دلی فسادات اور شاہ رخ پٹھان خان مودی حکومت سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو ’کہیں نہ کہیں پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے‘
امی پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا، میرا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا، میں جلدی گھر آ جاؤں گا۔‘
فون پر جب شاہ رخ کی والدہ اپنے بیٹے کے یہ الفاظ دہرا رہی تھیں تو ان کی آواز میں کرب اور ممتا دونوں محسوس ہو رہی تھیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا انتہائی سادہ انسان ہے۔ ’اس روز حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکا اس کے بہت سے ہندو دوست ہیں جو آج بھی اس کے لیے فکر مند ہیں۔‘
شاہ رخ پٹھان خان ایک ایسا چہرہ تھا جو انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون این آر سی کے خلاف سنہ 2019 میں شروع ہونے والے احتجاج کے بعد فسادات کے دوران اخبارات اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔
شاہ رخ: دلی دنگوں کا ’پوسٹر بوائے‘
24 فروری 2020 کو دلی میں فسادات کے دوران ہاتھ میں گن اٹھائے لال شرٹ اور نیلی جینز میں جب ایک نوجوان کی تصویر میڈیا میں آئی تو کسی چینل نے اُسے دلی دنگوں کی سازش کی اہم کڑی کہا تو کسی نے شیطان، تو کسی نے دلی دنگوں کا ’پوسٹر بوائے۔‘
شاہ رخ کو گذشتہ سال تین مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف اقدامِ قتل اور آرمز ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں اور اب وہ دلی کی تہاڑ جیل کے سیل نمبر چار میں ایک سال سے اپنی ضمانت کے منتظر ہیں۔
شاہ رخ کے وکیل ایڈووکیٹ خالد اختر کا کہنا ہے کہ عدالت سے پہلے ہی میڈیا میں شاہ رخ کا ٹرائل شروع ہو چکا تھا اور اسے دلی دنگوں کا پوسٹر بوائے بنا دیا گیا۔
ایڈووکیٹ خالد اختر سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور انھوں نے گذشتہ سال دسمبر میں ہی شاہ رخ کا کیس لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کی خبریں کسی بھی کیس پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
خالد کہتے ہیں کہ شاہ رخ پچھلے ایک سال سے اپنی ضمانت کے منتظر ہیں جبکہ ایسے ہی ایک کیس میں کپل گجر نام کے اس شخص کو رہا کر دیا گیا جنھوں نے فروری میں ہی شاہین باغ میں جاری احتجاج کے نزدیک فائرنگ کی تھی۔ شاہ رخ کی والدہ نے سوال کیا کہ یہ دوہرا میعار کیوں؟
بی جے پی کا موقف
اس بارے میں بی جے پی کے ترجمان اور رکنِ پارلیمان امیتابھ سنہا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کچھ لوگوں کو ضمانت نہیں مل رہی تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کپل گجر کے خلاف وہ ثبوت نہ ہوں جو دوسرے گرفتار لوگوں کے خلاف ہیں۔ عدلیہ پر حکومت کے دباؤ کے الزامات کے بارے میں امیتابھ سنہا کہتے ہیں کہ پارٹی جانبدار ہو سکتی ہے لیکن عدلیہ نہیں، اس ملک کی عدلیہ آزاد ہے۔‘
بہرحال شاہ رخ کی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہوتی جا رہی ہیں اور جون 2020 میں ہونے والی ایک سماعت میں ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جسٹس سریش کمار کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہیرو بننے کی کوشش کریں گے تو آپ کو قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔ آپ ہیرو بننا چاہتے تھے۔‘
شاہ رخ کی ضمانت کی اگلی سماعت اب 25 مارچ کو ہو گی۔ شاہ رخ کے دوست اور مقامی صحافی اخلاق خان کا کہنا ہے کہ شاہ رخ کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں اور اگر تحقیقات ہو چکی ہیں اور چارج شیٹ بھی داخل کی جا چکی ہے تو پھر اسے ضمانت مل جانی چاہیے۔ انھیں امید ہے کہ اس بار شاہ رخ کو ضمانت مل جائے گی