درجنوں مقدمات میں زیر تفتیش برجوش ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی اپنے حامیوں میں اتنے مقبول کیوں ہیں؟
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئیووا کاکسز میں فتح حاصل کر کے 2024 کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن ٹکٹ حاصل کرنے کے واضح طور پر قریب پہنچ گئے ہیں۔ آئیووا کاکسز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد ریپبلکن ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمند تمام امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ تھی۔
بائیوٹیک ٹیکنالوجی سے منسلک کارباری شخصیت وِویک رام سوامی جو حالیہ دنوں میں ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کی توجہ کا مرکز رہے تھے وہ بھِی ریپبلکن ٹکٹ حاصل کرنے کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں اور انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کردی ہے۔
ان کے بعد ایسا ہچنسن بھی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی ٹکٹ حاصل کرنے کی ریس سے دستبردار ہو چکے ہیں۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال پانچ نومبر کو امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعد میں انتخابات بھی جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ جدید امریکی تاریخ کی پہلی شخصیت بن جائیں گے جو انتخابات میں شکست کے بعد صدارت کے عہدے سے محروم ہوئے لیکن پھر اگلے انتخابات جیت کر اقتدار میں واپس آ گئے۔
امریکہ کی تاریخ میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی آخری شخصیت گرور کلیولینڈ تھے جو 1892 میں ملک کے دوسری بار صدر منتخب ہوئے تھے۔
آئیووا کاکسز میں جیت کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ان کی اس جیت سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ ریپبلکن جماعت کے حامیوں میں ان کی مقبولیت برقرار ہے۔
مگر ٹرمپ کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
معیشت
آئیووا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ سابق صدر اقتدار میں واپس آ کر ملک کی معیشت کو بہتر کر سکتے ہیں۔ آئیووا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حامی کا کہنا تھا کہ ’وہ معشیت کو دوبارہ عروج پر لائیں گے اور پیٹرول کی قیمت واپس نیچے لائیں گے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے صاحبزادے بھی بی بی سی پوڈکاسٹ کے دوران کہہ چکے ہیں کہ ’لوگوں کو اس ملک کے لیے خوشحالی اور طاقت چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے والد کے دور میں ہم تاریخی طور پر سب سے بڑی معیشت بن گئے تھے۔ بیروزگاری، مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتیں بھی کم تھیں۔‘
یہ بات درست ہے کہ دنیا میں کورونا وائرس پھیلنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں امریکہ کی معیشت کی کارکردگی اچھی تھی لیکن اس سے قبل پچھلے ادوار میں بھی ایسا وقت آیا جب امریکہ کی معیشت مضبوط تھی اور ایسا سابق صدر اوبامہ کے دورِ حکومت میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔
صدر جو بائیڈن کے دور میں یوکرین میں شروع ہونے والی جنگ کے سبب گیس اور تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھیں جس سے شرحِ مہنگائی 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی لیکن مہنگائی کی یہ شرح دوبارہ نیچے آئی اور مزید مستحکم ہوئی۔
’ڈائنامک ٹرمپ بمقابلہ سلیپی جو‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخانی مہم کے سابق کمیونیکیشن ڈائریکٹر مارک لوٹر کہتے ہیں کہ اگر سابق صدر ٹرمپ اور موجودہ صدر جو بائیڈن کا موازنہ کیا جائے تو پلڑا ٹرمپ کا بھاری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب 2020 میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے کام کر رہا تھا تو اس وقت بائیڈن کے پاس ایک چیز نہیں تھی اور وہ تھا ریکارڈ۔ اب بائیڈن کا ایک ریکارڈ ہے جو لوگوں کو پسند نہیں۔‘
ٹرمپ کے ایک اور حامی بلاتھریس کے مطابق ٹرمپ ایک ’ڈائنامک رہنما‘ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں کیا کیا۔ ہمیں وہ کارکردگی واپس چاہیے، ہم نے بائیڈن کے دور میں اپنے ملک کا زوال دیکھ لیا۔ ہمیں امریکی عوام کی وہی حمایت درکار ہے جو ٹرمپ پچھلی مرتبہ انتخابات جیت کر وائٹ ہاوس میں آئے تھے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا کاروباری پسِ منظر اور سلیبریٹی حیثیت بھی ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ ہے۔ آئیووا میں ان کے ایک اور حامی کے مطابق ’ضروری نہیں کہ ملک کو چلانے والا کوئی سیاستدان ہی ہو، میرے خیال میں ملک چلانے کے لیے بہترین انتخاب وہ امیدوار ہوگا جسے کاروبار اچھے طریقے سے چلانا آتا ہو۔‘
ریپبلکن جماعت کے حامیو٘ں کے نزدیک موجودہ صدر جو بائیڈن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں بالکل مختلف شخصیت ہیں۔ صدر بائیڈن کوپ 26 موسمیاتی کانفرنس میں سوتے ہوئے نظر آئے تھے جس کے بعد ان کے ناقدین انھیں ’سلیپی جو‘ کے نام سے پکار رہے ہیں۔
لیکن پچھلی مرتبہ جب یہ دونوں مدِمقابل آئے تھے تو جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے دی تھی۔
تارکین وطن اور ٹرمپ
جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر میں دائیں بازو سے منسلک چینل ’نیشنل پلس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ تارکین وطن ’ہمارے ملک کے خون میں زہر گھول رہے ہیں‘ تو صدر بائیڈن نے اُن پر نازی جرمنی میں سنائی دینے والی بیان بازی کے استعمال کا الزام لگایا۔
اس انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا تھا اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ ایسے تمام لوگوں کا تعاقب کریں گے جو اُن کی مخالفت کرتے ہیں اور امریکہ سے ’کیڑوں‘ کا صفایا کر دیں گے، ایک مخصوص اصطلاح جس کا ایک خاص مطلب (تارکین وطن) ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر بائیڈن نے ٹرمپ کے اس بیان پر مزید کہا تھا کہ ’یہ وہی زبان ہے جو آپ نے 30 کی دہائی میں نازی جرمنی میں سُنی تھی۔ اور یہ پہلی بار بھی نہیں۔‘
نازی جرمنی کے پروپیگنڈے کا مطالعہ کرنے والے مؤرخین اور ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ صدر بائیڈن کی جانب سے کیے جانے والا موازنہ بالکل درست تھا۔
پنسلوانیا یونیورسٹی سے منسلک مؤرخ این برگ نے کہا کہ ’یہ صرف ایسا نہیں کہ ہم نے نازی جرمنی میں اس طرح کی زبان سنی تھی، بالکل وہاں ایسا ہوا بھی تھا۔‘
لیکن سی بی ایس کی رائے شماری سے پتا چلا کہ ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ٹرمپ کے ان تبصروں کی حمایت کرتی ہے۔
سی بی ایس نے رجسٹرڈ ریپبلکن ووٹروں سے دو طرح سے پوچھا کہ کیا وہ سابق صدر ٹرمپ کے بیان سے متفق ہیں یا اختلاف کرتے ہیں۔ اس سروے کے آدھے جواب دہندگان میں سے نصف سے صرف ’خون میں زہر دینے‘ کے تبصروں کے بارے میں پوچھا گیا جنھیں کسی سے منسوب نہیں کیا گیا، جبکہ باقی آدھے جواب دہندگان کو بتایا گیا کہ یہ الفاظ صدر ٹرمپ نے کہے ہیں۔
مگر دونوں ہی طرح زیادہ تر ووٹرز نے اس بات سے اتفاق کیا۔72 فیصد ووٹرز نے بغیر کسی سے منسوب کیے گئے بیان سے اتفاق کیا جبکہ 82 فیصد نے ٹرمپ سے منسوب بیان سے اتفاق کیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امیگریشن کے بارے میں ان کا موقف ان کے حامیوں میں مقبول ہے۔
نوجوان امریکیوں کی جانب سے مضبوط حمایت
ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک حالیہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ نوجوان ووٹروں میں بائیڈن سے زیادہ مقبول ہیں۔ دسمبر کے وسط میں نیو یارک ٹائمز اور سیانا کالج کی طرف سے شائع ہونے والے ایک سروے نے انھیں 18 سے 29 سال کی عمر کے ووٹروں میں چھ فیصد پوائنٹس آگے دکھایا۔
ماہرین ظاہری رجحان پر بحث کر رہے ہیں لیکن یہ 2020 کے انتخابات سے کافی مختلف تصویر پیش کر رہا ہیں کیونکہ اس وقت ٹرمپ نے بائیڈن کو اسی عمر کے گروہ کے سروے میں 24 فیصد پوائنٹس سے پچھاڑ دیا تھا۔
اسے بائیڈن کی نوجوانوں میں مقبول نہ ہونے کی ناکام کہا جا سکتا ہے اور اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ جہاں ایک طرف ٹرمپ کی مقبولیت ہے وہیں بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل حماس جنگ پر پالیسی سے وہ خائف ہیں۔
تاہم ایوؤا ینگ رہپلکن گروپ کی سربراہ میری ویسن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سمجھتی ہیں نوجوان رپبلیکن ووٹرز میں ٹرمپ کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی سٹیج پر طاقتور شخصیت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ جس طرح سٹیج پر بات کرتے ہیں اور جس طرح سے وہاں کھڑے ہوتے ہیں آپ بس انھیں دیکھتے ہی رہتے ہیں۔‘
اب وہ 23 برس کی ہیں لیکن وہ اس وقت ہائی سکول کی عمر میں تھیں، جب ٹرمپ صدر تھے اور بتایا جاتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ٹرمپ کی حمایت کرنے پر ان کا ’مذاق اڑایا تھا اور انھیں ہراساں کیا تھا‘ لیکن وہ اس حقیقت پر یقین رکھتی ہیں کہ ’وہ اپنے خیالات پر مضبوطی سے کھڑے ہیں‘ اور ’وہ جو بننا چاہتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے ‘ اور ان کی یہ ہی بات نوجوان ووٹروں کو متاثر کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے خلاف الزامات نے بھی ’ان کے حق کے لیے لڑائی‘ کی ایک اہم وجہ فراہم کی ہے تاکہ ڈیموکریٹس کو ثابت کیا جا سکے کہ ہم آج بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔‘
ٹرمپ کے خلاف عدالتی مقدمات کو بطور ’ظلم‘ دیکھا جاتا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ پر چار مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی ہے اور 2024 کے صدارتی انتخابات کے دوران بھی انھیں متعدد مقدمات کا سامنا ہوگا۔
ان پر نیویارک میں ایک مقدمہ چلایا گیا ہے اور جارجیا، فلوریڈا، مین ہٹن اور واشنگٹن میں مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی ہے جبکہ دیگر جگہوں پر وفاقی اور ریاستی استغاثہ نے متعدد تحقیقات شروع کی ہیں۔ متعدد ریاستوں میں دائر مقدمات میں یہ دلیل دیتے ہوئے کہ تین سال قبل کیپٹل ہل ہنگاموں میں ٹرمپ نے بغاوت پر اکسایا تھا، انھیں صدارتی انتخابات سے نااہل کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔
اگرچہ آپ یہ توقع کر سکتے ہیں کہ زیر التوا عدالتی مقدمات ان کی حمایت کو ختم کر دیں گے لیکن پولسٹر فرینک لانس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے ٹرمپ کو فائدہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ یہ کیس بنانے میں کامیاب رہے ہیں کہ وہ شکار ہیں، ان پر نہ صرف مقدمہ چلایا جا رہا ہے، بلکہ یہ ایک سازش ہے۔‘
’جب بھی ان پر فرد جرم عائد کی گئی ان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ جب بھی انھیں (مین اور کولوراڈو میں) بیلٹ سے ہٹایا گیا ان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ جب بھی آپ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس جاتے ہیں وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم نے امریکہ میں کبھی کسی کو اس طرح کا نہیں دیکھا۔‘
تاہم، یہ بات قابل غور ہے کہ آئیووا میں ٹرمپ کی کامیابی کے باوجود، وہاں بہت سے لوگ بالکل مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ جیسے جوڈی، جن کا کہنا ہے کہ ’وہ (ٹرمپ) خوفناک اور قابل نفرت ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ انھیں ووٹ کیوں دیں گے۔‘
اگر ٹرمپ کو ریپبلکن امیدوار بننا ہے تو انھیں ابھی بہت کام کرنا ہے۔
توقع ہے کہ انھیں اگلے ہفتے نیو ہیمپشائر پرائمری میں اقوام متحدہ کی سابق سفیر نکی ہیلی کی جانب سے ایک مضبوط چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا، جہاں پولز سے پتا چلتا ہے کہ ماضی کی غالب برتری اب کم ہو گئی ہے لیکن ریپبلکن ووٹروں کی طرف سے آئیووا میں اپنے پہلے امتحان میں توثیق ملنے کے بعد وہ اب بھی دوڑ میں زبردست فیورٹ ہیں۔