آسکر ایوارڈز 2021 کیا اس برس کے اکیڈمی ایوارڈز ہالی وڈ میں ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں؟
سنہ 2015 میں آسکر ایوارڈز پر اس وقت زبردست تنقید ہوئی جب نامزد کیے گئے تمام 20 افراد سفید فام تھے۔ جس کے بعد ’ہیش ٹیگ آسکرز سو وائٹ ‘دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگا۔
سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد ادارے نے اس کی جانچ کی اور اس سال تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ غیر سفید فام فنکار نامزد کیے گئے ہیں لیکن نامزدگی ہی سب کچھ نہیں، اصل بات ایوارڈ جیتنے کی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس برس آسکر ایوارڈز ایک نئی تاریخ رقم کریں تو ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
اگر کلوئے زاؤ بہترین ہدایتکار کا ایوارڈ جیت جاتی ہیں تو وہ پہلی ایسی خاتون ہدایت کار ہوں گی جو کہ سفید فام نہیں ہیں۔
چینی نژاد امریکی ہدایتکار زاؤ کو فلم ’نومیڈ لینڈ‘ کے لیے نامزد گیا گیا ہے جو کہ ایک ایسی خاتون کی کہانی پر مبنی ہے جسے سنہ 2008 میں آنے والے مالی بحران کے بعد امریکہ کے مغربی حصے میں کام کی خاطر سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
زاؤ اگر جیت جاتی ہیں تو وہ آسکرز کی 92 برس کی تاریخ میں دوسری خاتون ہوں گی جنھیں یہ اعزاز ملے گا۔
یہ ایوارڈ اس سے پہلے صرف ایک خاتون کیتھرین بگلو کو عراق جنگ کے حالات ہر مبنی فلم ’دی ہیرٹ لاکر‘ کے لیے مل چکا ہے۔
لیکن بہترین ہدایتکار ہی وہ واحد کیٹیگری نہیں جس میں زاؤ کو ایوارڈ مل سکتا ہے، وہ بہترین فلم، سکرین پلے اور ایڈیٹنگ کی کیٹیگری میں بھی آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ہیں۔
اگر وہ چاروں کیٹیگریز میں ایوارڈ جیت جاتی ہیں تو وہ تاریخی طور پر دوسری ایسی انسان اور پہلی عورت ہوں گی جنھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہو گا۔
والٹ ڈزنی پہلے ایسے انسان ہیں جنھوں نے 1954 میں ریکارڈ چار آسکر ایوارڈز حاصل کیے تھے۔ اس میں بہترین ڈاکومنٹری فیچر، بہترین ڈاکومنٹری شارٹ سبجیکٹ، بہترین کارٹون اور بہترین شارٹ سبجیکٹ ٹو ریل کے ایوارڈز شامل ہیں۔
زاؤ کی جیت اس لحاظ سے بھی زیادہ اہم ہو گی کیونکہ وہ جن چار کیٹیگیریز میں نامزد ہوئی ہیں وہ آسکر ایوارڈز کے لیے بہت معتبر سمجھے جاتی ہیں۔
بہترین فلم
نامزد ہونے والوں میں زاؤ واحد خاتون نہیں۔ برطانوی اداکارہ اور مصنف ایمیرلڈ فینل کو بہترین فلم، بہترین ہدایتکار اور بہترین اورجینل سکرین پلے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
یہ نامزدگی انھیں فلم ’پرامیسنگ ینگ ویمن‘ پر ملی ہیں جو کہ 30 برس کی ایک لڑکی کی کہانی ہے جو کہ میڈیکل کالج چھوڑ کر اپنی دوست کے ریپ اور قتل کا بدلہ لینے نکل پڑتی ہے۔
اگر وہ یہ تینوں ایوارڈ جیت جاتی ہیں تو وہ پہلی ایسی خاتون ہوں گی جو کہ آف سکرین یعنی پردے کے پیچھے کے تین سب سے بڑے شعبوں میں یہ اعزاز حاصل کریں گی۔
اسی طرح شاکا کنگ، چارلس ڈی کنگ اور رائن کوگلر ایسے تین پروڈیوسرز کی ٹیم ہے جنھوں نے فلم ’جوڈاس اینڈ بلیک مسیحا‘ بنائی ہے۔ اگر وہ بہترین فلم کا ایوارڈ جیت جاتے ہیں تو وہ اس کیٹیگری میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی مکمل سیاہ فام ٹیم ہو گی۔
بہترین اداکار
یہ سال آسکر ایوارڈز کے لیے اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں پہلی بار بہترین اداکار کی صف میں ایک مسلمان اداکار رز احمد کو نامزد کیا گیا ہے۔
رز احمد کو فلم ’ساؤنڈ آف میٹل‘ میں سماعت سے محروم ڈرمر کا کردار ادا کرنے پر اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ آسکرز ایوارڈ میں کسی مسلمان اداکار کو نامزد کیا گیا ہو یا اسے ایوارڈ سے نوازا گیا ہو۔
اس سے پہلے سنہ 2017 میں مارشالا علی کو پہلے مسلمان آسکرز ایوارڈ یافتہ اداکار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا لیکن انھیں یہ اعزاز بہترین معاون اداکار کی کیٹیگری میں ملا تھا۔
2019 میں انھیں ایک مرتبہ پھر یہ اعزاز اپنی فلم ’گرین بک‘ پر ملا تھا۔
رز احمد کا مقابلہ ایک اور برطانوی اداکار سے ہے، جو اگر یہ ایوارڈ جیت جاتے ہیں تو وہ بھی ایک انوکھی تاریخ رقم کریں گے۔
سر اینتھونی ہاپکنز جو ایک سفید فام اداکار ہیں، کو فلم ’ان دی فادر‘ میں اداکاری کرنے پر بہترین اداکار کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
ان کی عمر 83 برس ہے اور ایوارڈ جیتنے کی صورت میں وہ اس کیٹیگری میں اعزاز حاصل کرنے والے طویل العمر اداکار ہونے کا ریکارڈ بھی قائم کریں گے۔
آٹھ بار بدقسمت رہنے والی اداکارہ
ایک اور ہالی وڈ اداکارہ گلین کلوز بھی اس سال کے آسکرز میں ایک ریکاڈ قائم کر سکتی ہیں۔
امریکی اداکارہ اس سے پہلے سات مرتبہ آسکرز کے لیے نامزد ہو چکی ہیں لیکن اب تک انھیں ایک بار بھی یہ ایوارڈ نصیب نہیں ہوا۔ اگر اس مرتبہ بھی انھیں یہ ایوارڈ نہیں ملتا تب بھی وہ آٹھ بار نامزد ہو کر ایوارڈ نہ حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کریں گی۔
ان سے پہلے یہ ریکارڈ مرد اداکار پیٹر و ٹول قائم کر چکے ہیں۔