انڈیا چین سرحدی تنازع وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’چین سے فوج پیچھے ہٹانے کے معاہدے میں انڈیا نے کچھ نہیں کھویا
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ لداخ میں فوجیں پیچھے ہٹانے کے لیے چین سے جو معاہدہ ہوا ہے اس میں انڈیا نے کچھ نہیں کھویا ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس معاہدے پر عمل سے ایک برس پہلے گلوان وادی کے ٹکراؤ سے پہلے جیسی پر امن صورتحال بحال ہو جائے گی۔
راج ناتھ سنگھ نے انڈیا کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اس معاہدے کے بارے میں ایک تفصیلی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’چین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق دونوں ممالک لداخ خطے میں فارورڈ محاذوں سے اپنے فوجیوں کو مرحلے وار اور مربوط طریقے سے پیچھے ہٹائیں گے اور اس کی تصدیق کی جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چین اپنے فوجی دستوں کو پینگونگ سو جھیل کے شمالی کنارے پر فنگر ایٹ کے مشرق میں تعینات رکھے گا اور اسی طرح انڈیا اپنے فوجی دستوں کو فنگر تھری کے پاس اپنی مستقل پوسٹ پر رکھے گا۔ یہ ہی کارروائی دونوں فریقوں کے درمیان جنوبی کنارے پر بھی کی جائے گی
انڈیا کے وزیر دفاع نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ اس کے ذریعے گذشتہ برس کے تعطل سے پہلے جیسی صورتحال بحال ہو جائے گی۔ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس بات چیت میں ہم نے کچھ بھی نہیں کھویا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ستمبر سے سفارتی اور فوجی سطح پر جاری مذاکرات میں یہ بھی طے پایا ہے کہ اپریل 2020 کے دوران جھیل کے شمالی اور جنوبی کنارے پر جو بھی تعمیرات کی گئی ہیں انھیں ہٹا دیا جائے گا اور پرانی صورتحال قائم کر دی جائے گی۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’دونوں فریق شمالی کنارے پر اپنی فوج کی سرگرمیوں جس میں روایتی گشت بھی شامل ہے وہ عارضی طور پر معطل رکھیں گے۔ پیٹرولنگ تبھی شروع کی جائے گی جب فوج یا سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے کوئی سمجھوتہ طے پا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب بھی ایل اے سی پر فوجوں کی تعیناتی اور گشت کے سوال پر کچھ تصفیہ طلب نکات ہیں جن پر آئندہ کی بات چیت میں توجہ مرکوز کی جائے گی۔‘
راج ناتھ سنگھ نے کہا ’چین سے مذاکرات میں، ہم نے چین کو بتایا ہے کہ ہم تین اصولوں کی بنیاد پراس مسئلے کا حل چاہتے ہیں:
1. دونوں فریق اس ایل اے سی کو تسلیم کریں اور اس کا احترام کریں
2. دوسرا کوئی بھی فریق موجودہ صورتحال کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے
3. تمام معاہدوں پر دونوں فریق پوری طرح عمل کریں۔‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین آزادی سے پہلے انگریزوں کے ذریعے وضع کی گئی سامراجی دور کی ایل اے سی کو تسلیم نہیں کرتا۔ چین ارونا چل پردیش میں 90 ہزار مربع کلومیٹر زمین کو اپنی حدود قرار دیتا ہے۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے 1962 کی جنگ کے بعد لداخ خطے میں 38 ہزار مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کر لیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ جون میں وادی گلوان میں ایک خونریز جھڑپ میں انڈیا کے 20 فوجی مارے گئے تھے۔ چینی فوجیوں نے اس جھڑپ کے بعد پینگونگ سو جھیل کے شمالی علاقے میں ایل اے سی سے آگے بڑھ کر فنگر چار تک قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے پہلے انڈیا کا کنٹرول فنگر ایٹ تک تھا۔
چین کی وزارت دفاع کے ترجمان وو کیان نے ایک بیان میں کہا کہ فوجی کمانڈروں کی نویں دور کی بات چیت میں جو اتفاق ہوا تھا اسی کے مطابق بدھ سے فرنٹ لائن سے فوجیوں کو ایک ساتھ ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘امید ہے کہ انڈیا دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر پوری طرح عمل کرے گا تاکہ فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا عمل خوش اسلوبی سے شروع ہو سکے۔’
تجزیہ کار ریتوشا تیواری نے اس معاہدے کو موجودہ حالات میں ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘پہلے دونوں ممالک اس خطے سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹائیں۔ تاکہ دونوں فورسز جو بھاری تعداد میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں وہ اس حالت میں نہ رہیں۔ دوسرہ مرحلہ یہ ہے کہ دونوں گلوان کے ٹکراؤ سے پہلے والی پرامن حالت میں پہنچ سکیں اور اس صورتحال تک پہنچنے کے لیے یہ ایک اچھا قدم ہے۔ لیکن حالات کافی نازک ہیں اور بہت زیادہ پر امید ہونا کہ سب کچھ حاصل ہو گیا ہے غلط ہو گا۔’
فوجیں پیچھے ہٹانے کا یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب گزشتہ دنوں یہ خبر آئی تھی کہ چین نے پینگونگ سو جھیل کی فنگر چار سے سات کے درمیان حال میں اضافی بھاری ہتھیار نصب کیے ہیں۔
خبروں کے مطابق فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا عمل مرحلے وار ہوگا۔ پہلے مرحلے میں بھاری توپیں، ٹینک اور مزائل لانچرز وغیرہ محاذ سے ہٹائے جائیں گے جبکہ جو فوجی آگے کے محاذوں پر تعنیات ہیں وہ بدستور اپنی پوزیشن پر تعینات رہیں گے اور وہ انھیں مرحلہ وار پیچھے ہٹایا جائے گا۔
پینگونگ سو جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں پر دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی تعینات ہیں۔چین کے اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک سرکردہ تجزیہ کار کیان فینگ کے حوالے سے لکھا ہے ‘اس قدم سے سرحد پر کشیدکی کم کرنے میں اور خطے میں جلد سے جلد امن واستحکام قائم کرنے میں مدد ملے گی۔’
کیان نے لکھا ہے کہ ‘پینگونگ سو جھیل کے شمالی کنارے پر طویل عرصے سے تعطل برقرار رہا ہے کیونکہ انڈیا اس خطے کے بارے میں یہ کوشش کر رہا تھا کہ چین اس کے موقف کو تسلیم کر لے۔ یہی وجہ تھی کہ حال میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔‘
یہ پورا خطہ پہلے انڈیا کے زیر انتظام تھا جس پر چین نے گزشتہ جون میں ایک خونریز ٹکراؤ کے بعد قبضہ کر لیا ہے۔انڈیا کے لیے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن بہت پیچیدہ ہے کیونکہ اس کی فوجوں کو خود اپنے ہی علاقے میں پیچھے ہٹنا پڑے گا