سامنے آئے گا۔
صوابی کے ضلعی پولیس افسر محمد شعیب نے بی بی سی کو بتایا کہ ایف آئی آر میں دس افراد نامزد ہیں جن میں چھ معلوم اور چار نامعلوم افراد ہیں اور پولیس نے اب تک پانچ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ دو مشتبہ گاڑیاں بھی تحویل میں لی گئی ہیں جن کا ذکر ایف آئی ار میں کیا گیا ہے۔
ولیس حکام کا کہنا ہے کہ مزید تفتیش کی جا رہی ہے اور جب لواحقین تدفین سے فارغ ہوں گے تو ملزمان اور گاڑیوں کی شناخت کا عمل شروع کیا جائے گا۔
دوسری جانب مقتول جج آفتاب آفریدی کے بھائی سعید آفریدی نے ایک میڈیا بیان میں کہا ہے کہ وہ ‘لاشوں کو تب تک نہیں لے کر جائیں گے جب تک تمام ملزمان کو گرفتار نہ کر لیا جائے۔‘
خاندانی دشمنی؟
جج آفتاب آفریدی کے چھوٹے بیٹے طاہر آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 1974 سے پہلے آفتاب آفریدی اور لطیف آفریدی کا ایک ہی خاندان تھا جن کی مشترکہ طور پر ایک تیسرے فریق سے دشمنی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس دشمنی کے دوران ان کے خاندان کے چند افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جس کے بعد ان میں چند اختلافات پیدا ہوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مقدمے میں ان کے ماموں سمیع اللہ آفریدی وکالت کر رہے تھے۔ شکیل آفریدی کے کیس میں لطیف آفریدی بھی وکیل تھے لیکن پھر اچانک سمیع اللہ آفریدی کو مبینہ طور پر دھمکی آمیز فون کالز موصول ہونے لگیں جس پر سمیع اللہ آفریدی ایک خلیجی ملک چلے گئے تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ واپسی پر ان کے ماموں سمیع اللہ آفریدی شکیل آفریدی کے کیس سے دستبرادار ہو گئے تھے لیکن مارچ 2015 میں انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر کچھ علم نہیں تھا کہ یہ قتل کس نے کیا کیونکہ بظاہر اشارے شدت پسندوں اور دیگر تنظیموں کی طرف کیے جا رہے تھے۔ اس کے بعد ہم نے سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو درخواست دی جس میں اس قتل کی انکوائری کے لیے کہا گیا تھا۔ اس انکوائری میں پولیس سے جو معلومات ملیں ان کے مطابق یہ قتل کسی شدت پسند گروہ کا نہیں تھا بلکہ اس میں پرائیویٹ افراد ملوث ہو سکتے ہیں۔‘
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد لطیف آفریدی کے ایک رشتہ دار وزیر آفریدی کو دسمبر 2019 میں پشاور میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کا باقاعدہ الزام سمیع اللہ آفریدی کے بیٹے عدنان آفریدی پر عائد کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں نامزد ہونے سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ’میں گاؤں میں اپنے بچوں کے ساتھ شجرکاری کے لیے گیا تھا ہم واپس آئے تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔‘
’بظاہر ایسا کوئی حساس نوعیت کا مقدمہ نہیں جس کی وہ (آفتاب آفریدی) سماعت کر رہے ہوں یا بظاہر ایسا کوئی فیصلہ نہیں جو انھوں نے حال ہی میں سُنایا ہو۔ لیکن جس انداز میں ان کو اور ان کے اہلخانہ کو قتل کیا گیا، اس میں اب دیکھا جائے گا کہ اس کی تفتیش سے کیا سامنے آتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر ذاتی دشمنی کی بات کی جائے تو پٹھانوں میں یہ روایت نہیں کہ گھر کے بچوں اور خواتین کو اس طرح قتل کیا جائے۔ ایسا حملہ کہ سارے اہلِ خانہ کو ہی ختم کر دو۔۔۔ دیکھا جائے گا کہ تفتیش کس طرف جائے گی۔ ہمارے ہاں اس قسم کے کیسز کی تفتیش ہی مکمل نہیں ہوتی اور سب درمیان میں ہی ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔‘
اس سے قبل بی بی سی سے گفتگو میں ان کے بیٹے نے اپنے والد کے قتل کے حوالے کہا تھا کہ ابھی فی الحال وہ اس معاملے پر کوئی بات نہیں کر سکتے تاہم بعد میں ایف آئی آر میں ان کی جانب سے لطیف اللہ آفریدی اور ان کے بیٹے سمیت چند اور افراد کا نام لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ خاندانی دشمنی کی بنیاد پر کیا گیا قتل ہے۔
اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے موقع پر موجود ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’انبار انٹرچینج سے دس کلومیٹر آگے یہ واقعہ پیش آیا ہے۔‘
’ملزمان کی شناخت کر سکتا ہوں‘
اس واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق جج آفتاب آفریدی پشاور میں شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنے اہلخانہ کے ہمراہ اسلام آباد جا رہے تھے جبکہ اس کیس کے مدعی عبدالماجد اور اُن کے کزن دوسری گاڑی میں ان کے پیچھے روانہ تھے۔
ضلع صوابی کی حدود میں موٹر وے پر قیام و طعام کے قریب دو گاڑیاں سامنے آئیں اور آفتاب آفریدی کی گاڑی کو روک دیا۔
مدعی عبد الماجد کے مطابق ان کی گاڑی کچھ فاصلے پر تھی جب دو گاڑیوں سے کچھ افراد باہر آئے اور ان کے والد یعنی جج آفتاب آفریدی کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔
مدعی نے بتایا کہ وہ سامنے آ کر ملزمان کو شناخت کر سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے کچھ فاصلے پر اپنی گاڑی روک دی اور یہ واقعہ رونما ہوتے دیکھا۔
جج آفتاب آفریدی کون تھے؟
جج آفتاب آفریدی کا تعلق ضلع خیبر کے برقمبر خیل سے تھا۔
انھیں رواں برس فروری میں ضلع سوات میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ چیئرمین لیبر کورٹ تھے۔
ان کے ساتھ کام کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ ایک نہایت نفیس انسان تھے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل رہنما نور عالم ایڈوکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک ججز پر دہشت گردی کے آٹھ کے قریب حملے ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے لگتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے تربیت یافتہ لوگ تھے۔
انھوں نے کہا کہ پولیس اس کیس کی تفتیش میں دو زاویوں سے دیکھے گی کہ کیا یہ ذاتی دشمنی میں تو نہیں ہوا یا پھر اس کا تعلق ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے تھا۔
انھوں نے بتایا کہ جج آفتاب آفریدی کی علاقے میں دشمنیاں بھی تھیں لیکن جب کوئی شخص ڈیوٹی کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہو اور اس پر حملہ کیا جائے تو اس نکتے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور جج آفتاب آفریدی اسلام آباد سے سوات جا رہے تھے جہاں وہ ان دنوں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جج کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔‘
وزیراعظم عمران خان نے جج آفتاب کے قتل کی مذمت کی ہے۔
وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے پولیس حکام کو واقعے میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور انھیں پورا انصاف دیا جائے گا۔