پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ پر سمیع چوہدری کا کالم: مگر نعمان علی کا پلان کچھ اور تھا
محنت اور لگن سے حالات کو بدلنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے مگر فطری عوامل سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب ان فطری عوامل کے ساتھ یاسر شاہ اور نعمان علی جیسا تجربہ بھی شامل ہو جائے تو حریف کی بے بسی بالکل قابلِ توجیہہ ہے۔
پہلی اننگز کے بحران کے بعد جنوبی افریقہ نے پوری لگن اور سنجیدگی کے ساتھ حالات کو بدلنے کی کوشش کی۔ راسی وان ڈر ڈسن اور ایڈم مارکرم کی اننگز میں ہمیں یہ جستجو نظر آئی کہ وہ اس میچ کا رخ اور اپنی ٹیم کا مقدر بدلنا چاہتے تھے۔
پہلے روز جس طرح جنوبی افریقی بلے باز اپنی ہی انا کی بھینٹ چڑھے تھے، اس سے مارکرم اور راسی نے خوب سبق سیکھا اور اپنی انا کو پسِ پشت ڈال دیا۔ جمعرات کو لنچ کے بعد کے سیشن میں دونوں نے جس قدر سست بیٹنگ کی، وہ ایشین کنڈیشنز میں مزاحمت کی بہترین مثال تھی۔
رنز سوکھتے گئے، باؤنڈریز عنقا ہو گئیں مگر مارکرم اور راسی نے اپنی انا کو آڑے نہیں آنے دیا۔ صرف دفاع پہ دھیان دیا اور پاکستانی اٹیک کے تھکنے کا انتظار کیا
پاکستان کے لیے وہ کھیل کا مشکل مرحلہ تھا۔ جب اچھی بولنگ بھی کوئی مواقع پیدا نہ کر پائے تو فیلڈنگ ٹیم دل برداشتہ ہو جاتی ہے اور بسا اوقات بولر مختلف تجربات شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہوا۔
جمعرات کی شام کے سیشن میں انہی دونوں بلے بازوں نے جس رفتار سے سکور بورڈ کو آگے بڑھایا، پاکستان کی اچھی خاصی برتری دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو گئی۔ گمان یہ تھا کہ چار مزید مستند بلے بازوں کے ہوتے ہوئے جنوبی افریقہ ایک قابلِ قدر ہدف تشکیل دے پائے گا
یکن کراچی کی وکٹ پہ سمندری ہواؤں کے طفیل شام کا سیشن ہی سب سے دلچسپ اور ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ اسی میں ریورس سوئنگ بھی زیادہ ہوتی ہے اور کاریگر سپنرز بھی اپنا جادو جگاتے ہیں۔
پہلے دن شام کے سیشن میں جس طرح جنوبی افریقی بولرز نے پاکستانی بلے بازوں کے طوطے اڑائے تھے، کل شام یاسر شاہ نے اسی کارکردگی کو دہرا دیا۔
یاسر شاہ پر امید تھے کہ چوتھے دن جلد از جلد جنوبی افریقہ کو آؤٹ کر لیں گے۔ یہ جلدی بالکل بجا تھی کیونکہ یہیں اگر ہدف ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہو جاتا تو کیشو مہاراج ایسے چال باز کھلاڑی کو بساط پہ رنگ جمانے کا موقع مل جاتا۔
چوتھی اننگز کی بیٹنگ کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ وکٹ کیسی بھی ہو، صرف تھکاوٹ ہی بلے باز کا ارتکاز اڑانے کو کافی ہوتی ہے۔ پاکستان کا ویسے بھی چوتھی اننگز کے چھوٹے اہداف کے تعاقب میں پگھل جانے کا دیرینہ ریکارڈ ہے۔
لیکن نعمان علی کا پلان کچھ مختلف تھا۔ یاسر شاہ عموماً بلے باز کو ایک پورے پلان کے ساتھ اوور در اوور پھنساتے ہیں اور پھر اچانک اسے ہاتھ کھلنے پہ مجبور کرتے ہیں اور اپنی سپن کی ورائٹی سے اسے بے بس کر چھوڑتے ہیں۔
نعمان علی کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ نعمان عمومی لیفٹ آرم سپنرز کی طرح بلے باز کو اینگل سے پھنساتے ہیں۔ لائن ایسی رکھتے ہیں کہ بلے باز مدافعانہ ذہنیت سے نکلنے پہ مجبور ہو جائے مگر لینتھ بلے باز کے دفاع کو آشکار کر چھوڑتی ہے۔ اس کے ساتھ اگر باؤنس کا تغیر اور رفتار کا بدلاؤ بھی شاملِ حال ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔
اتنی زیادہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے بعد اس عمر میں انٹرنیشنل ڈیبیو کرنا ہی اچنبھے کی بات ہے مگر نعمان نے اتنے سال اپنے حوصلوں کو جیسے پست نہیں ہونے دیا، یہ بھی بڑی بات ہے۔ اور اسی تسلسل کا پھل تھا جو ڈیبیو پہ ہی سات وکٹوں کی شکل میں ملا۔
جنوبی افریقہ کو ایشیا میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتے عرصہ ہو چکا ہے۔ کراچی ٹیسٹ میں شکست جنوبی افریقہ کی ان کنڈیشنز میں متواتر آٹھویں شکست ہے۔ اور ان سبھی ناکامیوں کا پیٹرن بھی ایک ہی طرح کا ہے کہ ہمیشہ سپن نے ہی ان کے منصوبوں پہ پانی پھیرا۔
المیہ یہ ہے کہ پہلے جیک کیلس اور اب ہاشم آملہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنوبی افریقہ ابھی تک کوئی ایسا بلے باز سامنے نہیں لا پایا جو سپنرز کو تھکانا جانتا ہو۔ ان کی ساری امیدیں فاف ڈوپلیسی سے جڑی ہیں جو بہت کوشش کے باوجود بھی اپنا ایشین ریکارڈ بہتر نہیں کر پائے۔
جیت تو ہمیشہ ہی فرحت بخش ہوتی ہے مگر پاکستان کے لیے اس فتح کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کی آمد سے اب تک یہ ان کے خلاف پاکستان کی محض پانچویں ٹیسٹ وکٹری ہے۔
اس کے سوا یہ کہ اس ایک جیت نے ڈریسنگ روم اور کوچنگ سٹاف کے سروں سے بہت سا بوجھ اتار دیا ہے۔ جو بے یقینی کی صورت حال پچھلے دو ہفتوں سے طاری تھی، اب وہ بھی نارمل ہونے لگے گی اور اگر اس جیت کی تاثیر صحیح معنوں میں اس ٹیم میں سرایت کر گئی تو اگلے میچز میں زیادہ پر اعتماد کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔